دُنیا میں ہر نئی چیز، کچھ عرصے بعد نئی نہیں رہتی، جیسے 2018ء ،جسے بارہ مہینے پہلے ہم نے نیا سال کہہ کر گلے لگایا تھا، آج پرانا ہوکر رُخصت ہوا، لیکن زندگیوں میں سالِ گزشتہ کی اہمیت بہرحال برقرار رہتی ہے کہ گزشتہ برسوں کا اجمالی جائزہ ہی نئے سال کی کسی منصوبہ بندی کے لیے کارگرثابت ہوتا ہے۔ تو لیجیے، زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح ادب کے سالِ گزشتہ کا ایک سرسری جائزہ پیش خدمت ہے۔
2018ء پاکستان میں عام انتخابات اور نئی حکومت سازی کا سال رہا، مگر ادبی سرگرمیوں اور تخلیقی کاوشوں کی رفتار متاثر نہیں ہوئی بلکہ بعض سیاسی جماعتوں نے محفلِ مشاعرہ کو اپنی انتخابی سرگرمیوں میں جگہ دی، جو یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ 2018ء کی سب سے نمایاں بات ’’کتاب دوست معاشرے‘‘ کی تشکیل کی سنجیدہ کوششوں میں اضافے کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے سال بھر پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف ادارے کتابوں کے پھیلائو میں مصروف نظر آئے۔ کراچی میں عالمی کتب میلہ، گوادر کتب میلہ، قومی کتب میلہ، زیرِاہتمام نیشنل بک فائونڈیشن، لاہور بیسٹیول (Bestival)، جاپان فیسٹیول، سالانہ کتب میلہ، کراچی منعقد کئے گئے۔ ان کے علاوہ اُردو لغت بورڈ نے کتاب دوستی کی غرض سے ’’گوشۂ تبادلہ کتب‘‘ کا آغاز کیا۔ جہاں سے کتاب کے بدلے کتاب لی جاسکے گی۔ آرٹس کائونسل کراچی میں نئی لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔ اُردو سائنس بورڈ نے کتابوں پر 70فی صد رعایت دینے کا اعلان کیا، جب کہ کراچی میں چہلم امام حسین ؓ کے مرکزی جلوس میں کتابوں کی منفرد سبیل بھی دیکھنے میں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام کانفرنسوں، سیمینارز اور مذاکروں میں بھی کتابوں کے اسٹالز لگائے جاتے رہے۔ دوسری جانب مختلف موضوعات پر اہم کتب کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ بہ حیثیتِ مجموعی نثر کی کتابیں زیادہ تعداد میں شایع ہوئیں، جن میں افسانوں کے کئی مجموعے بھی شامل ہیں۔ افسانوں کے مجموعوں میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔ جینے کی پابندی، (خالدہ حسین کے تازہ افسانوں کا انتخاب۔ مرتّب:محمد حمید شاہد)، جانے پہچانے (اخلاق احمد)، برادہ (محمد حامد سراج)، راکھ سے لکھی گئی کتاب (ناصر عباس نیئر)، بے چین شہر کی پرسکون لڑکی (امین صدر الدین بھایانی)، یہی دسمبر کا مہینہ تھا (انور فرہاد)، پانیوں میں گھلتی زمین (رحمان نشاط)، دردِ زیست (رضیہ بیلا سیّد، اس مجموعے میں مضامین اورنظمیں بھی شامل ہیں)، روشنی چاہیے(شہناز پروین) محبت، سمندر اور وہ (گلزار ملک)، چبھن (تسنیم کوثر)، سرکتے راستے (محمد جاوید انور)، روح دیکھی ہے کبھی (ہما فلک) جھوٹے آدمی کے اعترافات (لیاقت علی)، کلیشے (خرم بقا)، ہاتھ ملاتا دریا اور مقدّس بیٹی (ابن ِ مسافر)، سلسلے مسافت کے (طلعت شبیر)، رات کا سورج (جبران علی)، فرار اور دوسرے افسانے (نجم الدین احمد)، مکمل کچھ نہیں ہوتا (سائرہ اقبال)، کوئی چارہ ساز ہوتا (محمد مجیب احمد)، کینوس پر چھینٹے (منیر احمد فردوس)، عالمی سب رنگ افسانے (مرتب : محمد حامد سراج)، محمد حامد سراج کے شاہ کار افسانے (مرتب: امر شاہد) افسانوں کے دریچوں سے جھانکتی زندگی (شہناز خانم عابدی) ڈھائی خانے کی چال (سیّد سعید نقوی)، لمحہ بے لوث (طیبّہ خان) جب کہ ترقی پسند تحریک کے آغاز میں شایع ہونے والا افسانوں کا مجموعہ ’’انگارے‘‘ بھی اس سال دوبارہ شایع ہوا ہے۔ اس مجموعے میں سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود الظفر کے افسانے شامل ہیں۔
ناول عموماًکم کم لکھے جاتے ہیں، مگر گزشتہ سال کچھ اہم ناولز شایع ہوئے، جن پر سال بھر بات بھی ہوتی رہی۔ ان ناولز میں منطق الطیر جدید (مستنصر حسین تارڑ) جینی (احمدجاوید) انار کلی (مرزا حامد بیگ)، طائوس فقط رنگ (نیلم احمد بشیر)، مٹّی کا درخت (نجم الحسن رضوی۔ یہ ناول ’’مکالمہ‘‘ میں قسط وار شایع ہوا تھا۔ اس سال یہ کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے) چار درویش اور ایک کچھوا (سیّد کاشف رضا کا یہ ناول ’’آج‘‘ میں قسط وار چھپا تھا۔ اب کتابی شکل میں شایع ہوا ہے) جج صاحب (اشرف شاد) بی اے رستم، ٹی وی اینکر (اشرف شاد) جندر (اختر رضا سلیمی)، مانگی ہوئی محبت (محمد اقبال عابد) سو سال وفا (فارس مغل) گل مینہ (ظفر سیّد) اورپانی مر رہا ہے (آمنہ مفتی) شامل ہیں۔نثر کی دیگر کتابوں میں تنقید، خاکے، سوانح عمری، سفرنامے اور ترجمے شامل ہیں، تنقید کی کتابوں میں مطالعۂ اقبال کی جہتیں (مرتبین: ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹر رئوف پاریکھ)، ڈاکٹر سلیم اختر بہ حیثیت اقبال شناس (ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم)، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی ہی کی انوارِ پاکستان، تفاخر ِ پاکستان، فکرِ اقبال میں انسانی مسائل کا حل، چند ہم عصر اقبال شناس، ادبی اصطلاحات، اصناف ادب، ردائے اُردو بھی شایع ہوئیں۔ مجموعہ مضامین (جمال پانی پتی) یادیں، خواب، کہانیاں (نجیب محفوظ کی نگارشات آصف فرخّی نے مرتب کی ہیں) خاموشی کی آواز (مرتبین: آصف فرخّی، فاطمہ حسن) بڑی مشکل سے ہوتا ہے، چمن میں دیدہ ور پیدا (محمود خاور جمیل)، امجد فہمی (تقی عابدی) لسانیات اور تنقید (ناصر عباس نیئر۔نئے مقالات کے اضافے کے ساتھ نیا ایڈیشن) مابعد جدیدیت، اطلاقی مباحث (مرتب: ڈاکٹر ناصر عباس نیئر)، نظم کیسے پڑھیں (ناصر عباس نیئر)، پاکستانی اُردو ناول میں عصری تاریخ (ڈاکٹر شاہد نواز)، اُردو ادب کی تاریخیں (مرتب: ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی)، اردو کی ظریفانہ شاعری میں مزاحمتی عناصر (ڈاکٹر طارق کلیم)، غزل گو شہزاد احمد (اسد عباس عابد)، کیکٹس کے پھول (شموئیل احمد)، صاحبِ اسلوب جمیل احمد عدیل (مرتبہ : عنبرین صابر)، جرمنی میں اُردو (عشرت معین سیما) روداد، نویں عالمی اردو کانفرنس (آرٹس کائونسل، کراچی)، دسویں عالمی اردو کانفرنس (آرٹس کائونسل، کراچی)۔ نظریاتِ جمال و فن: افلاطون سے لیوتار تک (اقبال آفاقی) کلامِ غالب کی دو مستند شرحیں، وثوق صراحت اور مشکلاتِ غالب (تدوین:حنا جمشید)، اردو افسانے میں جنس کی روایت (سدرہ اختر)۔ فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت (فرخ ندیم) شامل ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستانی ادب کے معمار سلسلے میں اضافہ کیا، مستنصر حسین تارڑ: شخصیت اور فن (ڈاکٹر غفور شاہ قاسم) اور ابنِ صفی: فن اور شخصیت (محمد فیصل) شایع ہوئیں۔ مخطوطات، سفر ناموں، یادداشتوں، خاکوں اور سوانح عمری میں چند نام یہ ہیں: باتیں مشفق خواجہ کی (یہ تحسین فراقی صاحب کے نام مخطوطات ہیں، جنہیں حمیرا ارشاد نے مرتب کیا ہے) ہوا نامہ بَر ہے (شمیم احمد کے وہ خطوط، جو انہوں نے اپنی بیگم منیرہ احمد شمیم کے نام لکھے تھے، وہ ان کی بیگم نے مرتب کردیئے ہیں)۔ بزم ِ احبابِ ندوہ (محمد حمزہ فاروقی) جبران سے ملیے (مرتبین: شجاع الدین غوری، سیّد صابر علی ہاشمی، وضاحت نسیم)، یادیں باقی ہیں (معین کمال کے شخصی مضامین، مرتب: فاروق انور)، سرخاب (عرفان جاوید)، مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں کچھ یادیں (ترتیب و تدوین: امر شاہد)، یادیں اور خاکے اور اَن کہی کہانیاں: سیّدہ انیس فاطمہ بریلوی (ترتیب و تدوین: راشد اشرف)، چند ناقابلِ فراموش شخصیات (منشی عبدالرحمٰن خان)، تجھے ہم ولی سمجھتے (لطیف الزماں خان پر لکھے گئے خاکے/ یاد داشتیں، مصنف ڈاکٹر ابرار عبدالسلام)، ابرار صاحب ہی کی تصانیف لطیف الزماں کی تنقید، ان سے بھی ملیے۔ جو صورت نظر آئی (فاروق عادل)، مشاہیر علم و دانش کی آپ بیتیاں (تلخیص و ترتیب: محمد حامد سراج)، اہم شعرا کی آپ بیتیاں (ثمرین اختر)۔ کالا پانی(اُردو کی اوّلین خودنوشت سوانح عمری، مرتّب: محمد حامد سراج، مصنف مولانا محمد جعفر تھانیسری)، کوچۂ قاتل (رام لعل کی خود نوشت، پیشکش و اہتمام راشد اشرف)، زندگی کا انوکھا سفر (محمد تاج لالہ) متاع ِ قلیل (محمد نذیر رانجھا)، کہانیاں دُنیا کی (سلمیٰ اعوان) ایران میں کچھ دن (محمد علم اللہ) کراچی کی آواز (عارف شفیق کے کالم، مرتب: محمد علی عارف، کشور عدیل جعفری)، مصورانِ خوش خیال (خالد معین)، جب کہ نیشنل بک میوزیم کا کیٹلاگ ’’جہانِ حکمت و حیرت‘‘ بھی شایع ہوا۔ اسی طرح کئی اہم تراجم بھی سامنے آئے۔ ان میں ایلس بنام فیض ( سیّد مظہرجمیل)، ایلس فیض کی کہانی (مظہر جمیل)۔ جاپان کا نوبل ادب (باقر نقوی کے اس ترجمے میں تین ناولز شامل ہیں، جن کے مصنف، نوبل انعام یافتہ ہیں)۔ سنجوگ (حمرا خلیق نے مائی خیبر میرج کا ترجمہ کیا ہے)۔ ادھ اَدھورے لوگ (محمد حفیظ خان)، نوبل انعام یافتگان کے انٹرویوز (سجاد بلوچ)، حقیقت کا جادو (عنبرین صلاح الدین)، بنفشہ کے پھول (ایرانی خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے، انتخاب: راضیہ تجار، ترجمہ: احمد شہر یار)، یوروپین نو ابادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات (نسیم سیّد) اور کالے والا (ارشد فاروق) شامل ہیں۔
جہاں تک شعری مجموعوں کا تعلق ہے، ان میں غزلوں کے مجموعے زیادہ شایع ہوئے، لیکن خالص نظموں کے مجموعوں کی تعداد برائے نام رہی۔ شاعری کی کتابوں میں کئی کلیات بھی شایع ہوئے، ان میں شعری کلیات عزیز احمد ( ترتیب و تدوین: طارق محمود)۔ ریزہ ریزہ ہو یہ زنجیرِ گراں (کلیاتِ حسن حمیدی۔ مرتب:توقیر حسن ایڈوکیٹ) مصحف (میر احمد نوید) سوادِ سخن (سحر انصاری)، مزا میر (غلام حسین ساجد)، قابلِ ذکر ہیں۔ شعری مجموعوں میں تاخیر (ظفر اقبال) توفیق (ظفر اقبال) آتے ہیں غریب سے (انور شعور) لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے (خواجہ رضی حیدر)، خواب بدل گئے میرے (سرور جاوید)، مصحف (میر احمد نوید)، ملبے سے ملی چیزیں (نصیر احمد ناصر)، دُکھ لال پرندہ ہے (علی محمد فرشی)، جنہیں راستے میں خبر ہوئی(سلیم کوثر)، دھنک دھوئیں سے اُٹھی (شاہد ذکی)، قدیم (سیّد کامی شاہ) عشق بخیر (رحمان فارس) زمن افروز (افروز رضوی)، محبتوں کے شہر میں (شائستہ مفتی)، دھوپ کی شاخ (اسد قریشی)، روح تجھ سے کلام کرتی ہے (ثمینہ یاسمین)، وارفتگی (ناز بٹ)، رخت (صائمہ اسحاق)، ہجرتوں کا انخلا (سمیع نوید)، مسافت (نوید صادق)، مختلف (آفتاب احمد)، ابد آباد (عرفان صادق)، غبارِ حیرت (احمد وقاص)، سرگوشی (تسنیم کوثر)، طوافِ گل (اشفاق شاہین)، آوازے کا پتھر پھینک (رابعہ رحمٰن)،اور یہ زیادتی ہے (محمد عارف) شامل ہیں۔پھر ہر سال کی طرح حمد و نعت، سلام و منقبت کے کئی مجموعے بھی شایع ہوئے، جن میں اخناتون کی حمدیں (عطش درانی)، ہزار آئینہ (فیروز ناطق خسرو)، عکس ِ جلال و جمال ( حجاب عباسی)، تو کُجا من کُجا (بشریٰ فرخ)، مودّت کے گلاب (سیّد انیس جعفری)، نقش (دلاور علی آذر)، سارے حرف محبت کے (عرفان جمیل)، فیضانِ مصطفیٰ (بشیر احمد رضوی) قابل ِ ذکر ہیں۔ جب کہ نعت نگاری کے حوالے سے ایک اہم کتاب ’’اقبال کی نعت نگاری‘‘ صبیح رحمانی نے مرتّب کی ہے۔ نیز، ادبی جرائد، کتابی سلسلے اور اخبارات کے ادبی صفحات بھی بڑی تعداد میں شایع ہوتے رہے۔ ان میں ’’مکالمہ‘‘ کا پہلا سال نامہ شایع ہوا، ’’دنیا زاد‘‘ تعطّل کے بعد پھر شایع ہوا، ’’قومی زبان‘‘ نے ضخیم ’’مشتاق احمد یوسفی نمبر‘‘، آج نے ارون ردھتی کا خصوصی گوشہ شایع کیا۔ ’’چہار سو‘‘ نے سحر انصاری کا خصوصی گوشہ شایع کیا۔ ’’ہم رکاب‘‘ کے نام سے سہیل احمد صدیقی نے پروفیسر رئیس علوی کی سرپرستی میں نیا رسالہ شایع کیا، جس میں حصّہ فارسی بھی شامل ہے۔ دیگر جرائد، رسائل، کتابی سلسلوں اور تحقیقی جرنلز میں یہ نام لیے جاسکتے ہیں۔ لوح، سیپ، تطہیر، ادبِ عالیہ، کولاژ، فنون، الحمراء ساتھی، پیغامِ آشنا، پیلوں، عمارت کار، الاقرباء، فن زاد، شعر و سخن، انشا، جمالیات، دنیائے ادب، ارژنگ (لاہور) لوحِ ادب، الماس، اورینٹل کالج میگزین، بازیافت، بنیاد، تحقیق، تحقیق نامہ، تخلیقی ادب، جرنل آف ریسرچ، خیابان، زبان و ادب، معیار، دریافت، استعارہ، رسالہ، الزبیر، تخلیق، نیرنگِ خیال، ادبِ لطیف، اردو اخبار، تہذیب، دانش، اردو، پاکستانی زبان و ادب، نیرنگِ بیاض، ذوق و شوق، سپوتنک، کاغذی پیرہن، مجلّہ بدایوں، تہذیب، مخزن، ثبات، غنیمت، روشنائی، کارواں، ادب دوست، ندائے گل، ادبِ معلیٰ، حرف انٹرنیشنل، عکّاس انٹرنیشنل، انہماک، بجنگ آمد، نزول، بیاض، فانوس، قلم کی روشنی، کہکشاں، صبحِ بہاراں، کارواں، اجمال، تلازمہ، نقاط، زیست، راوی، قرطاس، بنیاد، صحیفہ، بیلاگ، قلم قبیلہ، انگارے، فکر و نظر، ارتقا، نمود، آہنگ، عالمی رنگ، ادب، تحقیقی زاویے، عبارت، الاّیام، سنگ، کہانی گھر، پاکستان شناسی، پیامِ اردو، امتزاج، ارتفاع، ثالث، سوچ، تفہیم، ابجد، نوارد، دستک، دھنک، اردو کالم، پیامِ رومی، تعبیر، پیامِ آشنا، ادب و کتب خانہ اور الحمد وغیرہ شامل ہیں۔
ملک بھر میں مختلف ادارے، جامعات اور تنظیمیں اہم پروگرامز بھی منعقد کرتی رہیں۔ ان میں سب سے اہم ’’اردو باغ‘‘ کے قیام پر انجمن ترقی اردو نے منعقد کیا۔ ’’اردو باغ‘‘ کا قیام اس سال ادب میں ایک بڑا واقعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ دیگر اہم پروگرامز میں کراچی آرٹس کائونسل کی گیارہویں عالمی اردو کانفرنس، کے ایل ایف (کراچی لٹریری فیسٹیول) آئی ایل ایف (اسلام آباد لٹریری فیسٹیول)، کولاج ادبی میلہ، فیض ادبی میلہ، لاہور لٹریری فیسٹیول، جاپان فیسٹیول، جشنِ اقبال (ایوانِ اقبال)، دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس (قومی جامعہ برائے السنّہ جدید) محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس (آرٹس کائونسل، کراچی) ’’سائنسی فکر کے فروغ میں اردو ادیبوں کا حصّہ‘‘ مذاکرہ (اردو سائنس بورڈ)، انٹرنیشنل اردو مشاعرہ 2018ء کراچی اور عالمی مشاعرہ، کراچی شامل ہیں۔ پھر پڑوسی ملک بھارت سے کئی اہم شخصیات کو مدعو کرکے نہایت عزت و احترام سے سنا گیا۔ان میں شمیم حنفی، جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور نادرہ ظہیر شامل ہیں۔
اگرچہ2018ء میں ادب پر بہار چھائی رہی، مگر یہ سال کئی ایسی اہم شخصیات کو ملک ِ عدم بھی لے گیا، جنہوں نے اُردو زبان و ادب کو ثروت مند کیا۔ ان نابغۂ روزگار شخصیات میں رسا چغتائی، مشتاق احمد یوسفی، منو بھائی، علی رضا نقوی، ساقی فاروقی، شاہد حمید، محمد عمر میمن، فہمیدہ ریاض، مظہر کلیم، سیّد انتخاب علی کمال تقوی، یوسف حسن، اکرام بریلوی، الطاف فاطمہ، قمر جمالی امروہوی، عطش درانی، رحمان فراز، سعید اختر درانی، جمیل آذر، طاہر سعید ہارون، محمد عارف، اکرام الحق شوق، فضا اعظمی، سہیل غازی پوری، محمد انور خان، پروین عاطف، موج لکھنؤی، سلیم آغا قزلباش، صفدر سلیم سیال اور خالد محمود خالد شامل ہیں۔