پاکستان کا کوئی بھی شہر یا قصبہ ایسا نہیں جہاں بااثر لوگوں یا مافیاز نے سرکاری یا نجی زمینوں پر ناجائز قبضہ نہ کیا ہو جو کئی سالوں بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ عام شہری اور حکومت بے بس ہے کہ وہ کس طرح ان زمینوں کو واگزار کرائے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد شہر میں قانون کی حکمرانی سب سے زیادہ ہے کیونکہ یہاں حکومت کے تمام اہم اور طاقتور لوگ رہتے ہیں اور جو بھی غیر قانونی کام کرتا ہے وہ قانون کے شکنجے میں آجاتا ہے مگر ایسا ہر گز نہیں ہے۔ زمینوں پر ناجائز قبضے کو لے لیں تو لگتا ہے کہ قانون کا مذاق جتنا اسلام آباد میں اڑایا جا رہا ہے اتنا کسی اور شہر میں نہیں۔ سیکٹرز ایف 12 اور جی 12 کی ہزاروں ایکڑ اراضی جس کی مالیت اربوں کھربوں روپے بنتی ہے ناجائز قابضین کے پاس ہے۔ سی ڈی اے کے ماسٹر پلان کے تحت یہ دونوں رہائشی سیکٹرز ہیں جہاں کے مکینوں کیلئے کلاس تھری شاپنگ سینٹرز اور دوسرے کاروباری مراکز بھی تعمیر ہونے تھے مگر ایسا نہیں ہوا ۔ کسی کو بھی رتی برابر شک نہیں ہے کہ ان زمینوں پر ناجائز قبضے کے پیچھے مافیا کا ہاتھ ہے جس میں حکمراں جماعت کے کچھ افراد بھی شامل ہیں۔ اس غیر قانونی کام میں سی ڈی اے بھی مکمل طور پر ملوث ہے۔ اسلام آباد میں رہائشی مسئلے کو حل کرنے کیلئے ان دو سیکٹرز میں جو ہزاروں گھر مہیا کرنے تھے نہیں کئے جاسکے۔ کئی دہائیاں پہلے سی ڈی اے اس علاقے کے اصل مالکان کو معاوضہ ادا کر چکی ہے مگر وہ اس کا قبضہ حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
بجائے اس کے کہ کئی سال قبل سی ڈی اے ان سیکٹرز کو ناجائز قابضین سے واگزار کراتی اس نے مافیاز کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور ان کو اسی حالت میں چھوڑ کر آگے سیکٹر جی 13اور جی 14 ہائوسنگ فائونڈیشن کو الاٹ کر دیئے جہاں کے ترقیاتی کام ہو چکے ہیں اور کافی گھر بھی بن چکے ہیں یعنی یہ سیکٹرز کافی حد تک آباد ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں سی ڈی اے معاوضے کی ادائیگی کے بعد قبضہ لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ سی ڈی اے کی مکمل ناکامی کی وجہ سے ایف 12 اور جی 12 میں مافیاز نے اپنی مرضی سے بے شمار ناجائز تعمیرات کر لی ہیں، بڑے بڑے گھر بنا لئے ہیں اور یہاں تک کہ شادی ہال بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بڑے زور شور سے جاری ہے جو کہ ہر روز قانون کو منہ چڑا رہا ہے۔ جب یہ ساری تعمیرات ہی ناجائز ہیں تو کیسے ان کو بجلی کی سپلائی دی جارہی ہے۔ ان میں سے کسی بھی بلڈنگ کی منظوری سی ڈی اے نے نہیں دی اور اس کے ریکارڈ کے مطابق یہ تمام ناجائز تجاوزات ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ سی ڈی اے نے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی کہ وہ قانون کا سہارا لے کر اپنی زمین ناجائز قابضین سے خالی کرائے۔ اصل کمی ہمیشہ اعلیٰ سطح پر سیاسی حمایت کی رہی ہے اگر حکومتی سطح پر یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ یہ زمین واپس لینی ہے تو یقیناً مشکلات تو آئیں گی لیکن یہ کام ناممکن نہیں ہے۔ اسلام آباد میں رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی قیمتیں پاکستان کے تمام شہروں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہیں۔ ایف 12 اور جی 12 کے ہزاروں رہائشی اور کمرشل پلاٹوں سے حکومت کو اربوں روپے مل سکتے ہیں جس سے نہ صرف ان سیکٹرز میں ترقیاتی کام کیا جاسکتا ہے بلکہ سی ڈی اے کے مالی مسائل بھی کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ اس سے اسلام آباد جو کہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے کو بھی مکمل کیا جاسکتا ہے۔ شیخ انصر عزیز جن کا تعلق حکمران نون لیگ سے ہے خوش قسمت ہیں کہ وہ اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے پہلے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ انہیں یہ عہدہ صرف اس لئے ملا ہے کہ وہ وزیراعظم کے بہت قریب ہیں حالانکہ کہ اسلام آباد اس جماعت کی سیاست میں اس سے قبل ان کا کبھی نام تک نہیں سنا ۔ وہ کسی یونین کونسل کے چیئرمین بھی منتخب نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ممبر کی ایک ا سپیشل سیٹ جیتنے کے بعد بنے اس کے بعد انہیں میئر منتخب کر لیا گیا۔ یہ ان کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ پہلا عہدہ ہی انہیں اتنا اہم ملا ہے۔ وہ کافی عرصہ سے اسلام آباد میں کاروبار کر رہے ہیں اور ہر لحاظ سے اس شہر کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔ چونکہ انہیں اعلیٰ ترین سطح پر مکمل حمایت حاصل ہے لہٰذا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ بڑے سے بڑے اور مشکل فیصلے بغیر کسی خوف کے کر سکیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے مشن میں ایجنڈا نمبر ون ناجائز تجاوزات کا خاتمہ رکھیں اور اس میں سب سے اول سیکٹر ایف 12اور جی 12کو ناجائز قابضین سے چھڑوائیں اور حکومت کے اربوں کھربوں روپے واپس دلائیں۔ جہاں تک ہو سکے کرپٹ افسران کو اس کام سے دور رکھیں اور اپنی نئی ٹیم جو کہ ایماندار اور دلیر افسران پر مشتمل ہو سامنے لائیں۔ اس وقت نواز شریف حکومت کیلئے حالات بہت سازگار ہیں انہیں کسی بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے لہٰذا یہ وقت ہے کہ مشکل سے مشکل فیصلے جن سے عوام کو فائدہ ہو کئے جائیں۔ یقیناً اگر شیخ انصر عزیز یہ جرات کرتے ہیں کہ ان دونوں سیکٹروں کو ناجائز قابضین سے خالی کرانا ہے تو انہیں وزیراعظم کی حمایت حاصل ہوگی۔ اگلے چند ماہ سی ڈی اے اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے درمیان اختیارات کا مسئلہ رہے گا کیونکہ اسلام آباد میں یہ تجربہ پہلی بار ہو رہا ہے ۔ لگ یوں رہا ہے کہ بیشتر کام کارپوریشن کے پاس چلا جائے گا جبکہ سی ڈی اے کے پاس پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور پلاننگ کے محکمے رہ جائیں گے۔ بلا شبہ وزیراعظم کی پشت پناہی کی وجہ سے اسلام آباد کے میئر زیادہ طاقتور ہوں گے۔
شیخ غلام حسین جو80 ءکی دہائی میں راولپنڈی کے میئر بنے تھے نے شہر میں تجاوزات ختم کرنے کیلئے بڑی جرات مند اقدامات کئے تھے جس کو بہت سراہا گیا تھا ۔ انہیں اس وجہ سے آج تک یاد کیا جاتا ہے اگرچہ وہ اگلا الیکشن قبضہ مافیا کی وجہ سے ہار گئے تھے۔ نئے میئربھی اسلام آباد کی تاریخ میں اپنا نام اس وجہ سے ہی لکھوا سکتے ہیں کہ وہ ناجائز قابضین کے خلاف بڑے اقدامات کر جائیں۔ اسلام آباد میں ناجائز تجاوزات کا مسئلہ صرف ایف 12 اور جی 12 کو ہڑپ کرنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ اس کے گردو نواح میں بھی قبضہ مافیا راج کر رہا ہے۔ سی ڈی اے کی ہزاروں ایکڑ اراضی جس کا معاوضہ یہ کئی دہائیاں پہلے ادا کرچکا ہے پر اب بھی لوگ ناجائز قبضہ کئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سی ڈی اے میں اتنی جرات ہی نہیں ہے کہ وہ ان کے خلاف کوئی ایکشن لے تاہم جب بھی سپریم کورٹ نے سخت قسم کے آرڈر جاری کئے تو پھر کچھ عرصہ تک یہ ادارہ متحرک ہوا اور کچھ کارکردگی بھی دکھا دی۔ نئے میئر کو چاہئے کہ وہ ہائوسنگ سوسائٹیز کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون پر عملدرآمد کرائیں اس طرح سے کہ یہ سیکٹر ترقی بھی کرے تاکہ لوگوں کو سستے پلاٹ مل سکیں اور اسے غیر قانونی کاموں سے بھی روکا جاسکے۔ اس کیلئے انہیں باقاعدہ پالیسی بھی لانے کی ضرورت ہے جس میں موجودہ قانون میں ترمیم بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کام میں انہیں بڑے بڑے مگر مچھوں سے پالا پڑے گا تاہم وزیراعظم کی مکمل حمایت کی وجہ سے وہ ان سے بخوبی نمٹنے کے قابل ہوں گے۔ اسلام آباد کے ریگولر سیکٹرز میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہاں تو صرف سڑکوں اور گلیوں کی مرمت سے ہی کام چل جائیگا اصل کام اسلام آباد کے گردو نواح میں ہے۔