یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ملک و قوم کے 44 فیصد بچے غذائی قلت اور علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف بہتر ذہنی و جسمانی نشو و نما سے محروم ہیں بلکہ طرح طرح کی بیماریوں کے باعث ان کی ایک بڑی تعداد ہر سال موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ یہ شرح ملک کے تمام اضلاع کے مقابلے میں سندھ کے وسیع علاقے تھرپارکرمیں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے جس کی بڑی وجہ غربت و افلاس ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برس سے تھرپارکر میں کام کرنے والی 204 میں سے 183 ڈسپنسریوں کو ادویات کے لئے بجٹ میسر نہیں آ سکا جبکہ ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال مٹھی کی ابتر صورتحال اور وہاں علاج معالجہ کے فقدان سے آئے دن ہونے والی بچوں کی اموات کی خبریں پڑھ کر چیف جسٹس آف پاکستان کو از خود نوٹس لینا پڑا۔ صورتحال میں بہتری نہ آنے پر بدھ کے روز انہوں نے سپریم کورٹ و سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ججوں، وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی حکام کے ہمراہ تھرپارکر کا دورہ کیا۔ اپنی آنکھوں سے سول اسپتال مٹھی کی ابتر صورتحال دیکھ کر ان کا برہم ہونا فطری بات ہے۔ اگر متعلقہ حکام تواتر سے صورتحال پر نظر رکھتے تو آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے اس پسماندہ ترین ضلع کے لوگ بے بسی کی تصویر نہ بنے ہوتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال کی یہ صورتحال اس وقت سے چلی آ رہی ہے جب سے مٹھی کو ضلع کا درجہ ملا ہے۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے، طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ سیکڑوں میل دور سے فراہمی آب کی اسکیموں کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں مثالیں موجود ہیں لیکن تھرپارکر میں انسان اور حیوان ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اب مزید تاخیر نہ کی جائے صوبائی حکام خصوصی فنڈز کا اجرا کرتے ہوئے ادویات، طبی عملے اور صاف پانی کی فراہمی کے براہ راست نگرانی میں انتظامات کو یقینی بنائیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998