دنیا میں عظیم لیڈرز ہی قوموں کی قسمت بدلتے ہیں جنہیں زندہ قومیں ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈر عطا کئے جنہوں نے قربانیاں دے کر ہمیں ایک آزاد وطن دیا اور پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنایا۔ میرا اور میری فیملی کا بینظیر بھٹو سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ بہت قریب رہ کر کام کیا ہے۔ وہ میری رول ماڈل تھیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں ان کے پائے کے بہت کم لیڈر ہیں۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی گیارہویں برسی پر ان کے ساتھ گزارے گئے کچھ تاریخی لمحات اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا تاکہ آنے والی نسلوں کو اس عظیم لیڈر کے بارے میں آگاہی ہو سکے۔
بینظیر بھٹو سے میری پہلی ملاقات 1994ء میں سائٹ ایسوسی ایشن کی ایوارڈز تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے صنعتوں کی بحالی کا ایوارڈ دیا تھا۔ بعد میں محترمہ کی درخواست پر میں انہیں مختلف اوقات پر بیمار صنعتوں کی بحالی، ملکی معیشت، توانائی کے بحران پر مختلف تجاویز دیتا رہا جس کی بنا پر مجھے ان کی قربت حاصل ہوئی، وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لے کر گئیں۔ وہ اچھی انگلش بولنے، لکھنے اور خوش لباسی کو بے حد پسند کرتی تھیں۔ بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم اور سفارتی تعلقات کی فارن لائژن کمیٹی کی ذمہ داریاں دیں جس کا کام بزنس کمیونٹی، سفارتکاروں اور پیپلز پارٹی کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا تھا۔ اپنے دورِ حکومت میں بینظیر بھٹو نے مجھے صنعتی ترقی کیلئے کے ای ایس سی اور سائٹ لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پرائیویٹ سیکٹر کی نمائندگی کیلئے نامزد کیا۔ 2002ء کے الیکشن میں بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ 250سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن بی بی، مخدوم امین فہیم اور سینیٹر رضا ربانی کے اصرار پر میں محترمہ کو انکار نہ کر سکا۔ یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔دبئی میں جلا وطنی کے دوران میں اور میرے بھائی اشتیاق بیگ محترمہ کے بہت قریب رہے۔ میری مرحومہ بھابھی نازیہ حسن سے محترمہ کی نہایت قریبی دوستی تھی۔ ہم نے اپنے دوست برطانوی پارلیمنٹ کے ممبرز کے ذریعے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی اور بالآخر بینظیر بھٹو نے 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ ان کے اعلان کے وقت پارٹی کے تمام سینئر لیڈرز اور ورکرز بلاول ہائوس میں جمع تھے۔ محترمہ کی کراچی واپسی ہم سب کیلئے خوشی کے ساتھ ایک چیلنج تھا کہ ہم کس طرح ان کا شایانِ شان استقبال کریں۔ اس سلسلے میں استقبالیہ کمیٹی میں مجھے بھی شامل کیا گیا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کراچی بالخصوص بلاول ہائوس کا میرا حلقہ NA-250محترمہ کی خوبصورت قد آور تصاویر سے سجایا گیا جس کے باعث وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے نہ صرف میرے گھر پر پولیس چھاپے پڑوائے بلکہ مجھ سمیت قائم علی شاہ اور دوسرے لیڈرز کو پیپلز پارٹی کی ریلی سے گرفتار کروا کے ڈیفنس تھانے میں رکھا۔ ہماری رہائی کیلئے خورشید شاہ، رضا ربانی، یوسف تالپور اور میرے وکلا رات گئے تک کوشش کرتے رہے۔ بعد میں ٹی پی او کلفٹن نے مجھے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے میرے علاوہ تمام لیڈرز کی رہائی کا حکم دے دیا لیکن وہ مجھ سے تحریری معافی نامہ اور بینظیر بھٹو کے استقبال کی تیاریوں میں حصہ نہ لینے کا حلف لینا چاہتے تھے جس پر میں نے انکار کر دیا۔ بالآخر رات گئے اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے فون پر رابطہ کرکے ہمیں رہا کرنے کا حکم دیا۔بینظیر بھٹو کا شایانِ شان استقبال اور سانحہ کارساز تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں نے الیکشن اور بی بی کے استقبال کی مصروفیات کی بنا پر اپنے بھائی اشتیاق بیگ کو بی بی کے ہمراہ دبئی سے کراچی آنے کیلئے کہا۔ وطن واپسی پر بینظیر بھٹو نے طیارے سے اترتے وقت میرے نام کی پی پی الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی بلکہ طیارے میں سوار تمام افراد کو بھی کیپ پہننے کی ہدایت کی جسے دنیا بھر کے چینلز نے دکھایا۔ بینظیر بھٹو اپنے قریبی ساتھیوں کو مختلف ذمہ داریاں دے کر آزماتی تھیں۔ کراچی میں محترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہائوس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا، شیری رحمٰن، رضا ربانی، رحمان ملک، قائم علی شاہ اور دیگر اہم پارٹی رہنما بھی شریک تھے۔ اجلاس میں طے پایا کہ سیکورٹی کے پیش نظر محترمہ بینظیر بھٹو اپنے کاغذاتِ نامزدگی کی تصدیق کیلئے دوبارہ الیکشن کمیشن آفس نہیں جائیں گی۔ اس موقع پر میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی حاضری کا استثنا حاصل کرنا چاہئے۔ میں نے فوراً الیکشن کمیشن کے اس وقت کے سیکریٹری کنور دلشاد سے رابطہ کرکے بینظیر بھٹو کی الیکشن کمیشن میں حاضری سے استثنا حاصل کیا۔ میں یہ بات محترمہ کو بتانا ہی چاہتا تھا کہ رحمان ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔ اتوار ہونے کے باوجود کنور دلشاد نے تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا جسے میں نے فخریہ انداز میں محترمہ کو پیش کیا۔ تحریری استثنا دیکھ کر محترمہ نے مجھے Well doneکہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا نے محترمہ سے مذاقاً کہا ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا ‘‘ہی کر سکتے ہیں‘‘۔ محترمہ نے جواب میں کہا ’’نہیں صرف ’’بیگ‘‘ کر سکتے ہیں‘‘۔ محترمہ کی یہ بات میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔
محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008ء کے انتخابات کیلئے کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250کا پارٹی ٹکٹ دیا۔ پورے پاکستان میں 2008ء کے الیکشن میں بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر مجھے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا تھا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل تھی۔ شام کو میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی ڈیفنس رہائشگاہ پر میری انتخابی کارنر میٹنگ رکھی تھی۔ میں نے جیسے ہی اپنی تقریر شروع کی، تھوڑی دیر میں آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مختار بھٹو تیزی سے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ میں اپنے دوست فرخ مظہر کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر ہمیں یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ یہ دلخراش خبر سنتے ہی میں سیدھا بلاول ہائوس بھاگا جہاں پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنے عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ پارٹی کی درخواست پر میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ طیارے میں میرے ساتھ مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، شیری رحمٰن اور پارٹی کے دیگر رہنما موجود تھے جنہیں یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ بینظیر بھٹو انہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئی ہیں۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لے جانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں و سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر بھی کبھی نہیں بھول سکتا۔
2008ء کے انتخابات میں مَیں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے کیونکہ میرا اور پارٹی کے تمام کارکنوں کا یہ عزم تھا کہ بلاول ہائوس کے حلقے کی یہ نشست پیپلز پارٹی کی ہو مگر ایم کیو ایم نے طاقت کے زور پر بیلٹ باکس خالی بیلٹ پیپرز سے بھر کر عوامی مینڈیٹ کا جو مذاق اڑایا، وہ دنیا کے سامنے تھا۔ بعد میں ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مرحلے پر مفاہمت کے تحت پارٹی کے شریک چیئرمین کی ہدایت اور پارٹی ڈسپلن کے باعث اپنی پٹیشن واپس لینا پڑی جس کا آج بھی مجھے سخت افسوس ہے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کے بلیک بیری سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو بھیجا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے‘‘
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ شہید بینظیر بھٹو سے یہ میری آخری گفتگو ہو گی۔