٭… استادراحت فتح علی خان نے دنیا بھر میں قوالیوں کی محفلیں سجائیں ٭… شفقت امانت علی نے ڈھاکا فوک فیسٹیول میں آواز کا جادو جگایا ٭…طویل عرصے بعد ٹینا ثانی نے آرٹس کونسل میں پرفارم کیا ٭… فلم ’’ارمان‘‘ کا مقبول گیت ’’کوکوکورینا‘‘ کو برے انداز میں ری میکس کیا گیا، جس پر شدید ردِعمل آیا۔ ٭… الیکشن کے موقعے پر گلوکاروں کی چاندی ہوگئی ٭… دنیا کی پہلی صوفی اوپرا سنگر سائرہ پیٹر نے برطانیہ کا قومی ترانہ گاکر دل جیت لیے ٭… شہزاد رائے، موسیقی کے دنیا کے بامقصد اور سنجیدہ گائیک کے روپ میں سامنے آئے ٭… میشاشفیع اور علی ظفر کا تنازع میڈیاکی زینت بنا رہا ٭… جنون گروپ کی شاندار واپسی ہوئی ٭… انورمقصود کے ڈرامے ’’کیوں نکالا‘‘ کو غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی ٭… اسٹرنگز نے کوک اسٹوڈیو کو چھوڑ کر اپنے گانوں پر توجہ دینا شروع کردی ٭… علی حیدر، سلیم جاوید، فاخر، حسن جہانگیر، کومل رضوی اور سجاد علی نے بیرونِ ملک کنسرٹ میں آواز کا جادو جگایا۔
2018کا سورج ان گنت یادوں کے ساتھ غروب ہونے والا ہے۔ چند روز باقی رہ گئے ۔2019سے بے شمار امیدیں، تمنائیں اور آرزوئیں وابستہ ہیں۔ رواں برس کسی کے لیے لاتعداد خوشیاں اور کامیابیاں لے کر آیا تھا اور کچھ کے لیے تلخ ثابت ہوا۔ زندگی کی تصویر، کام یابی اور ناکامی کے رنگوں سے مکمل ہوتی ہے، سارا کھیل قسمت کا ہوتا ہے۔ قسمت کی دیوی جس پر مہربان ہو جاتی ہے، تو وہ شہرت اور کام یابی کے آسمان پر جگمگانے لگتا ہے۔ 2018میں ملک بھر میں موسیقی ،رقص اور تھیٹر سے جڑی شان دار سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں یادگار پروگرام پیش کیے گئے۔ طویل عرصے بعد نامور گلوکارہ ٹینا ثانی نے آرٹس کونسل میں آواز کا جادو جگایا۔ استاد راحت فتح علی خان نے بالی وڈ کی درجنوں فلموں سمیت پاکستانی فلموں اور ڈراموں کے لیے گیت گائے۔ جیو کے سپر ہٹ ڈرامے ’’خانی ‘‘کے لیے ان کے گائے ہوئے گانے نے ریکارڈ قائم کیے۔ انہوں نے’’ جسٹ قوالی‘‘ کے عنوان سے دنیا کے 40ممالک میں صُوفیانہ اور عارفانہ کلام پیش کیا، ان کی آواز میں میوزک پروڈیوسر سلمان احمد کے گانے ’’ضروری تھا‘‘ کو یُو ٹیوب پر 55 کروڑ بار دیکھا گیا۔ پٹیالہ گھرانے کے مایہ ناز گلوکار شفقت امانت علی نے ڈھاکا فوک فیسٹیول میں میلہ لوٹا، 40ہزار سامعین کی موجودگی میں بنگالی گیت گا کر محفل موسیقی میں رنگ جمایا۔ دنیا کی پہلی صوفی اوپر سنگر سائرہ پیٹر نے برطانیہ کا قومی ترانہ اپنی آواز میں نئے انداز سے گا کر UKکی ملکہ کا دل جیت لیا۔ انہوں نے رواں برس کئی یادگاہ پرفارمینس دیں،برصغیر کے نامور موسیقار خواجہ خورشید انور کو لاہور نے الحمرا آرٹس کونسل میں شان دار انداز میں ٹریبیوٹ پیش کیا۔ نامور گلوکارہ ترنم ناز کے ساتھ مل کر پاکستانی فلموں کے سدا بہار گیت پیش کیے۔ کوک اسٹوڈیو رواں برس تنقید کی زد میں رہا۔ وحید مراد کی سپر ہٹ فلم ارمان کا مشہور گیت ’’کو کو کو رینا ‘‘ کو بُرے انداز میں ری میک کیا گیا، جس پر ملک بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا۔رواں بر س جولائی میں الیکشن کے موقع پر گلوکاروں کی چاندی ہو گئی۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے الیکشن مہم کے موقع پر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے نئے نغمے بنوائے۔ گلوکار حسن جہانگیر کا گایا ہوا گیت ’’ہوا ہوا‘‘ کاجادو سال بھر چلتا رہا۔ ان کے نغمے نے کوک اسٹوڈیو سمیت بالی وڈ فلموں میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔روک اسٹار علی ظفر نے اداکاری اور گلوکاری کے میدان میں خود کو منوایا ۔ نئی نسل کے پسندید اور سنجیدہ گلوکار شہزاد رائے نے اعلیٰ سطح کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ وہ گزشتہ چند برسوں میں ایک سنجیدہ اور بامقصد گیت گانے والے گائیک کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔ نئی نسل ان کے گائےہوئے گانے شوق سے سنتی ہے۔ رواں برس انہوں نے جشن آزادی اور یوم دفاع کے موقع پر روح کو گرما دینے والے گیت پیش کیے۔ معروف میوزیکل بینڈ ’’اسٹرنگز‘‘ نے کوک اسٹوڈیو کو چھوڑ کر اپنے گانوں پر توجہ دینا شروع کر دی۔ صُوفی نغمہ سائیں میرا سچا سائیں تو ہے،سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے میوزیکل بینڈ جنون نے دنیا بھر میں دھوم مچائی تھی۔ انہوں نے نئی موسیقی کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا تھا ۔پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی اور’’ جنون ‘‘بینڈ ٹوٹ گیا۔ اور اب کئی برس بعد پھر سے جڑ گیا ہے،پوری توانائی کے ساتھ موسیقی کے رنگ بکھیرنے کے لیے 25دسمبر کو معین خان کرکٹ اکیڈمی میں پرفارم کرے گا۔ علی عظمت اور سلمان احمد نے تیاریاں مکمل کر لی ہیں، جیو ٹی وی نیٹ ورک نے جنون کے نئے سفر میں اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ رواں برس کے آخری لمحات کو یادگار بنانے کے لیے’’ جنون ‘‘کی جنونی پرفارمینس کاسب کو انتظار ہے۔ ’’جنون‘‘ کی دھماکے دار واپسی کیا رنگ لاتی ہے، اس کے لیے بس تھوڑا سا انتظار اور کرنا پڑے گا ۔2018کو گلوکارہ میشا شفیع اور علی ظفر کے تنازع کے طور پر یاد رکھاجائے گا ،گلوکار عارف لوہار کے ساتھ ’’جگنی‘‘گا کر شہرت حاصل کرنے والی گلوکارہ میشا شفیع نے نئی نسل کے سب سے مقبول گلوکار علی ظفر پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے۔ دونوں فن کاروں کی حمایت میں الگ الگ گروپ سامنے آئے۔
کسی نے علی ظفر کا ساتھ دیا تو کوئی میشا شفیع کے حق میں بولا۔ بات عدالت تک چلی گئی۔ تنازع سے سب سے زیادہ فائدہ علی ظفر کو پہنچا۔ ان کی رواں برس ریلیز ہونے والی فلم ’’طیفا ان ٹربل‘‘ نے باکس آفس پر غیر معمولی بزنس کیا،حالاں کہ چند نوجوانوں نے اس فلم کی ریلیز کے موقع پر کراچی اور لاہور کے سینما گھروں کے باہر علی ظفر کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ تاہم دونوں فن کاروں کے مابین اس لڑائی نے کئی سوالات اٹھائے، رواں برس سب سے زیادہ خبروں میں رہنے والے فن کار علی ظفر کہلائے۔
گلوکارہ رابی پیرزادہ ،سوشل میڈیا پربہت سرگرم نظر آتی ہیں۔ رواں برس انہوں نے دو چار نئے نغمے پیش کیے اور اداکاری کے شعبے میں بھی خود کو منوانے کے لیے کوششیں کیں،ان کی فلم ’’شور شرابہ ‘‘ریلیز ہوئی۔
پاکستان میں تھیٹر اور موسیقی کے فروغ کے لیے تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ تھیٹر، رقص اور موسیقی زندگی کی علامات میں سے ایک ہیں۔ تھیٹر، تہذیب و ثقافت کا امین، فن کا استعارہ اور فن کاروں کی بنیادی درس گاہ کا درجہ رکھتا ہے، کسی بھی ملک کی ثقافت اور کلچر کے بارے میں جاننا ہو تو اس کے تھیٹر کو دیکھ لیں۔ 2018نے اپنے بارہ مہینوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں تہذیبی اور ثقافتی رنگ بکھیرے۔ رواں برس ملک بھر میں ثقافتی سرگرمیاں اپنے پورے عُروج پر رہیں، ثقافتی اداروں نے پوری توانائی کے ساتھ موسیقی ، رقص اور تھیٹر کو زندہ رکھا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (PNCA) جمال شاہ کی سربراہی میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستانی موسیقی اور تھیٹر فروغ دیتا رہا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے تحت بڑے پیمانے پر ’’فن کار کنونشن‘‘ کا انعقاد کیا گیا، جس میں فلم پالیسی کو حتمی شکل دی گئی۔ملک بھر سے سینکڑوں فن کاروں نے شرکت کی۔ لوک ورثہ اسلام آباد میں فلم، آرٹ اور موسیقی کے دل چسپ پروگرام پیش کیے گیے۔ اسی طرح نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) نے ضیاء محی الدین کی سربراہی میں سال بھر تھیٹر اور موسیقی سے متعلق پروگراموں کا انعقاد کیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے احمد شاہ کی قیادت میں 2018ء میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کے ثقافتی پروگراموں کی میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ الحمراء آرٹس کونسل لاہور نے توقیر ناصر کی سرپرستی میں شان دار پروگرام پیش کیے، اس برس فیض میلے میں بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر نے میلے میں خصوصی شرکت کی، پاکستان امریکن کلچرل سینٹر کراچی اور ڈاکٹرصغریٰ صدف کی نگرانی میں چلنے والا ثقافتی ادارہ پلاک میں عمدہ پروگرام منعقد کیے گئے۔ آل پاکستان میوزک کانفرنس کے تحت کلاسیکی موسیقی کی یادگار محافل سجائی گئیں۔ ملکی ثقافتی اداروں نے کسی حد تک اپنا حق ادا کیا۔ 2018ء میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیولز کا انعقاد کیا گیا ، جس میں نئے گلوکاروں اور ہنرمندوں کو متعارف کروایا گیا۔ کوک اسٹوڈیو اور پیپسی بیٹل آف دی بینڈ نے درجنوں نئے گلوکاروں کو متعارف کروایا۔ عالمی شہرت یافتہ گائیکہ عابدہ پروین، عاطف اسلم، صنم ماروی، راگا بوائز، کومل رضوی، عارف لوہار، حدیقہ کیانی، ، حمیرا ارشد، جواد احمد، سلیم جاوید، آئمہ بیگ، اسرار احمد، قرۃ العین بلوچ(QB) اور علی حیدر نے پاکستان اور بیرونی ملک میں ہونے والی محافل موسیقی میں آواز کا جادو جگایا۔ 2018ء میں کراچی میں تھیٹر اپنے عروج پر رہا۔ انگریزی، سندھی اور اردو ڈرامے پیش کیے گئے۔ سب سے زیادہ مقبولیت انور مقصود کے ڈرامے’’ کیوں نکالا‘‘ کو حاصل ہوئی۔ ’’ناپا‘‘ اکیڈمی، تھیٹر کے فروغ میں ہمیشہ سرگرم رہی ہے۔ ضیاء محی الدین، ارشد محمود، راحت کاظمی، اکبر اسلام اور ان کی ٹیم نے معیاری اور اصلاحی تھیٹر کے لیے عمدہ کام کیا۔ عالمی معیار کے تھیٹر، رقص اور موسیقی پر مبنی درجنوں پروگرام کام یابی کے ساتھ پیش کیے گئے۔ایک طرف ناپا اکیڈمی، کام یابی سے تھیٹر اور میوزک کی سرگرمیاں کررہی تھی، تو دوسری جانب آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تقریبات اور پروگراموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ اور آرٹس کونسل کے اشتراک سے سندھ تھیٹر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، جس میں کئی روز تک سندھی اور اردو زبان پر مبنی تھیٹر پیش کیا جاتا رہا۔ تھیٹر کو پسند کرنے والوں نے اس تجربے کو بے حد سراہا۔ سندھی اور اردو زبانوں پر مبنی ڈراموں کو خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ سندھ تھیٹر فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد صوبے میں مختلف قومیتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ فاصلوں کو کم کرکے محبتوں اور چاہتوں کو فروغ دینا ہے۔
ممتاز ڈرما نگار اور کمپیئر انور مقصود کے ساتھ شان دار انداز میں آرٹس کونسل کراچی میں شام منائی گئی۔ اس موقع پرانور مقصود نے اپنی گفتگو میں معروف شاعر جون ایلیا کا بھی تذکرہ کیا اور ازراہِ تفنن بتایا کہ جون ایلیا کو میں بھائی جون کہا کرتا تھا، تو وہ مجھ سے کہتے تھے کہ تم مجھے بھائی جون مت کہا کرو!! صرف جون کہا کرو، میں نے کہا ٹھیک ہے، آپ بھی مجھے انور مقصود صاحب کہا کریں، ایک نظر انہوں نے مجھے دیکھا اور کہنے لگے کہ میں تمہارے گھر بیٹھا ہوں، اگر اپنے گھر میں ہوتا تو رکشے میں چلا جاتا۔ میرے گھر جب وہ آئے تو اپنی جیب سے دو ہلکے ہلکے گلاس نکالے اور کہنے لگے، تمہارے گھر کے گلاس بہت بھاری ہیں لڑکیوں کی طرح ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، انور مقصود نے جون ایلیا کا حلیہ بتاتے ہوئے کہاکہ ان کے بال وبال، سرآشفتہ، آنکھیں منتظر، دماغ شہرِ جمال، صحت خواب و خیال، قدآور، ہاتھ قلم، غصہ لبریز ، دل پیمانہ، دور سے دیکھو تو مسئلہ، مردوں کی محفل میں پُرسکون اور عورتوں کی محفل میں پھدکتا افلاطون۔ اس موقع پر انور مقصود نے ازارہِ تفنن تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جون ایلیا کا مرنے کے بعد انہیں خط موصول ہوا ہے، جس میں وہ مجھے لکھتے ہیں کہ جانی، جہاں اب میں ہوں وہاں بجلی نہیں ہے، صرف ایمان کی روشنی ہے، یہاں کئی شاعر اور کئی ادیب موجود ہیں۔ ہم اکثر یہاں مشاعرے کی محفل بھی سجاتے ہیں۔ ایک بار جب مشاعرے کی محفل سجائی گئی تو، غالب کی شاعری پر میر نے واہ کہا، تو میں نے میر سے کہا کہ آپ نے غالب کی شاعری پر واہ کہا ہے، تو وہ کہنے لگے کہ میری کمر میں درد ہے، میں آہ کہنا چاہ رہا تھا، مگر منہ سے واہ نکل گیا، ہمارے پاس مشتاق احمد یوسفی بھی آچکے ہیں۔
یوسفی صاحب کو دیکھ کر حوریں بھی مسکرا رہی ہیں ۔ ایک دن جب مشاعرہ منعقد کیاگیا تو ،ہوا بھی بہت تیز چل رہی تھی، میں نے میر کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تو غالب نے کہاکہ میر کو پکڑ کر رکھو، ہوا تیز چل رہی ہے، مشاعرے میں میر اور غالب کے پڑھنے کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ تم بھی اپنے اشعار سنائو تو میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ غالب اور میر کے بعد میں کچھ سنائوں ،تو وہ کہنے لگے کہ تم پیدا بھی تو ہمارے بعد ہوئے تھے۔ جون ایلیا نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ جو ملک میں چھوڑ کر آیا ہوں، وہاں بہادر بہت ہیں، مگر بہادروں کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔‘‘ علاوہ ازیں ممتاز مصنف ، کالم نگار، ڈراما نگار اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل میں پر وقار تقریب کا انعقاد کیاگیا۔ اس موقع پر انہوں نے دل چسپ گفتگو کی۔ میری کتاب ’’پیار کا پہلا شہر‘‘کے اب تک 76ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں،میں اگر رائٹر نہیں ہوتا تو صرف ایک قاری ہوتا ،کیوں کہ میں کتاب کے بغیر رہ نہیں سکتا، یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بہت عزت و شہرت عطا کی ہے۔ میں 80سال کا ہورہا ہوں، مجھے تقریبات میں زیادہ نہ بلایا کرو۔ مجھے بائیں کان سے بالکل سنائی نہیں دیتا، جب کہ دائیں کان سے بھی پچاس فی صد ہی سن پاتا ہوں۔‘‘
ہم نے ملک بھر میں ہونے والی ثقافتی سرگرمیوں کا ایک جائزہ پیش کیا ہے، امید ہے 2019میں تھیٹر اور موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فلمی موسیقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ فلمی موسیقی مقبول ہوتی ہے تو موسیقاروں ،نغمہ گاروں اور گلوکاروں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع ملتا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہےکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان میں میوزیکل کنسٹرٹس کا دور واپس آ گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر کنسرٹ ہو رہے ہیں، نئے میوزیکل بینڈز اور تھیٹر گروپس سامنے آ رہے ہیں۔ نئے گلوکار اور تھیٹر کے فن کار سامنے آئیں گے تو مستقبل قریب میں موسیقی اور تھیٹر کی سرگرمیاں ماضی کی طرح مزید پروان چڑھیں گی اور انہیں پھر سے عروج ملے گا۔