• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے معذور افراد کے حقوق سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وفاقی اور تین صوبائی حکومتوں کی جانب سے پیش کردہ رپورٹس مسترد کرتے ہوئے جو ریمارکس دیئے ہیں، اُن سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت معذور افراد کے ساتھ ہونے والے سلوک کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے واضح طور پر کہا کہ وفاق اور صوبے، معذوروں کے حقوق پر جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کر رہے ہیں، حالاں کہ ہم معذورین کے حوالے سے بنائے گئے قوانین میں دُنیا سے بہت پیچھے ہیں اور جو قوانین موجود ہیں اُن پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس سے قبل بھی معذور افراد کے حقوق سے متعلق کئی احکام جاری کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ برس مارچ میں وفاقی حکومت اور ادارہ شماریات کو حکم دیا تھا کہ وہ معذور افراد کو مردم شماری میں شامل کرنے کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کریں۔ اس فیصلے کی رو سے مردم شماری کے مین فارم 2اے کے کالم نمبر 3(جنس) میں معذور مرد کے لیے کوڈ 4، معذور عورت کے لیے کوڈ 5اور خواجہ سرا کے لیے کوڈ 6 لکھا جائے، جب کہ اسی سال جولائی میں سپریم کورٹ نے ادارہ شماریات کو معذور افراد کے اعداد و شمار مرتب کرنے کا حکم بھی دیا تھا، لیکن جب مردم شماری کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے، تو ان میں معذور افراد کے اعداد و شمار موجود نہیں تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے معذوروں کے حقوق کے پہلے اہم ترین نکتے ’’ہم کتنے ہیں‘‘ کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔

ایک عام تخمینے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا پانچ تا دس فی صد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے، 1981ء میں پہلی بار خصوصی افراد کے بارے میں قانون سازی کی گئی اور ملازمتوں میں ان کے لیے دو فیصد کوٹا رکھا گیا۔2002ء میں خصوصی افراد کے لیے ایک اور نیشنل پالیسی بنائی گئی۔2006ء میں نیشنل پلان آف ایکشن برائے خصوصی افراد متعارف کروایا گیا، جس کے تحت پورے معاشرے کو معذور دوست بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس پلان کے تحت عمارتوں، مساجد، پبلک مقامات پر معذور افراد کے لیے خصوصی سہولتیں فراہم کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن اس پلان پر جزوی طور پر عمل ہوا۔ 2009ء میں معذور افراد کے لیے خصوصی ٹرانسپورٹ پالیسی کا اعلان ہوا۔ معذور افراد کو ڈیوٹی فری گاڑیاں درآمد کرنے کی خوش خبری سنائی گئی، لیکن ان میں سے کسی بھی پالیسی پر مکمل عمل درآمد ہی کی نوبت نہ آسکی۔

معذور افراد سے متعلق قانون سازی میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ، قانون ساز اداروں میں معذور افراد کے نمائندوں کا نہ ہونا ہے۔ اسمبلیوں میں نمائندے نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ جو سیاسی نمائندے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، وہ خود بھی معذوروں کے مسائل سے واقف نہیں ہوتے، لہٰذا ان سے متعلق قانون سازی نہیں ہو پاتی۔ تمام قوانین کا بنیادی مقصد معاشرے میں توازن، مساوات اور انصاف کی فراہمی ہے۔ پاکستان کے آئین کی رُو سے تمام شہریوں کے یکساں حقوق ہیں۔ صحت، روزگار، تعلیم اور دیگر تمام شعبوں میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ ایک معذور فرد بھی اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک عام شہری جیسے حقوق رکھتا ہے۔ یہ اُس کا وہ بنیادی حق ہے، جو اُسے آئین ِ پاکستان کی رو سے حاصل ہے۔

معذوری کی اصطلاح دنیا بھر میں ایک وسیع تر مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے۔ تاہم اب اس کی جگہ خصوصی (اسپیشل) افراد کی اصطلاح نے لے لی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق دنیا میں تقریباً ایک بلین افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ معذور افراد کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے ماحول اور اپنے سماج سے عدم مطابقت ہے۔ لوگ اُن سے گھلنے ملنے سے کتراتے ہیں اور ان کی جسمانی وضع قطع کے حوالے سے منفی خیالات رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں ہونے والے کئی فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ یہ صورت حال تمام معاشروں میں ملتی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں یہ تشویشناک حد تک دیکھی جاتی ہے۔ تصوراتی حد تک ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کے تمام انسان برابر ہیں اور سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اس بنیاد پر معذور افراد کو بھی زندگی کے تمام شعبوں میں شرکت کا مساویانہ حق حاصل ہونا چاہیے اس مقصد کے حصول کے لیے تمام تیکنیکی اور عملی وسائل کو معذوروں کی سہولت کے لیے بروئے کار لانا چاہئے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں معذور افراد کو اگر چہ انہیں ’’خصوصی افراد‘‘ کہا جاتا ہے۔ کوئی خاص یا خصوصی رتبہ، احترام حاصل نہیں ہے، نہ ہی ان کے لیے خصوصی مواقع دستیاب ہیں۔ ڈس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر، جاوید رئیس کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’’ایک بہترین معاشرہ، معذور افراد کو برابری کی سطح پر تمام انسانی حقوق اور سہولتوں کی فراہمی یقینی بناتا ہے، لیکن پاکستانی معاشرے میں معذور افراد کے حقوق کی بات کرنا، خواب و خیال کے مترادف ہے۔ پاکستان میں ایک ایسے مثالی معاشرے کی ضرورت ہے، جہاں جسمانی، ذہنی اور حادثاتی معذور، قوتِ سماعت اور گویائی سے محروم افراد کو تمام سہولتیں حاصل ہوں۔ تمام تعلیمی ادارے معذور افراد کے داخلوں کو یقینی بنائیں۔ تمام سرکاری و نجی ادارے، تفریحی مقامات، ذرائع آمدورفت قابلِ رسائی ہوں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ معذوروں کے حقوق سے متعلق گزشتہ دور حکومت میں ایک اہم بل منظور کیا گیا اور موجودہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ ایجنڈے میں بھی اسے شامل کیا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اہل کار اس ضمن میں کوئی خاص دل چسپی نہیں لے رہے، جس کی وجہ سے معذور افراد مایوسی سے دوچار ہیں۔ ہماری سندھ حکومت سے درخواست ہے کہ معذورین سے متعلق تمام قوانین پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ معذور افراد کے مسائل اور حقوق کے ضمن میں آواز اٹھائیں۔‘‘

جہاں تک معاشرتی رویوں کا تعلق ہے، جسمانی، ذہنی معذور افراد اس بارے میں نہ کوئی شکایت کر سکتے ہیں، نہ ہی سماج سے کوئی مطالبہ، ہمارے آپ کے درمیان یہ خدا کے مہمان ہیں، جن کے ساتھ نیک سلوک کرنا، اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ہے کہ ہم ایسے نہیں۔ ذہنی پس ماندہ افراد کے لیے مخیر افراد نے ملک میں بہترین ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ اس تحریر کا اصل موضوع جسمانی طور پر معذور افراد ہیں، کیوں کہ ایسی معذوری صرف جسمانی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہے۔ ذہنی اعتبار سے ایسا فرد مکمل طور پر صحت مند اور سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے مالا مال ہوتا ہے۔ تاہم جسمانی لحاظ سے روزمرہ معمولات کی انجام دہی میں اُسے کچھ رکاوٹیں پیش اتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ جسمانی معذور افراد کی خودانحصاری کی کوششوں میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ اوّل تو ہم جسمانی معذور افراد کو معاشرے کے کار آمد فرد کا درجہ ہی نہیں دیتے۔ اگر کسی گھر میں کوئی معذور بچہ پیدا ہو جائے، تو اہل خانہ اسے اپنے لیے مصیبت سمجھ لیتے ہیں، پس ماندہ گھرانوں میں تو اسے اللہ کا عذاب اور کسی کی بددعا کا نتیجہ تک سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسی اولاد والدین کے لیے بوجھ بن جاتی ہے اور یہ بچے اپنے صحت مند اور تندرست بہن بھائیوں کے مقابلے میں حقیر گردانے جاتے ہیں۔ جبکہ دانش مندی یہ ہے کہ انہیں صحت مند اولاد پر ترجیح دی جائے۔ ان کی ضروریات کا سب سے پہلے خیال رکھا جائے۔ ان کی ذہنی صلاحیتوں کو مثبت راہوں پر موڑا جائے اور جسمانی معذوری کو ذہنی معذوری میں بدلنے سے روکا جائے۔

ایک معذور فرد کا حق ہے کہ اُسے مواقع میں برابری ملے، یعنی ایک ایسا عمل جس کے ذریعے ماحول، گھر، ذرائع آمدورفت، تعلیم، کام کے مواقع اور صحت سے متعلق سہولتیں حاصل ہوں، اُسے کھیل تفریح اور تہذیبی زندگی کے تمام مراحل سے لطف اندوز ہونے کے مواقع دستیاب ہوں۔ اس ضمن میں اُن تمام چیزوں یا عوامل کو دور کیا جائے، جو ان شعبوں میں بھرپور شرکت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہوں۔ جسمانی معذور بچے کے لیے بنیادی چیز تعلیم ہے، بہتر تعلیم ہی کی بنیاد پر معذور بچہ/ فرد زندگی کے آئندہ تمام مراحل بآسانی طے کر سکتا ہے، تاہم ہمارے ملک میں تمام اسکولوں میں جسمانی معذور بچوں کے لیے خصوصی انتظام کا فقدان ہے۔

تعلیمی مراحل سے گزرنے کے بعد ایک معذور فرد کو معاشی نظام کا حصہ بننے کا حق حاصل ہے۔ ایک عام فرد کی طرح اسے بھی ملازمت یا کاروبار کرنا چاہیے اگر اس کی جسمانی و ذہنی صلاحیتیں اس کے مطابق ہوں، البتہ اُسے اس ضمن میں خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں۔ برطانیہ میں کوئی بھی آجر جو اپنے دفتر، کارخانے یا کاروبار میں بیس سے زائد ملازمین رکھتا ہے۔ معذور لوگوں کو قانونی طور پر تین فی صد ملازمتیں فراہم کرنے کا پابند ہے۔ یہاں کچھ ملازمتیں رجسٹرڈ معذور افراد کے لیے ہیں مثلاً ٹیلی فون آپریٹر، کار پارکنگ اٹینڈنٹ یا لفٹ آپریٹر وغیرہ، محکمہ روزگار کے دفاتر میں ایسے افسران مقرر ہیں، جن کے فرائض میں معذور افراد کی آباد کاری شامل ہے۔ یہ افسران معذور افراد کو تربیت اور روزگار کے مواقع سے آگاہ رکھتے ہیں اور مختلف ملازمتوں کے حصول میں ان کی معاونت بھی کرتے ہیں یہ افسران حادثات سے متاثرہ بیمار اور عرصہ دراز سے بے روزگار افراد کے لیے مختلف کورسز کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ یہ افراد اپنے آپ کو کام کاج کے اعتبار سے کارآمد بنائیں۔ تربیت کے دوران آمدورفت کے اخراجات بھی ادا کیے جاتے ہیں، خاص طور پر اُن کے لئے، جو معذوری کے سبب پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔

پاکستان میں بھی معذور افراد کے لیے نجی اور سرکاری سطح پر اس قسم کے انتظامات کیے جانے چاہئیں۔ اگرچہ سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کا تین فی صد کوٹا مقرر ہے، لیکن اسے بڑھا کر دس فی صد کیا جانا چاہیے کہ مختلف مراحل کی بنیاد پر معاشرے میں معذور افراد کی تعداد میں گزشتہ بیس سال کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ معذور افراد کے بارے میں لاتعلقی اور بے گانگی کے احساس کو ختم کرنے کے لیے معاشرے کو ’’معذور دوست‘‘ بنانے کے اقدامات کا آغاز کیا جائے، خصوصاً تعمیرات کے شعبے میں معذور افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے چڑھائی والے (ریمپ) راستے بنائے جائیں، خاص طور پر مساجد میں، کیوں کہ ننانوے فی صد مساجد میں معذور افراد کے داخل ہونے کا مناسب بندوبست نہیں ہے۔ پبلک لائبریری، باغات، سینما گھر، شاپنگ سینٹرز اور ایسے ہی دیگر مقامات، معذور افراد کے لیے قابل رسانی بنائے جائیں۔ ملک کے تمام شہروں میں ٹریفک بے تحاشا بڑھ گیا ہے، مگر کسی بھی شہر میں معذور افراد کے لیے سڑک عبور کروانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ زمین دوز راستوں کے ذریعے یہ کمی دور کی جا سکتی ہے۔ خصوصاً بڑے شہروں میں سڑک عبور کرنے کے لیے خصوصی زمین دوز راستے ترجیحی بنیاد پر تعمیر کر دیئے جائیں، تو نہ صرف معذور بلکہ عام صحت مند شہری بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

انسانوں کی خدمت، قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن اگر معاشرے کی توجہ سے محروم افراد کی خدمت کو شعار بنا لیا جائے، تو اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہو گی؟

مقبوضہ کشمیر میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ

جرنل آف بزنس مینجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء تک مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد افراد فورسز کی بے رحمانہ کارروائیوں کی وجہ سے معذور ہو چکے ہیں۔ 2016ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیلیٹ گن کے استعمال کی وجہ سے 1314 ؍افراد کی بینائی متاثر ہوئی۔ ایک کشمیری روزنامے کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں بینائی کے معذوروں کی زیادہ تعداد کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں جو 14جون 2018ء میں شائع ہوئی، کہا گیا کہ مارچ 2016ء سے مارچ 2017ء کے دوران 6221؍افراد پیلیٹ گن سے زخمی ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد حکومت کے فراہم کردہ اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران وادی کے دس اضلاع میں 3108؍افراد کو مصدقہ طور پر معذور قرار دیا گیا ہے۔ ضلع کپواڑہ میں 10,825، بارہ مولا میں 7274اور پلواما میں 5461؍افراد معذور قرار دیئے گئے ہیں۔

معذور ہیں تو کیا…؟

مصر کی ایک بیس سالہ لڑکی جسے جسمانی معذوری کے باعث تعلیمی اداروں نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سائنس کے مضامین میں 91فی صد نمبرز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ میرینا نامی یہ طالبہ ہڈیوں اور پٹھوں کی بیماری میں مبتلا ہے اور حرکت کرنے سے قاصر ہے۔ وہ وہیل چیئر پر دوسروں کے سہار ے حرکت کر سکتی ہے، مگر اس کا ذہن توانا ہے۔ وہ اب اپنی بیماری کے بارے میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ جان سکے وہ کس مرض میں مبتلا ہے اور اس سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے، اور دوسرے لوگوں کو اس بیماری سے کس طرح بچایا جا سکتا ہے۔

ایسی ہی ایک کہانی صوبہ خیبر پختون خوا کے علاقے، صوابی سے تعلق رکھنے والی گیارہ برس کی نایاب کی ہے، جس نے ایک ہاتھ سے معذور ہونے کے باوجود 2015ء کے 17ویں اسپیشل اولمپکس میں دو سو میٹر کی دوڑ میں تیسری پوزیشن جیت کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ اُس وقت وہ تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے اسکول ہی میں سکھایا گیا تھا کہ معذوری کو کبھی رکاوٹ بننے نہیں دینا۔ خود اعتمادی اور لگن سے ہر مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نایاب کو پیدائشی طور پر ایک ہاتھ سے معذور ہونے کے باوجود تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود سے بھی دل چسپی ہے۔

تازہ ترین