• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے گزشتہ دوبرس کے دوران بریگزٹ کے حوالے سے مذاکرات میں جو ’’پھرتیاں‘‘ دکھائی ہیں ان پر وہ نہ صرف اپوزیشن بلکہ اپنی ہی کابینہ اور پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے میں ناکام ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ان دو برس کے دوران وزیراعظم نے اپنے سخت گیر روئیے کی وجہ سے اپنے بہت سے دوستوں کو بھی دشمن بنالیا ہے جن میں خود ان کے وزیرخارجہ بورس جانسن بھی شامل تھے۔ ان کی کابینہ کے درجن بھر ارکان انہیں چھوڑ کر جاچکے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کے درجنوں ارکان ایسے ہیں جن کو یورپی یونین کے ساتھ ہونے والا معاہدہ پسند نہیں آیا۔ اگرچہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنے ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں اور اپوزیشن رہنمائوں کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ اگر ان کی جانب سے کئے گئے معاہدے کو قبول نہ کیا گیا تو یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ اس معاہدے پر نظرثانی کے لئے ہرگز آمادہ نہیں ہوگی۔ ایسی صورت میں برطانیہ کے یورپ سے نکلنے کی ڈیڈ لائن گزر جائے گی اور برطانیہ کوئی معاہدہ کئے بغیر ہی یورپ سے باہر نکل سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ برطانیہ بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہوجائے گا۔ وہ یورپ سے باہر تنہا کھڑا ہوگا اور اس کی سیکورٹی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ مگر برطانوی ارکان پارلیمنٹ ہیں کہ ان کی بات پر توجہ نہیں دے رہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ تھریسامے کسی کی بات نہیں سنتیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جو معاہدہ کیا ہے وہ زیادہ تر لوگوں کو قبول نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی کابینہ اور پارٹی کے اندر بھی تنہا ہوتی جارہی ہیں۔ اگرچہ وزیرداخلہ ساجد جاوید سمیت بعض وزراء پارلیمنٹ کے اندر وزیراعظم تھریسامے کے حق میں بولتے ہوئے ارکان کو اس بات پر آمادہ کررہے ہیں کہ وہ 11دسمبر کو ہونے والی ووٹ میں وزیراعظم کا ساتھ دیں مگر بظاہریہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے! ابھی پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث ہورہی ہے اور حکومت کے پاس ارکان کو اعتماد میں لینے کے لئے تین سے چار روز کا وقت بھی ہے مگر لگتا نہیں کہ تھریسامے اپنے نئے مخالفین اور بیک بنچرز کی بڑی تعداد کو اس معاہدے کی حمایت پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ایسی صورت میں ان کے پاس حکومت چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا۔ اگر وہ حکومت چھوڑ دیتی ہیں تو کیا ہوگا؟ ان کی جگہ پر انہی کی پارٹی کا کوئی اور وزیراعظم آجائے گا؟ تو کیا نیا وزیراعظم یورپی یونین کو معاہدے پر نظرثانی کرنے پر آمادہ کرسکے گا؟ اس بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دوسری صورت میں اپوزیشن ٹوری بیک بنچرز اور تھریسامے کے مخالفین کے ساتھ مل کر ان کا تختہ الٹ سکتی ہے۔ مگر اس کا بھی اب کوئی فائدہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ اب یورپی یونین بھی یہی چاہتی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو برطانیہ کو اس سے باہر نکل جانا چاہئے۔ ایسی صورت میں برطانیہ کے پاس موجود معاہدے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔ یہی بات وزیراعظم تھریسامے اپوزیشن اور اپنی پارٹی کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ 11دسمبر سے پہلے ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت کو اعتماد میں لے لیں گی۔ اگرپارلیمنٹ نے ان کے خلاف ووٹ دے دیا تو ملک کے اندر ایک بحرانی کیفیت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس بات کا فیصلہ بہرحال 11دسمبر کو ہی ہوگا کہ برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کہاں کھڑا ہے!۔
تازہ ترین