چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیوٹ (پی کے ایل آئی )میں بچوں کے جگر کی پیوند کاری نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جگر کی پیوند کاری کے منتظر بچوں کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے، 34 ارب روپے لگ گئے ہیں مگر علاج کی سہولت فراہم نہیں ہوسکی ، اتنی رقم میں تو چار اسپتال بن جاتے ۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پی کے ایل آئی میں بے ضابطگیوں پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر جواد ساجد نے عدالت کو بتایا کہ پی کے ایل آئی میں فوری طور پر بچوں کے جگر کی پیوند کاری ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ قوم سے کیا گیا وعدہ واپس لینا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے تشویش ظاہر کی کہ جگر کی پیوند کاری کے منتظر بچوں کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے کیونکہ بھارت ویزا نہیں دے گا، چین جانے کی استطاعت نہیں ۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 70 سال ہو گئے ڈاکٹر ایسی سہولتیں پیدا نہیں کر سکے،اگر بھارت کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے، جگر کی پیوند کاری کے منتظر بچوں کا کیا بنے گا؟ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ان لوگوں کیخلاف ریفرنس دائر نہیں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نےکہاکہ ڈیم کیلئے 10 ارب روپے اکٹھے نہیں ہوسکے، ان لوگوں کو 34 ارب روپیہ مل گیا،ڈاکٹروں کی اجتماعی ذمہ داری تھی کہ وہ جگر کی پیوند کاری کیلئے مہم چلاتے۔
ڈاکٹر ہما ارشد نے عدالت کو بتایا کہ وہ پی کے ایل آئی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کے پاس گئیں تو انہوں نے جھاڑ پلا دی ، چیف جسٹس نے باور کرایا کہ ڈاکٹر سعید اختر سے سوالات کئے تو سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کیخلاف مہم شروع کر دی گئی۔
عدالتی استفسارپر ڈاکٹر سعید اختر نے بتایا کہ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے نیو یارک ہسپتال کی مثال دے کر ویسا کام کرنے کا آئیڈیا دیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سابق وزیراعلی نے اپنا علاج خود وہاں کرایا اس لئے اس کی مثال دی، پی کے ایل آئی کے ڈاکٹر جواد ساجد نے بتایاکہ پی کے ایل آئی میں بڑوں کے جگرکی پیوند کاری مئی میں ممکن ہو سکے گی۔