اس باردسمبر نزلہ ، کھانسی زکام کے ساتھ نظام بدلنے کی خواہش لے کر آیا ہے۔ ایسا نظام جس میں الیکشن نہ ہوں بلکہ کیا ہو یہ شاید اس کی خواہش رکھنے والے خود بھی نہیں جانتے یا بتانا نہیں چاہتے۔ آنجہانی مکیش مرحوم نے کیا خوب گانا گایا تھا
تاش کے باون پتے
پنجے چھکے ستے
سب کے سب ہرجائی
میں لٹ گیا رام دہائی
1947ء سے ہم نے اتنے لباس نہیں بدلے جتنے نظام بدلے۔ غلام محمد سے لے کر آصف علی زرداری تک سب ہی نظام بدلنے آئے اور اپنی زندگی بدل کر چلتے بنے۔ پاکستا ن کے سیاستدان تاش کے باون پتے ہی تو ہیں۔ پنجے ، چھکے اور ستے ، اور خیر سے سب کے سب ہرجائی۔ آئے کھائے، پئے اور چلتے بنے۔ نظام بدلنے کے خوش کن وعدوں کے پیچھے ان کی نفسانی خواہشات ٹھاٹیں مارتی رہیں۔ کبھی جمہوریت، کبھی اسلام ، کبھی سوشلزم ، کبھی روشن خیالی، اور کبھی ریاست بچاؤ تحریک مچھلی کو پھنسانے کے لئے کیسے کیسے جال بچھائے جاتے ہیں اور ہاں ان باون پتوں کے کھیل میں دو اضافی جوکر بھی ہوتے ہیں جو بظاہر کھیل کا حصہ نہیں ہوتے لیکن بوقت ضرورت انہیں کسی کارڈ کے کم پڑنے پر یا کھیل کا رنگ بدلنے کے لئے شامل کر لیا جاتا ہے۔ باون پتے چاہے جتنا مرضی میلے اور پرانے ہو جائیں یہ جو کر ہمیشہ تازہ دم ہی رہتے ہیں، صاف ستھرے نظر آتے ہیں۔ ایک شریف آدمی نے دیکھا کہ ایک گدھے پر بہت ساری مکھیاں بیٹھی زخم چاٹ رہی ہیں ۔ گدھا گدھا ہونے کے باوجود تکلیف میں نظر آرہا تھا۔ اس شریف آدمی نے رحم کھا کر مکھیاں اڑا دیں مکھیاں اڑتے ہی گدھے نے آدمی کو دولتی مار دی۔ تکلیف کے ساتھ حیرانگی کے شکار آدمی نے کہا’اوئے گدھے میں نے تجھ پر مہربانی کی اور تو نے مجھے ہی دولتی لگا دی؟‘گدھا بھی خاصا گدھا تھا کہنے لگا’ایک تو تو انسان ہے اوپر سے شریف بھی ہے یعنی تجھ میں اور مجھ میں کوئی خاص فرق نہیں اس پر تو نے مجھ پر رحم نہیں ظلم کیا۔‘ اب آدمی بھی حیران ہوااور پوچھ بیٹھا وہ کیسے؟گدھے نے کہا کہ تو جانتا ہے یہ مکھیاں میرے زخم چاٹ چاٹ کر رج گئی تھی۔تو نے انہیں اڑا دیا ہے ۔ اب تازہ دم مکھیاں آئیں گی اور میرے زخم کو کھائیں گی۔
سو میرے عزیز ہم وطنو ، غول کی شکل میں زندہ رہنے اور انفرادی طور پر سسک سسک کر مرنے والو ، میری آپ سے وزیر داخلہ رحمان ملک کی زبا ن میں ’بنتی‘ہے خدارا کسی نئے نظام کے چکر میں مت آنا، تازہ مکھیاں آپ کے زخم کھانے کی منتظر ہیں۔ پرانی مکھیوں پر ہی اعتماد کریں وہ کھائیں گی بھی تو مزید کتنا کھا لیں گی؟آپ یقین رکھیں آدھی سے زیادہ پرانی مکھیاں اس لئے نہیں اڑ پا رہیں کہ وہ اتنا زیادہ کھا چکی ہیں کہ اب اڑا نہیں جا رہا۔ ایک بسیار خور خاتون ڈاکٹر کے پاس پہنچی اور کہنے لگی کہ ڈاکٹر صاحب شادی میں زیادہ کھا لیا ہے۔سانس بھی نہیں لی جارہی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ آپ ہاضمے کی گولیاں کھا لیتیں ، خاتون بولی گولی کھانے کی جگہ ہوتی تو تھوڑا اور نہ کھا لیتی۔ ماشاء اللہ ہماری موجودہ قیادت ماضی میں اتنی مالدار نہیں تھی۔ تاہم انہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے خود کو اس قابل کرلیا ہے کہ آج ان کا نام دنیا کے امیر ترین افراد میں لیا جاتا ہے۔ ہمیں ان پر فخر ہے۔ یقینا ان کی اس کارکردگی پر ان کے بزرگ بھی فخر کرتے ہوں گے۔ تاہم یہ فخر اس وقت کم پڑ جاتا ہے جب وہ اپنی اولادوں کی اولادوں کے کارنامے دیکھتے ہوں گے۔ اے میری انسان نما مخلوق تم اس بات پر روتے اور ٹسوے بہاتے ہوکہ تمہاری غریب قیادت کے پاس فرانس میں محل ہے۔تم نے تو ابھی ان کی سادہ زندگی کی ایمان افروز کہانیاں سنی ہی کب ہیں۔یہ جو اربوں روپے کی روزانہ کرپشن ہوتی ہے یہ کسی ریڑھی والے، پان سگریٹ فروش یا کسی چائے فروش کی جیب میں نہیں جاتے۔ یہ کہاں جاتے ہیں خود چیئرمین نیب نہیں بتا سکتے۔ وہ بھی اتنابتاتے ہیں جتنا انہیں بتانے کا کہا جاتا ہے۔
ہم بھی بڑی دلچسپ مخلوق ہیں ایڈوانس سوچتے اور چلتے ہیں۔ الیکشن قریب آئیں تو ہمیں لگتا ہے کہ مارشل لا یا بنگلہ دیشی ماڈل آجائے گا۔ الیکشن نہیں ہوں گے۔ پھر الیکشن ہو جاتے ہیں۔ تو ہم کہتے ہیں حکومت نہیں بنے گی اور اراکین کی خریدو فروخت پر تیسری قوت مداخلت کردے گی۔ حکومت بن جاتی ہے۔ پھر ہم شرطیں لگاتے ہیں، اس بار حکومت بجٹ پیش نہیں کر پائے گی۔ یہ شرط تب تک چلتی ہے جب تک حکومت چلتی ہے اور پھر اگر مارشل لاء لگ جائے تو ہم کہنے لگتے ہیں کہ اب سیاسی تحریک کامیاب ہوگی۔ اب مارشل لاء آجائے گا اب وردی اترے گی۔سسٹم نہ ہو ا کوفتہ ہو گیا ۔پہلے جانور ذبح کرتے ہیں (پتہ نہ چلے تومردہ جانور کا گوشت بھی استعمال کرتے ہیں) پھر ان کی بوٹیاں بناتے ہیں پھر ان بوٹیوں کو پیستے ہیں پھر ان میں مصالحہ شامل کرتے ہیں پھر ان کی بوٹیاں بناتے ہیں اور پھر کھاتے ہیں۔ بسا اوقات مصالحے اتنے تیز کر دیتے ہیں کہ کھانے کے بعد کئی کئی دن پٹاخے مارتے پھرتے ہیں۔ اور کتنے دن رہ گئے ،دسمبر چلا جائے گا لیکن نظام کی تبدیلی نئے ماڈلز کی طرز حکومت کی خواہش اور ریاست بچانے کے خواب زندہ رہیں گے۔ غریبوں کی ریاست بچانے کیلئے اربوں روپے نامعلوم فنڈز سے جاری ہوتے رہیں گے۔ میڈیا بھرمیں اشتہارات کا طوفان مچایا جائے گا۔ نجانے کیوں جو بھی باہر جاتا ہے امریکہ کا مہمان بنتا ہے اس میں مسیحا بننے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے پارسائی کے دعوے کرنے والوں سے کوئی پوچھے بھائی یہ جو تم بڑی رقم اپنی تشہیر میں صرف کر رہے ہو، کہاں سے آئی، کس نے دی۔
ایسا نہیں کہ دنیا میں انقلاب نہیں آتے، نظام نہیں بدلے جاتے لیکن اس کے لئے پہلے خود کو بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے اندر تبدیلی لانی پڑتی ہے اور ہم اتنے کاہل لوگ ہیں کہ جس کروٹ سوتے ہیں اسی سے اٹھ جاتے ہیں ہم تو کروٹ تک بدلنے کو تیار نہیں۔ کروٹیں وہ بدلتے ہیں جنہیں تفکر ہو۔ اور ہم ہر فکر سے آزاد لوگ ہیں ۔اس دھرتی پر انقلاب کسی آصف زرداری ، نواز شریف، شہباز شریف، منور حسن یا طاھر القادری نے نہیں لانا یہ انقلاب کسی ریٹائرڈ جنرل نے بھی نہیں لانا۔ یاد رکھیں یہ انقلاب فیجا دودھ والے، منہے چنے والے، اجو برگر والے ، بھولا مکینک نے لانا ہے۔ ایک عام آدمی نے لاناہے ۔اس ملک کی سب سے عظیم اکائی عوم نے لانا ہے۔ انقلاب جب بھی آیا جھونپڑی سے برآمد ہوگا۔ یہ کسی رائیونڈ محل ، بلاول ہاوس، یا تعلیمی ادارے کی پر شکوہ ریاست سے نہیں آئے گا۔ اور رہی ریاست تو یہ تب تک ہی سلامت رہتی ہے جب تک اس میں رہنے والا عام آدمی محفوظ رہتا ہے۔ اس ریاست کو بھی ایک عام نے بچانا ہے ہم نے بچانا ہے آپ نے بچانا ہے۔ ورنہ اس ریاست کو بچانے کے نام نہاد دعویدار ذرا سی دھمکی ملنے پر اپنی جان بچانے کیلئے بھاگ اٹھتے ہیں۔اور ہم نے یہیں رہنا ہے۔ اس ریاست میں اپنے وطن میں کیونکہ اس دھرتی میں ہمارے آباء دفن ہیں اور ہم نے بھی اسی میں ملنا ہے۔