کراچی (ٹی وی رپورٹ) پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماءخورشید شاہ کا کہنا ہے کہ جمہوریت کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہےجو موجودہ حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔جب کہ سلیم صافی نے پروگرام جرگہ میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ففتھ جنریشن وار کا اصل ہتھیار ہے۔ تفصیلات کے مطابق،سابق اپوزیشن لیڈر اور سینئر رہنما پاکستان پیپلز پارٹی سید خورشید شاہ نے کہاہے کہ جمہوریت کی فلاسفی کو سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے جو موجودہ حکمرانوں کے پاس نہیں ہے ‘حکومت کا فخر اس وقت بجا ہوتا جب وہ اپنے بل بوتے پر آئے ہوتے ‘ جو محنت مشقت سے اپنی کسی چیز کو بناتا ہے تو وہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے جبکہ موجودہ حکومت کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیسے اقتدار میں آئے ہیں تاہم پھر بھی ہم اس کشتی کو لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ عدالت کو نہیں پتہ کہ اس نے فیصلہ کیا کرنا ہے لیکن موجودہ حکومت کو پتہ ہے کہ سزا ہونی ہے اور یہ چیزیں ہیں جو ہمیں فکر مند کررہی ہیں۔وہ جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے ۔ پروگرام میں ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے بھی بات کی گئی اور کہا گیا کہ حکام کا خیال ہے کہ ان دنوں دشمن ممالک اور نان اسٹیک ایکٹر نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار چھیڑ دی ہے جس کے تحت مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ریاست اور بالخصوص ملک کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے اسی طرح مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی فساد کو ہوا دی جارہی ہے ۔ مختلف بنیادوں پر ذہنی انتشار اور تفریق کو ہوا دی جارہی ہے ‘اداروں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے جبکہ بے یقینی کی فضا پیدا کرکے پاکستانی معیشت کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست ‘ صحافت اور حتیٰ کہ عدالت کو بھی ففتھ جنریشن وار کے آئینے میں دیکھا جارہا ہے اور اسی تناظر میں ریاستی پالیسیاں تشکیل پارہی ہیں ۔ تاہم سابق صدرآصف علی زرداری کی جیل یاترا پر سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے جمہوریت کے لئے بہت کچھ کیا ہے اور بہت قربانیاں دی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت نے مسلسل دس سال پورے کئے ہیں تاہم اس طرح کی باتیں تکلیف دے رہی ہیں لیکن ہماری خواہش آج بھی جمہوریت رہنے کی ہے ۔ انہوں نے سلیم صافی سے گفتگو میں کہا کہ جمہوریت کی ایک فلاسفی ہے جس کو سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے جو میری نظر میں موجودہ حکمرانوں کے پاس نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جس فخر کا اظہار کررہی ہے و ہ اس وقت اچھا لگتا جب وہ اپنے بل بوتے پر آئے ہوتے یہ چیز بالکل عیاں ہے اور کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کراچی میں راتوں رات کیا ہو ا،کس طریقے سے وہ سیٹیں گئیں ‘ تحریک لبیک کو کس طرح کھڑا کیا گیا ۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو صرف یہ کہوں گا کہ جو محنت مشقت سے اپنی کسی چیز کو بناتا ہے تو وہ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے جبکہ موجودہ حکومت کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیسے اقتدار میں آئے ہیں تاہم پھر بھی ہم اس کشتی کو لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے فواد چوہدری کے دعوے پر کہا کہ اگر ان کے پاس نیویارک والی پراپرٹی کا ثبوت ہے تو وہ اسے عدالت میں لے کر چلے جائیں ۔ سینٹ چیئرمین کے لئے صادق سنجرانی کے انتخاب پر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری پہلے سے کمٹمنٹ تھی کہ ہم اس بار سینٹ چیئرمین شپ بلوچستان کو دیں گے ۔ ۔ ففتھ جنریشن وار پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ تلواروں اور نیزے سے لڑائی فرسٹ جنریشن وار ‘بندوقوں سے ہونے والی جنگیں سیکنڈجنریشن وار ‘فضائیہ اور ٹیکنالوجی کا استعمال تھرڈ جنریشن وار ‘نان اسٹیک ایکٹر ‘ سفارتی کا ری کا عنصر ‘ریاست کے ساتھ ساتھ پراکسی کا کردار فورتھ جنریشن وار کہلایا جبکہ ہائبرڈ وار کی اصطلاح بھی اسی فورتھ جنریشن وار کے لئے استعمال ہوتی رہی جس کی مثالیں افغانستان ‘ عراق اور شام کی جنگیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اب جنگوں کی ایک نئی قسم سامنے آگئی ہے جسے ففتھ جنریشن وار کہا جارہا ہے موجودہ دور میں کسی ملک کی طاقت دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے ہارڈ پاور (جنگی ہتھیار ‘ فوج ) اور سوفٹ پاور (لابی ‘ پروپیگنڈا ‘ سفارتی اثر و رسوخ ‘پراکسی اور معیشت کی صلاحیتیں) ۔ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ اس میں دشمن اپنے ہارڈ پاور کی بجائے سوفٹ پاور کو بروئے کار لاتا ہے اور زیر نشانہ ملک کی سوفٹ پاور کو ہی نشانہ بناتا ہے اور اس کے بنیادی ہتھیار میڈیا ‘ سفارت کاری اور معیشت ہیں یہ جنگ زمین پر نہیں ذہنوں میں لڑی جاتی ہے اور پہلے مرحلے میں انسانوں کو نہیں بلکہ ان کو ذہنوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے فوجوں بھیجنے کے بجائے زیر نشانہ ان کے ملک کے شہریوں کو ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے براہ راست حملے کے بجائے پراکسی کے ذریعے زیر نشانہ ریاست کو کمزور کیا جاتا ہے اور اس ملک کے اپنے ہی شہریوں کو بلواسطہ اور بلاواسطہ مدد کے ذریعے اپنے پراکسی میں تبدیل کیا جاتا ہے اور معاشرے میں موجود فالٹ لائن کو تلاش کرکے ان کونشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعے اندرونی انتشار کوہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ففتھ جنریشن وار نان اسٹیک ایکٹر انفرادی طور پر بھی چھیڑ سکتے ہیں جبکہ اس کے لئے مختلف حملہ آوروں میں کورآرڈی نیشن بھی ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ یہ کردار اپنے اپنے طریقے سے زیر نشانہ ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کا ہدف ایک ہوتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ ‘ سوشل میڈیا ‘ ٹی وی ‘ ریڈیو اس جنگ کے خصوصی ہتھیار تصور کئے جاتے ہیں ا ور یہی پہلا نشانہ بھی ہوتے ہیں ۔پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ ان دنوں دشمن ممالک اور نان اسٹیک ایکٹر نے پاکستان کے خلاف ففتھ جنریشن وار چھیڑ دی ہے جس کے تحت مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ریاست اور بالخصوص ملک کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے اسی طرح مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی فساد کو ہوا دی جارہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں سیاست ‘ صحافت اور حتیٰ کہ عدالت کو بھی ففتھ جنریشن وار کے آئینے میں دیکھا جارہا ہے اور اسی تناظر میں ریاستی پالیسیاں تشکیل پارہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے اور درست کہا جاتاہے کہ میڈیا ہی ففتھ جنریشن وار کا اصل ہتھیار اورنشانہ ہے ۔ ففتھ جنریشن وار کے تناظر میں ضروری تھا کہ پاکستانی میڈیا کو مزید توانا کرکے کسی ناں کسی حد تک امریکن اور انڈین میڈیا کے مقابل بنایا جاتا ‘ میڈیا کی مضبوطی کے لئے شرط اول آزادی ہے ۔ اگر دولت اور ریاستی سرپرستی سے میڈیا کو مضبوط بنایا جاسکتا تو آج عرب ممالک کا میڈیا پوری دنیا پر راج کررہا ہوتا ۔ ففتھ جنریشن وار جس قدر زور پکڑرہی ہے پاکستانی میڈیا اتنا ہی سکڑتا جارہا ہے جبکہ ساتھ ہی کمزور اور بے اعتبار بھی ہوتا جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ پاکستانی میڈیا بیرون ممالک حد تک پاکستان کی خبر دینے کا ذریعہ نہیں رہا ۔ پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی ہزار خامیاں اپنی جگہ لیکن عدالت ‘ پیمرا اور کئی دیگر حوالوں سے ریاست اس کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکتی ہے لیکن سوشل میڈیا کو پاکستانی ریاست کسی طور پر بھی کنٹرول نہیں کرسکے گی پاکستانی الیکٹرانک و میڈیا کی کمزوری کی وجہ سے سوشل میڈیا پر انحصار بڑھ رہا ہے اور ظاہر ہے سوشل میڈیا کو پاکستان دشمن تو کنٹرول کرسکتے ہیں لیکن پاکستانی ریاست نہیں کرسکے گی ۔