• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بریگزٹ ڈیل، تھریسامے کی سخت آزمائش
’’بریگزٹ ڈِیل ‘‘ کے موقعے پر یورپی کمیشن کے صدر ، جِین کلاڈ ، برطانوی وزیرِاعظم ، تھریسامے سے مصافحہ کرتے ہوئے

آخر کار یورپی یونین کے 28رہنمائوں نے متفقہ طور پر بریگزٹ معاہدے کی منظوری دے دی اور اب گیند برطانیہ کی کورٹ میں ہے۔ اس عمل سے برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسا مے کو کچھ عرصے کے لیے سُکھ کا سانس لینے کا موقع ملا، کیوں کہ وہ گزشتہ 2برس سے یورپی رہنمائوں کو ڈِیل کے ذریعے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی پر آمادہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں۔ 24نومبر کو یورپی یونین نے مسز مے کو وہ قانونی دستاویز فراہم کی، جسے وہ اپنی پارلیمان میں توثیق کے لیے پیش کر یں گی۔ معاہدے کے اچّھے یا بُرے ہونے سے قطعِ نظر، خاتون وزیرِاعظم کے سامنے اب سب سے بڑا چیلنج اس ڈِیل کی پارلیمنٹ سے توثیق کروانا ہے اوراس ضمن میں 11دسمبر کو ووٹنگ ہو گی۔ دوسری جانب اس معاہدے پر تھریسا مے کی اپنی جماعت، کنزرویٹیو پارٹی میں پُھوٹ پڑ چُکی ہے۔ اب تک دو وزراء مستعفی ہو چُکے ہیں، جب کہ حُکم راں جماعت کے کئی با اثر ارکانِ پارلیمان بھی اسے ایک ’’بد ترین معاہدہ ‘‘قرار دے رہے ہیں اور یہ تمام افراد اپنے ووٹ کے ذریعے اس کی مخالفت کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین اس معاہدے کو تھریسا مے کی وزراتِ عظمیٰ تک کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور اب پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ ہی حکومت کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

قبل ازیں، 24نومبر کو یورپی یونین کے تمام رہنما برسلز میں جمع ہوئے، تو ان کے سامنے برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان 2برس تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں تیار کیا جانے والا 585صفحات پر مشتمل ڈرافٹ موجود تھا۔ ان مذاکرات کے دوران کئی مواقع پر فریقین کے درمیان اختلافات سامنے آئے، لیکن بالآخر دونوں نے اُس دستاویز پر اتفاق کر لیا، جس میں لندن کے خصوصی اسٹیٹس اور تجارتی و دفاعی معاہدوں سے لے کر آئر لینڈ اور جبرالٹر تک کے معاملات کا احاطہ کیا گیاہے۔ ان معاملات پر آخری لمحات تک یورپی یونین کے رہنمائوں کے درمیان بھی بحث مباحثہ جاری رہا۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کوئی مُلک نہیں، بلکہ 28ممالک (برطانیہ کے نکل جانے کے بعد) پر مشتمل ایک اتحاد ہے، جس میں جرمنی جیسے اقتصادی طور پر طاقت وَر اور یونان اور پولینڈ جیسے کم زور معیشت کے حامل ممالک بھی شامل ہیں اور برطانیہ سے ان سب کے اپنے اپنے مفادات وابستہ تھے ، جب کہ بریگزٹ کا سبب پس ماندہ یورپی ممالک کے وہ شہری بنے، جن کی بڑی تعداد یورپی یونین کے قوانین کے تحت برطانیہ آکر آباد ہوئی۔ ان تارکینِ وطن نے نہ صرف یہاں نوکریاں حاصل کیں، بلکہ ان تمام مراعات سے بھی بے تحاشا فائدہ اٹھایا کہ جو ایک فلاحی ریاست میں شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں اور غریب ممالک میں ان کا تصّور تک ممکن نہیں۔ ان تارکینِ وطن میں پولینڈ اور ہنگری جیسے نسبتاً کم ترقّی یافتہ ممالک کے باشندوں کی تعداد کم و بیش 30لاکھ بتائی جاتی ہے۔تاہم، تارکینِ وطن کی آسودہ حالی برطانوی باشندوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے اسے اپنی محنت کی کمائی یا ٹیکسز پر دوسروں کی عیاشی سے تعبیر کیا۔ سو، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی یا بریگزٹ کی وجہ سے سب سے زیادہ تارکینِ وطن ہی متاثر ہوں گے کہ اس ڈِیل کے بعد انہیں اپنے وطن واپس جانا پڑے گا۔

تارکینِ وطن کے مستقبل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہی اس معاہدے پر حتمی عمل درآمد کے لیے 2سال یعنی 2020ءتک کی مُہلت دی گئی ہے، تاکہ کسی بھی قسم کے انسانی المیے سے بچا جاسکے۔ یاد رہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم سابق برطانوی وزیرِ اعظم، ڈیوڈ کیمرون نے کروایا تھا، جو خود برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے شدید مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ریفرنڈم کی کام یابی کے بعد وزارتِ عُظمیٰ سے مستعفی ہوتے ہوئے انہوں نے سیاست کو بھی ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا، لیکن جاتے جاتے اپنی رفیقِ کار اور جانشین، تھریسا مے کو ایک ایسی آزمایش میں مبتلا کر گئے کہ جس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہ تھیں، کیوں کہ وہ خود بھی اپنے پیش رَو کی طرح بریگزٹ کی مخالف تھیں۔ تاہم، وزیرِ اعظم بن جانے کے بعد انہوں نے ایک نہایت ذمّے دار حُکم ران کی طرح 51فی صد برطانوی باشندوں کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی۔ بریگزٹ مذاکرات کے دوران تھریسا مے کو ایک مشکل یہ بھی درپیش تھی کہ اس معاملے پر برطانوی معاشرہ منقسم ہے۔ یعنی بڑے شہروں میں رہنے والوں نے یورپی یونین میں رہنے کی حمایت کی تھی، جب کہ دیہات اور قصبوں کے مکینوں نے علیحدگی کی۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ نے بھی یونین میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ پھر ریفرنڈم کے 2برس بعد علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کی رائے میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ اس حوالے سے ناقدین کا ماننا ہے کہ شاید ان افراد نے اپنے فیصلے کے نتائج کا ادارک کیے بغیر ہی جذبات میں آ کر ووٹ دیے تھے اور اب وہ اپنے فیصلے سے رجوع کر رہے ہیں۔ لہٰذا، عوامی رائے کو جاننے کے لیے دوبارہ ریفرنڈم کروایا جائے کہ یہ ایک نہایت اہم قومی معاملہ ہے اور اس موقعے پر جلدی مچانے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، تھریسا مے نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 51فی صد برطانوی عوام کی رائے کا احترام کرتی ہیں اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ہر صُورت ممکن بنائیں گی۔ نیز، برطانوی وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے ہونے والی ڈِیل مسترد بھی کر دی، تو وہ برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ کردیں گی۔ تھریسا مے اسے ’’نو ڈِیل بریگزٹ‘‘ کہتی ہیں، جو اس وقت ان کے پائوں کی زنجیر بن چُکی ہے۔ تاہم، ان کا یہ فیصلہ قابلِ فہم بھی ہے، کیوں کہ وہ ریفرنڈم پر عمل درآمد ہی کے لیے وزراتِ عظمیٰ کے عُہدے پر فائز ہوئی تھیں اور مزید عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے گزشتہ برس قبل از وقت انتخابات بھی کروائے تھے، لیکن اس کے نتیجے میں وہ وَرثے میں ملنے والی حمایت بھی کھو بیٹھیں اور انہیں ایک کم زور اتحادی حکومت بنانا پڑی، جب کہ اس کے برعکس نہ صرف ان کے مخالفین مضبوط ہو گئے، بلکہ ان کی اپنی پارٹی میں موجود بریگزٹ مخالفین کی آوازیں بھی توانا ہو گئیں، جس نے ان کی حکومت کو غیر مستحکم کر دیا۔

تھریسا مے نے دسمبر میں پارلیمنٹ میں ہونے والی ووٹنگ سے قبل ایک سہ جہتی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔اس کے تحت انہوں نے سب سے پہلے اپنی قوم کے نام ایک کُھلا خط لکھا ہے، جس میں برطانوی عوام کو مذکورہ ڈِیل کے فواید گنوائے گئے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ اس عمل کے ذریعے رائے عامّہ کی حمایت حاصل کرنا اور ارکانِ پارلیمان پر دبائو بڑھانا چاہتی ہیں۔ علاوہ ازیں، خاتون وزیرِ اعظم مختلف شہروں میں عوام سے خطاب کر کے اُنہیں اس معاہدے کی افادیت سے بھی آگاہ کر رہی ہیں۔ نیز، وہ ارکانِ پارلیمنٹ کو بھی اس بات پر متّفق کرنے کے لیے مُہم چلا رہی ہیں کہ ان حالات میں اس سے بہتر ڈِیل ممکن نہیں تھی۔ تھریسا مے کے مطابق، برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ دوبارہ اپنی سرحدوں کا کنٹرول حاصل کر لے گا۔ یعنی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد اسے اپنے مُلک میں تارکینِ وطن کو داخل ہونے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا اختیار مل جائے گا۔ یاد رہے کہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے شہری ویزے کے بغیر کسی بھی رُکن مُلک میں جا کر نہ صرف ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ مقامی ملازمین کو ملنے والی مراعات کے بھی مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم، اس ڈِیل کے بعد برطانیہ کو تارکینِ وطن سے متعلق اپنی پالیسی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا موقع ملے گا۔ برطانوی وزیرِ اعظم کا مزید کہنا ہے کہ علیحدگی کے بعد برطانیہ اپنی کرنسی اور سرمائے کی آمد و رفت پر بھی کنٹرول حاصل کر لے گا، جب کہ اس وقت اسے یورو کی بہ جائے پائونڈ ہی کو اپنی کرنسی برقرار رکھنے کے باوجود بھی یورپی یونین کے قوانین پر عمل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ تھریسا مے یہ بھی بتاتی ہیں کہ معاہدے کی توثیق کے بعد برطانیہ پر یورپی عدالتوں کے قوانین کا اطلاق ختم ہو جائے گا اور وہ اپنے قوانین خود لاگو کر سکے گا، جب کہ مستقبل میں برطانوی قانون ساز ادارے قانون سازی میں مکمل طور پر آزادو خود مختار ہوں گے۔ معاہدے کی توثیق سے برطانیہ کو کھیتی باڑی اور ماہی گیری پر عاید پابندیوں سے بھی نجات مل جائے گی، جن سے برطانوی عوام کے مفاد پر زد پڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ برطانوی شہریوں کے لیے ملازمتوں اور مراعات میں بھی اضافہ ہو گا۔

بریگزٹ ڈیل، تھریسامے کی سخت آزمائش
ہزاروں برطانوی باشندے یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے خلاف مظاہرہ کررہے ہیں

برطانوی وزیرِ اعظم کے مطابق، یورپی یونین سے علیٰحدگی کے بعد بھی دفاعی معاملات میں برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعاون اور اتحاد برقرار رہے گا اور برطانیہ، نیٹو میں بھی اپنی شمولیت برقرار رکھے گا۔ گرچہ اس معاہدے کے تحت برطانیہ کو یورپ کے دیگر ممالک سے تجارت اور تجارتی معاہدے کرنے میں آزادی ہو گی، لیکن کم و بیش 2برس پر محیط عبوری دَور میں سابقہ صورتِ حال برقرار رہے گی۔ تاہم، اس معاملے پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں، کیوں کہ یورپی یونین کا اصرار ہے کہ کسٹم یونین اور سنگل مارکیٹ کی پابندی کے بغیر برطانیہ اور رُکن ممالک کے درمیان تجارت ممکن نہ ہو گی۔ سو، فی الوقت یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس پر سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں امریکا اور برطانیہ کے درمیان تجارت میں بہت زیادہ مشکلات پیش آئیں گی اور یہ معمولی معاملہ نہیں، کیوں کہ امریکا، برطانیہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ تاہم، تھریسا مے کا کہنا ہے کہ دونوں روایتی اتحادیوں کے درمیان تجارتی معاہدہ ممکن ہو گا۔ معاہدے کی مخالفت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ اس ڈِیل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ مارچ 2019ء سے دسمبر2020ء تک کے عبوری عرصے میں برطانیہ، یورپی یونین میں تو موجود رہے گا، لیکن اس کے پاس کسی فورم پر اپنی بات منوانے کا اختیار نہیں ہو گا، جب کہ معاہدے کی حمایت کرنے والوں کا اصرار ہے کہ اس عبوری عرصے کے دوران تجارت سمیت دیگر معاملات آسانی سے طے کرنے میں خاصی مدد ملے گی اور برطانوی عوام کو اچانک کسی افتاد کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں، عبوری عرصے کے دوران برطانیہ کو یورپی یونین کے ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل ہو گی، جس سے دہشت گردی سمیت سیکوریٹی کے دیگر مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

بریگزٹ ڈیل، تھریسامے کی سخت آزمائش
سابق برطانوی وزیرِاعظم، ڈیوڈ کیمرون

دوسری جانب اس وقت برطانیہ کو ایک سیاسی بُحران کا بھی سامنا ہے۔ کابینہ سے دو وزراء مستعفی ہو چُکے ہیں اور ان کی جگہ جلد بازی میں نئے وزراء بنائے گئے ہیں، جب کہ حکومت میں شامل ارکان ہی تھریسا مے کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس مُلک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت، لیبر پارٹی اس شش و پنج کا شکار ہے کہ وہ بریگزٹ کی حمایت کرے یا مخالفت۔ سو، یہ کہا جا سکتا ہے کہ بریگزٹ برطانوی قوم کے لیے ایک ایسی کڑوی گولی بن چُکا ہے، جسے اُگلا جا سکتا ہے اور نہ نگلا اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے دوران نتائج کا ادراک کیے بغیر ہی ووٹ دیا گیا۔ سو، برطانیہ کی موجودہ صورتِ حال میں اُن جمہوری ممالک کے سیاسی رہنمائوں کے لیے بھی سبق پوشیدہ ہے، جو بِلا سوچے سمجھے ہی انتہائی اہم دعوے کر لیتے ہیں، لیکن جب انہیں پورا کرنے کا وقت آتا ہے یا جب انہیں حقیقت کا ادراک ہوتا ہے، تو وہ مزید وقت مانگنے لگتے ہیں۔ واضح رہے کہ بریگزٹ ریفرنڈم کے فوراً بعد ہی یورپی یونین نے واضح کر دیا تھا کہ اتحاد کا ٹوٹنا ناقابلِ برداشت ہے اور اس سے علیحدہ ہونے والے مُلک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سو،یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اس وقت برطانیہ اپنے کیے کی سزا بُھگت رہا ہے۔یہا ں یہ اَمر بھی دِل چسپی کا باعث ہے کہ آج سے 75برس قبل برطانیہ پورے یورپ کے پیچھے کھڑا تھا اور آج سارا یورپ، برطانیہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا ہے۔ بریگزٹ کے حمایتیوں کا دعویٰ تھا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد مُلک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اوراب وہ کسی معاہدے کے بغیر ہی الگ ہونا چاہتے ہیں ، جو ایک غلط فیصلہ ہے، کیوں کہ اب جب کہ بریگزٹ ناگزیر ہو گیا ہے، تو ڈِیل ہی اس کا بہتر حل ہے، کیوں کہ اس کے بغیر بے یقینی مزید بڑھ جائے گی۔ اگر برطانیہ کسی معاہدے کے نتیجے میں یورپی یونین سے الگ ہوتا ہے، تو اس کے سبب عبوری دَور میں برطانیہ کو کچھ سنبھلنے کا موقع ملے گا۔ بہ صورتِ دیگر علیحدگی کا عمل مُلک میں افراتفری پر منتج ہو گا اور وزیرِاعظم تھریسا مے کی کم زور اتحادی حکومت کا برقرار رہنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

تازہ ترین