• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں چین کے ایک چھوٹے سے گائوں، کوانگ یانگ کا ایک اسٹیج ڈراما بے حد مقبول ہوا، جس کا عنوان،’’A farewell to poverty ‘‘ یعنی ’’غربت، الوادع‘‘ تھا۔ چین کے دیہات میں آج بھی فوک تھیٹر سب سے پسندیدہ تفریح سمجھی جاتی ہے۔ کیا بوڑھے اور کیا جوان، سبھی ایسے پروگرامز کو نہایت ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔ غربت الوداع، درحقیقت کسی ڈرامے کا عنوان ہی نہیں، بلکہ چین کی چالیس سالہ غیر معمولی اور تیز رفتار ترقّی کا بھی عنوان بن چُکا ہے۔ اس کا اندازہ اس اَمر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی گائوں میں فی کس آمدنی 890 ڈالرز ہے، جو غربت کی لکیر سے خاصی اوپر ہے۔ چین کی ترقّی کی داستان، دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے مُلک کی وہ حیرت انگیز کہانی ہے کہ کیسے انسانی محنت، تعلیم و ٹیکنالوجی اور سب سے بڑھ کر بہترین نظامِ حکومت کے امتزاج سے مُلک غربت سے نجات پا گیا۔ عالمی ماہرین متفّق ہیں کہ گزشتہ چار عشروں میں چین نے انتہائی تیز رفتار ترقّی کا تسلسل برقرار رکھا۔ سیاسی افراتفری سے مکمل پرہیز اور گورنینس کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے معاشی ترقّی کے ثمرات آبادی کے ہر طبقے تک پہنچا دیے۔نیز، چین کا ایک بڑا کارنامہ اُن انتظامی غلطیوں سے بچنا تھا، جو عموماً ترقّی پزیر مُمالک کے لیے چیلنج بن جاتی ہیں، پھر اس کا سب سے قابلِ تحسین عمل اقتصادی پالیسی کا وہ تسلسل ہے، جس کا آغاز چالیس سال قبل 1978 ء کے دسمبر میں عظیم رہنما، ڈینگ زیائوپنگ نے کیا تھا کہ ہر آنے والی قیادت پورے عزم، خلوص اور تن دہی سے اسی معاشی پالیسی پر عمل کرتی رہی۔ اس پالیسی کی بنیاد معاشی برتری، اصلاحات اور اوپن مارکیٹ پر رکھی گئی۔ صدر شی جن پنگ نے اسی ترقّی اور استحکام کو دیکھتے ہوئے کہا’’ چین اب دنیا کے سینٹر اسٹیج پر آچُکا ہے۔‘‘

چین کی اوپن پالیسی کا مقصد ایڈجسٹ منٹس کو اندرونی معیشت اور عالمی سطح پر متعارف کروانا تھا۔ چین جس اقتصادی نظام پر چل رہا ہے، اُسے عرفِ عام میں’’ اسٹیٹ کیپٹل ازم‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی مملکت کے کنٹرول میں چلنے والا سرمایہ داری نظام۔ اسے اب تک چین نے بڑے تدبّر اور کمال مہارت سے چلایا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری نظام کی کچھ بدعتوں سے اسے بھی مشکلات کا سامنا ہے، جیسے دولت کی ریل پیل کی وجہ سے اعلیٰ قیادت میں کرپشن کا فروغ۔ تاہم، مجموعی طور پر اس خرابی نے چین کے گروتھ ریٹ کی رفتار کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، جو9 کے اردگرد مستحکم ہے۔ پھر بھی موجودہ لیڈر شپ نے اس نوعیت کی کرپشن کے خلاف خاصی وسیع اور کام یاب مہم چلائی۔ قبل ازیں، چین کی معیشت کمیونسٹ فلسفے پر چل رہی تھی، جو ایک پلانٹڈ اکانومی تھی اور اس میں نجی شعبے کی گنجائش نہیں تھی۔ دراصل یہ روسی اکانومک ماڈل تھا۔چین کے اکانومک مینیجرز نے سرمایہ داری نظام کی مارکیٹ فورسز کو بڑی حکمت سے اپنی معیشت میں شامل کیا۔ شہروں میں نجی تجارت کی بنیاد ڈالی گئی، جب کہ دیہات میں بھی سابقہ نظام آہستہ آہستہ ختم کردیا گیا۔ کھیتوں پر کنٹریکٹ نظام کے تحت کسان کو اضافی پیداوار اپنے تصرّف میں لانے کی اجازت دی گئی، جس سے اُس کا معیارِ زندگی بہتر ہوا۔ وہ خوش حال، تو مُلک بھی خوش حال۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 1978ء سے 2017ء کے دَوران چین کا گروتھ ریٹ اوسطاً9.5 رہا۔اس تیز رفتار ترقّی کو دنیا کا کوئی بھی مُلک آج تک اتنے طویل عرصے تک قائم نہیں رکھ سکا۔ چین اپنی کام یابی کو نظام کی اچھائی قرار دیتا ہے۔چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی سیاست کی بجائے مرکزیت کے ذریعے گڈ گورننس پر یقین رکھتے ہیں اور ترقّی کے ثمرات میں عوام کی شرکت ممکن بناتے ہیں۔ انہی ماہرین کے مطابق، ترقّی اس نظام کی چابی ہے۔ مُلکی ترقّی کے رُکنے سے افراتفری جنم لیتی ہے، جب کہ چینی ماڈل میں ترقّی، استحکام کی ضمانت بن گئی ہے۔ چینی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ تعلیم اور تربیت اس کی تیز رفتار ترقّی اور پھر اسے قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے، تو بڑی تعداد میں چینی طلبہ کو امریکا اور یورپی یونی ورسٹیز میں بھیجا گیا، اُنھیں اسکالر شپس دی گئیں۔ جب کہ مُلک میں موجود افراد کی تربیت کے لیے طرح طرح کے پروگرامز متعارف کروائے گئے۔ نیز، بیرونِ مُلک سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والوں کو واپسی پر آگے بڑھنے کے شان دار مواقع فراہم کیے گئے۔اُن کے خلاف کوئی محاذ نہیں کھولا گیا، بلکہ اندورنِ مُلک کے ماہرین اور باہر سے آنے والوں کے امتزاج سے اس ترقّی کی رفتار کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ سب کو فائدہ پہنچا۔ جدید ٹیکنالوجی ٹرانسفر ہوئی، تو نئی اور اعلیٰ پروڈکٹس کی کم قیمت میں بڑے پیمانے پر تیاری ممکن ہوئی۔ آج بھی امریکا اور یورپی تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ بیرونی طلبہ، چین ہی کے ہیں، جنہیں وظائف اور دیگر مراعات کے ذریعے حکومتی سہارا دیا جاتا ہے۔ چین اپنے جی ڈی پی کا چار فی صد تعلیم وتربیت پر خرچ کرتا ہے۔ اس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی نظام ہے اور اس کی یونی ورسٹیز کی تعداد امریکا اور یورپ کی مشترکہ تعداد سے بھی زیادہ ہے، لیکن ماہرین کے مطابق، ابھی اسے اعلیٰ تحقیقی اور معیاری اداروں کی مزید ضرورت ہے کہ وہ امریکا کے معیار تک پہنچ سکے۔

کسی مُلک کی ترقّی کی وسعت کا اندازہ اُس کے توانائی کے استعمال سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں چین کا امریکا کے بعد نمبر ہے، مگر کوئلے کے استعمال کی وجہ سے وہاں آلودگی کے سنجیدہ مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ تاہم، چینی قیادت کو اس کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ متبادل انرجی میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا مُلک بن چُکا ہے۔ عالمی معیشت میں چین کا حصّہ پندرہ فی صد ہے، تو امریکا کا 25 فی صد سے کچھ زیادہ ۔لیکن چین کی برآمدات دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، جن کی مالیت2401 بلین ڈالرز ہے، جب کہ امریکا کی اس کے مقابلے میں 1501بلین ڈالرز ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چین کی معیشت اسی رفتار سے بڑھتی رہی، تو 2029 ء تک امریکا سے آگے نکل جائے گا۔ وہ جاپان کو تو دوسال قبل ہی پیچھے چھوڑ چُکا ہے۔پھر یہ کہ اس کی درآمدات کنٹرولڈ ہیں اور 1800بلین ڈالرز کے لگ بھگ ہیں، اس طرح اس کا ٹریڈ سرپلس ہے۔ نیز، اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر3.16 ٹریلین ڈالرز ہیں۔ چین کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر امریکا ہے اور اُس کی مجموعی برآمدات کے اٹھارہ فی صد کا اُسی سے تعلق ہے، جب کہ یورپی یونین کو سولہ فی صد برآمدات جاتی ہیں۔دنیا بھر کے مالیاتی اداروں نے چین کو’’ اے پلس‘‘ اور’’ ڈبل پلس‘‘ ریٹنگ دی ہے، جب کہ آئی ایم ایف کے مطابق اس کی معیشت مستحکم ہے۔ چین نے یہ کارنامہ 815.3 ملین افرادی قوّت کے بل بوتے پر انجام دیا ہے۔ ہنرمند افراد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، کیوں کہ اُس نے اسکلڈ قوّت کے فروغ میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے اور اسے خاص توجّہ کا مرکز بنایا ہے۔ اس سے جہاں چین کے مال میں بہتری آرہی ہے، وہیں روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی وجہ سے اقتصادی اور سیاسی استحکام حاصل ہورہا ہے۔ لیکن چین کی موجودہ لیڈر شپ اس سارے عمل کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور معاشرے کو مسلسل ترقّی کی جانب گام زَن رکھنے کے لیے بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی ضرورت کا پوری طرح احساس رکھتی ہے، کیوں کہ یہی مڈل کلاس اس کی کام یابی اور نظام کے استحکام کی ضامن ہے۔ اسی لیے چین میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد، آبادی کا 92 فی صد یعنی 1 ارب 36کروڑ ہے۔

کسی بھی قوم کی ترقّی کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس کے شہری اپنے مُلک کا دنیا میں کیا مقام دیکھنا چاہتے ہیں؟ دوم یہ کہ اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے وہ کیا منصوبہ بندی اور عملی کوششیں کرتے ہیں؟ یہ طے شدہ ہے کہ چین کی منزل’’ سُپرپاور‘‘ بننا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر گزرنے والا سال، اُسے اپنی اس متعیّن منزل کے قریب لا رہا ہے۔ ہم بتا چُکے ہیں کہ چین کی نئی حکمتِ عملی کا آغاز1978ء میں ہوا، جس کے تحت ہر پالیسی پر، اقتصادی ترقّی کو اوّلیت حاصل ہو گئی تھی۔ اس کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 32سال میں دنیا کی ترقّی کی رفتار 2.5 فی صد رہی، جب کہ اس مقابلے میں چین کی ترقّی کی رفتا ر 9.5تھی۔دنیا میں ترقّی کے معیار کو جانچنے کا مستند پیمانہ یہ سمجھا گیا ہے کہ کوئی مُلک کتنی توانائی استعمال کرتا ہے۔ اس سال چین دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والا مُلک بن چُکا ہے۔’’ کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے‘‘،چین کی قیادت اس فرق کو خُوب سمجھتی ہے۔ سو، منزل کے حصول کے لیے اُنہوں نے دو مراحل پر مشتمل حکمتِ عملی وضع کی۔(1) چین کا عالمی فورمز پر ایک معتدل مُلک کے طور پر تعارف کروانا۔ اسے’’ سافٹ پاور ڈپلومیسی‘‘ بھی کہا گیا۔ علاقائی طور پر چین کو رہنما کا کردار دِلوانا۔ ساتھ ہی تجارتی طور پر تمام اہم بین الاقوامی نیٹ ورکس کے ساتھ منسلک ہونا۔(2) دوسرے مرحلے میں اپنی علاقائی اہمیت کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کرنا۔ یہی اس کا سُپر پاور بننے کی جانب اہم ترین قدم ہو گا۔2016 ء کے اختتام تک چین نے اپنا پہلا مرحلہ بہ خُوبی مکمل کر لیا، یعنی وہ مسلمہ علاقائی اور عالمی طاقت بن چُکا ہے۔ یہاں یہ بھی مناسب ہوگا کہ چین کی فوجی قوّت پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ اف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز کے مطابق، اس وقت چینی فوج، دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، جس کی تعداد 23لاکھ ہے، جسے’’ پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کہا جاتا ہے۔اس کے نیوکلیئر اثاثے66 بین البراعظمی میزائلوں پر مشتمل ہیں، نیز اس کے پاس5 ایٹمی آبدوز، ایک ہزار سے زاید لڑاکا، 14 اواکس طیارے اور پانچ ہزار سے زاید ٹینکس ہیں۔85 بحری جہاز ہیں، تو طیارہ بردار بحری جہاز بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ پھر یہ کہ اس کے 36مواصلاتی سیّارے خلا میں موجود ہیں، جن میں جاسوسی سیّارے بھی شامل ہیں۔ سوئڈش تھنک ٹینک،’’سپری‘‘ کے مطابق، چین کے دفاعی بجٹ میں13 فی صد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ اس کا عسکری بجٹ مختلف عالمی اداروں کے مطابق ایک سو ارب ڈالرز کے قریب ہے۔ امریکا کے بعد چین کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ ہے۔

چین کی موجودہ قیادت نے، جس کی رہنمائی، صدر شی جن پنگ کر رہے ہیں، اپنی اقتصادی ترقّی کو ایک غیر معمولی initiative کے ذریعے علاقائی اور عالمی سطح پر متعارف کروایا ، جسے’’ بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اسی کا ایک حصّہ، سی پیک یعنی’’ پاک،چین اقتصادی راہ داری‘‘ ہے۔’’ بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ درحقیقت ایک اقتصادی راہ داری ہے، جس میں چین اور دوسرے ممالک شامل ہو کر علاقے کی ترقّی میں ہم قدم چل رہے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ میں چین اربوں، کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کے تحت شاہ راہوں، بندرگاہوں، ائیرپورٹس، ریلوے نیٹ ورکس اور اقتصادی زونز بنائے جارہے ہیں۔ یہ علاقے ایک طرف مال تیار کریں گے، تو دوسری طرف، اُنہیں منزل تک پہنچانے اور مارکیٹ کرنے کے ذرائع بھی تشکیل دیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ مجموعی طور پر چین کے ساتھ علاقے کے دوسرے ممالک بھی ترقّی کرتے رہیں۔ یہ مُلک خوش حال ہوں گے اور چین کو اپنے مال کے لیے نئی منڈیاں بھی فراہم کرسکیں گے۔ اس طرح چین، علاقائی اور عالمی سطح پر معیشتوں کی ترقّی کے لیے’’ ڈرائیونگ فورس‘‘ کا کام دے گا۔ اسی تناظر میں’’ برکس بینک‘‘ اور’’ شنگھائی فورم‘‘ جیسے ادارے بھی وجود میں آچُکے ہیں، جہاں مُلک اکھٹے ہوکر ترقّی کی نئی جہتوں پر غور کرتے ہیں۔ یوں ایک نیا بین الاقوامی نظام بنتا جارہا ہے۔

چینی قیادت نے 38 برس میں میں اپنا فوکس معاشی ترقّی اور اندرونی استحکام پر رکھا، لیکن گزشتہ دوسال سے وہ عالمی اُمور میں بھی دِل چسپی لے رہا ہے۔ وہ افغان مسئلے میں فعال ہے، تو مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہے اور افریقا کی سیاست میں بھی دِل چسپی لے رہا ہے۔ خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں تو وہ اہم طاقت بن چُکا ہے، جو اس کا’’ زون آف اِن فلوینس‘‘ بھی ہے۔ حالیہ امریکا، شمالی کوریا مذاکرات میں اس کا کردار اور ڈپلومیسی مرکزی رہی۔ اُدھر وہ جاپان اور دوسرے علاقائی ممالک سے بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ اس لیے صدر، شی جن پنگ اپنے مُلک کے لیے ’’ سینٹر آف ورلڈ اسٹیج‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ چین مسائل کے حل کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کی پالیسی پر یقین نہیں رکھتا۔اس نے اپنے حصّوں، ہانگ کانگ اور تائیوان کے حوالے سے بھی اسی پالیسی کے تحت غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کیا۔ بہرحال، آج وہ دنیا کی ایک برتر قوّت بن کر سامنے آچُکا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک عالمی و علاقائی قوّت کے طور پر اپنی قوّت کا کس طرح استعمال کرتا ہے۔

تازہ ترین