بہت سے لوگ ہم سے توقع کرتے ہیں کہ اُن کے سیاسی مخالفیں کو یا جن کو وہ پسند نہیں کرتے ہم اُن کی خواہش کے مطابق گالیاں دیں، بُرا بھلا کہیں اور ہو سکے تو اُن کا جینے کا حق چھین لیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تومیڈیا کو ڈرپوک کہا جاتا ہے۔ طعنہ سازی کی جاتی ہے کہ ہم بک گئے، ہم ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں، ہم ملک دشمنوں سے مل گئے اور نجانے کیا کچھ۔ باہمی اختلافات کے باعث نفرت کے بیج ہمارے درمیان اس حد تک گہرے بو دیے گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ یہاں تک کہ اگر مخالف کوئی اچھا اقدام بھی کرے تو اُس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اوربلا سوچے سمجھے اُسے سازش گردان دیا جاتا ہے۔ویسے تو سیاست میں باہمی اختلافات کی بنیاد پر سیاستدان اور اُن کے کارکنان کے درمیان ان بن چلتی رہتی ہے مگر متحدہ قومی موومنٹ کے بارے میں اس کے مخالفین کی ایک خاطر خواہ تعداد ایم کیو ایم پر جائز تنقید کی قائل نہیں بلکہ وہ میڈیا سے توقع کرتے ہیں کہ متحدہ اور اس کے رہنماؤں کو دہشتگرد ، قاتل اور بھتہ خور کے خطابات دیے جائیں۔ ایسے جذباتی اور جنونی نفرت کی اُس آگ میں سلگ رہے ہیں جس کو اگر بھڑکایا جائے تو اس سے خون اور آگ کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ کراچی میں رہنے والے بہت سے لوگ ایم کیو ایم سے جائز شکایات رکھتے ہوں مگر کیا کراچی کی کروڑوں کی آبادی کی اکثرتی جماعت میں سب بُرے لوگ ہیں؟؟ کیا ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور اس کے کارکنوں پر ظلم نہیں کیا جاتا رہا؟؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ کراچی کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں بشمول پی پی پی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ان کے اندر پرتشدد عناصر موجود ہیں؟؟ کیا ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی (الذوالفقار) کے متعلق بھی وہی کچھ نہیں کہا جاتا رہا جس کا آج ایم کیو ایم شکار ہے؟؟افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایم کیو ایم تو اس کوشش میں ہے کہ وہ اپنے متنازعہ ماضی سے نکل کرسب کے لیے قابل قبول جماعت بن کر اُبھرے مگر ہم بضد ہیں کہ کچھ بھی ہو،ہم متحدہ کی اس کوشش کو ناکام بنا دیں۔بلاشبہ متحدہ کو کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی حیثیت سے اُس شہر کے امن کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس جماعت میں جرائم پیشہ افراد بھی موجود ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایم کیو ایم کی پالیسیوں اور فیصلوں سے اختلاف کرے۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایم کیو ایم ماضی کے مقابلہ میں آج ایک بہت بہتر جماعت ہے؟؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں موجودہ برسر اقتدار اتحادیوں میں ایم کیو ایم کی کارگردی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے بہتر رہی؟؟ کیا ہم بھول گئے کہ ایم کیو ایم کی مخالفت کی وجہ سے این آر او کو پارلیمنٹ میں منظور نہیں کیا جا سکا؟؟ کیا ایسا نہیں کہ موجودہ عدلیہ کی بحالی کے بعد ایم کیو ایم نے عدلیہ کی کھل کر حمایت کی جبکہ اس کے اتحادی خصوصاً پی پی پی نے عدلیہ اور خصوصاً محترم چیف جسٹس کو بے جا تنقید اور بعض اوقعات تضحیک کا نشانہ بنائے رکھا۔ ہاں حال ہی میں ایک جج صاحب کے عدالت میں دیے گئے بیان پر ایم کیو ایم سیخ پا ہوئی اور الطاف حسین کی طرف سے عدلیہ کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کی گئی جس پر میڈیا نے کھل کر تنقید بھی کی۔ متحدہ کے قائد کے عدلیہ مخالف بیان پر سپریم کورٹ نے اُن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تو ایم کیو ایم سڑکوں پر آ گئی، کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں زبردستی کاروبار بند کیے گئے جس سے وہاں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ ایم کیو ایم کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ ہزاروں، لاکھوں کارکنان کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔ اس تناظر میں ایم کیو ایم کے کچھ رہنماوں کی آپس میں اور پھر اپنے قائد سے بات ہوئی اور جیسے ہی الطاف حسین صاحب کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ قانونی لڑائی کو سیاسی لڑائی میں نہ بدلنے دیں اور نہ ہی کسی کو اجازت دیں کہ کوئی عدلیہ کی توہین یا تضحیک کرے تواس پر گزشتہ منگل کی رات الطاف حسین کا ایک بیان جاری ہوا جوانتہائی خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے۔ اپنے بیان میں الطاف حسین نے کارکنوں کو عدالتی فیصلے پر احتجاجی مظاہروں اور 7 جنوری کو سپریم کورٹ جانے سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ تصادم اور محاذ آرائی کی راہ اختیار نہیں کرنا چاہتے اور یہ کہ کسی بھی صورت میں عدالتوں کا وقار مجروح اور تقدس پامال نہیں ہونا چاہیے۔ الطاف حسین نے اپنا لہجہ بدلا، اپنے اُس رویہ کو ترک کیا جو یقیناً مناسب نہیں تھا۔ ایم کیو ایم اور اس کے قیادت کی یہی وہ تبدیلی ہے جو متحدہ کے ماضی کے امیج کے برعکس ہے اور جس کی سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور متنازعہ رویہ چھوڑ کر مناسب اور قانونی رویہ کو اپنانا بڑائی کی بات ہے اور اسی وجہ سے یقیناً الطاف حسین صاحب کے تازہ بیان نے دوسروں کی نظروں میں ان کی عزّت میں اضافہ کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ محترم ججز حضرات نے بھی اس قابل تحسین رویہ کو محسوس کیا ہو گا جو کراچی اور پاکستان کی بہتری کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہاں عدلیہ سے میں یہ بھی امید رکھتاہوں کہ بابر اعوان یا کوئی دوسرا اگر اپنے کسی کیے پر شرمندہ ہے اور معافی کا درخواست گزار ہے تو اُسے معاف کر دیا جائے گا کیوں کہ توبہ کرنے پر تو اللہ تعالیٰ بھی بڑے سے بڑے گنہگار کو معاف فرما دیتے ہیں۔