• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سال میں چار وزرائے اعلیٰ کے تجربے کی مثال قائم ہوئی٭ گوادر اور سی پیک سے متعلق اجلاسوں کا سلسلہ جاری رہا٭ کان کنوں کے بنیادی نوعیت کے مسائل حل نہ ہوسکے٭ لاپتا افراد کے مسئلے پر لواحقین مسلسل احتجاج کرتے رہے

ایک عرصے سے عالمی قوتوں کا مرکزِ نگاہ رہنے والے صوبے، بلوچستان میں 2018ء میں یوں تو غیرمعمولی نوعیت کے حالات برقرار رہے۔ تاہم، سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں حکومتوں کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی۔ جب کہ عوام بدامنی کے چھوٹے بڑے واقعات اور قحط سالی کے شدیدتراثرات کے باعث گوناگوں مسائل کا شکار رہے۔ ایک طرف سی پیک اور وسائل سے متعلق بلندبانگ دعوے ہوتے رہے، تو دوسری جانب عالمی اداروں کی فکرانگیز رپورٹس بھی آتی رہیں کہ طویل ساحلی پٹّی اور سونے، چاندی سمیت مہنگی ترین معدنیات اور وسائل سے مالا مال صوبے، بلوچستان نے نہ صرف غربت و پس ماندگی میں باقی صوبوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، بلکہ یہاں خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اگرسیاسی و پارلیمانی حوالے سے جائزہ لیا جائے، تو 2018ء کا سال اس حوالے سے اہمیت کا حامل ٹھہرتا ہے کہ اس برس صوبے نے چار وزرائے اعلیٰ دیکھے، جن میں ایک نگراں اور تین منتخب وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔ سال کے آغازہی میں مسلم لیگ(ن) کے منتخب وزیرِاعلیٰ، نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف محلّاتی سازشوں نے زور پکڑا، تو موجودہ اسپیکر، میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروادی، جو چند ہی دنوں میں نواب ثناء اللہ زہری کی سبک دوشی پر منتج ہوئی۔ بعدازاں، قلیل مدّت کے لیے میر عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بنائے گئے، پھر نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر علاؤالدین مری وزیراعلیٰ ہاؤس کے مکین بنے اور اس کے بعد بالآخر 25جولائی کے عام انتخابات کے نتیجے میں سیاسی افق پر ابھرنے والی نئی جماعت، ’’بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کے سربراہ، میر جام کمال وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر براجمان ہوئے۔

بدقسمتی سے بلوچستان میں حالات کی خرابی کے باعث گزشتہ کئی ادوار کی طرح 2018ء کے عام انتخابات کے دوران بھی خوف و ہراس کی فضا قائم رہی، البتہ پولنگ کی شرح 2008ء اور2013ء کی نسبت بلند رہی۔ اس دوران بلوچ اکثریتی علاقوں کےحسّاس قرار دیئے جانے والے پولنگ اسٹیشنزمیں انتخابات کے مراحل غیر معمولی سیکیوریٹی انتظامات کے باعث بخیر و خوبی انجام پائے۔ انتہائی حساس قرار دیئے جانے والے پولنگ اسٹیشنز میں آواران، پنجگور اور تربت کے متعدد حلقے شامل تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ حکمران جماعت ’’بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ 2018ء ہی میں تشکیل پائی اور ملکی انتخابات میں حصّہ لے کر صوبے کی اکثریتی جماعت بن گئی۔ تاہم، صوبے کی سابق حکومت کا حصّہ رہنے والی جماعتوں کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں اور اپوزیشن اراکین ’’بی اے پی‘‘ کی تشکیل و انتخابی کام یابی کو مقتدر قوتوں سے جوڑتےرہے۔ تاہم، یہ امر خوش آئندہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں کام یاب ہونے والے اراکین کی نصف تعداد نئے چہروں پر مشتمل ہے۔ ان انتخابات میں جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی اورمتحدہ مجلس عمل نے خاطرخواہ نشستیں حاصل کیں، وہیں صوبے میں پہلی بار پشتون قوم پرست جماعت ’’عوامی نیشنل پارٹی‘‘ نے بھی چارنشستیں حاصل کیں، جب کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار پی ٹی آئی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کو پارلیمانی نمائندگی ملی اور سابق حکومت میں شامل دو جماعتوں پشتون خوا میپ اور مسلم لیگ (ن) کا صرف ایک ایک امیدوار کام یاب ہوسکا، جب کہ نیشنل پارٹی ایک نشست بھی حاصل نہ کرسکی۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت چھے جماعتوں کے اتحاد سے تشکیل پائی، جن میں بی اے پی، پی ٹی آئی، اے این پی، بی این پی (عوامی)، ایچ ڈی پی اور جے ڈبلیو پی شامل ہیں۔ حکومت سازی کے فوری بعد بلوچستان کے مالی بحران کی صدائیں اٹھنے لگیں، جن پر صوبائی اسمبلی کے ایوان میں مسلسل کئی گھنٹوں تک بحث بھی ہوتی رہی، نیز مالی بحران کے خاتمے اور این ایف سی ایوارڈ کے اجراء کے لیے ایوان کی متفّقہ قرار داد بھی پاس کی گئی۔ تاہم، صوبہ بدستور مالی بحران کا شکار رہا۔کہا جارہا ہے کہ اگر صورتِ حال ہی رہی، تو کچھ عرصے میں حکومتِ بلوچستان کے پاس سرکاری ملازمین کی تن خواہوں کی رقم بھی نہیں ہوگی۔

امن وامان کی بات کی جائے، تو صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں سیکیوریٹی فورسز پر حملوں، خُودکش دھماکوں، اور ٹارگٹ کلنگز کے واقعات کا سلسلہ جاری رہا۔عام انتخابات سے دو ہفتے قبل مستونگ سے بی اے پی کے امیدوار، نواب زادہ میر سراج رئیسانی کے انتخابی جلسے میں ہونے والے خُودکش دھماکےمیں میر سراج رئیسانی سمیت دو سو کے قریب افراد جاں بحق اورایک سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ پھرانتخابات کے روز کوئٹہ میں ایک پولنگ اسٹیشن کے قریب سیکیوریٹی اہل کاروں پر کیے جانے والے خُودکش حملے میں 30افراد جاں بحق، جب کہ 60سے زائد زخمی ہوئے۔ اسی طرح 14اگست کو نوشکی میں ایک دستی بم حملے میں پندرہ افراد زخمی ہوئے۔ قبلِ ازیں، گیارہ اگست کو دالبندین میں آرسی ڈی شاہ راہ پر سیندک پراجیکٹ کے چینی انجینئرز کی بس پر خُودکش حملہ کیا گیا، جس میں متعدد چینی انجینئرز زخمی ہوئے۔ 25اکتوبر کو ضلع واشک کے پہاڑی علاقے ناگ میں آئی جی ایف سی (ساؤتھ) کے قافلے پر مسلّح افراد نے حملہ کیا، جس میں دو اہل کار شہید ہوئے۔دیگر واقعات میں صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سمیت مستونگ ، خضدار ، آواران ، پنجگور ، تربت ،واشک ، حب ، ڈیرہ بگٹی ، کوہلو، پشین ، چمن ، گلستان ، ہرنائی و دیگر اضلاع میں قومی تنصیبات، سیکیوریٹی فورسز، پولیس اور لیویز اہل کاروں پر بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگز کی دو درجن سے زائد وارداتیں شامل ہیں، جب کہ خواتین پر تیزاب پھینکنے سمیت اسکولوں کو دھمکیاں دینے اور فائرنگ کے متعدد واقعات بھی پیش آئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کوئٹہ شہر کے علاقے کلی شابو میں پیش آیا، جہاں نامعلوم مسلّح افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں اسکول کے چار بچّے زخمی ہوگئے۔ صوبے میں پیش آنے والے قتل و غارت گری، خُودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگز اور بم دھماکوں کے واقعات کی ذمّے داری کالعدم تنظیموں بی ایل ایف، بی ایل اے، داعش اور جماعت الاحرار نے قبول کی۔ بعض واقعات میں مسلّح افراد اور تنظیموں نے واقعات کی ویڈیوز بھی جاری کیں۔ سیکیوریٹی فورسز، پولیس اور لیویز کی جانب سے بھی شدّت پسندوں کے خلاف بھرپور آپریشنز اور کارروائیاں جاری رہیں، جن میں متعدد شدّت پسند ہلاک اور گرفتار ہوئے۔ ان کارروائیوں میں بھاری تعداد میں اسلحہ اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا جاتا رہا۔ اس حوالے سے مرکزی حکومت کے اقدامات بھی قابلِ تحسین ہیں کہ بلوچستان میں امن وامان کے قیام کے حوالے سے موجودہ حکومت نے بھی اپنی ترجیحات وضع کیں اور بدامنی کے خاتمے کو اوّلین ترجیح قرار دیا۔

وسیع و عریض رقبے کے حامل بلوچستان کی افغانستان اور ایران کے ساتھ طویل سرحدی پٹیوں پراکثر اوقات جھڑپوں اور فائرنگ کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ افغانستان کے ساتھ چمن بارڈر پر 14اکتوبر کو باڑ کی تنصیب کے معاملے پر افغان اور پاک فوج میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے باعث دونوں ممالک کے درمیان ’’باب دوستی‘‘ کو بند کردیا گیا، جس کے باعث مقامی لوگوں کو کئی روزتک شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم، اے این پی کے صوبائی صدر، اصغرخان اچکزئی کی کوششوں سے اس وقت کے افغان جنرل، عبدالرازق اور پاکستان کے فوجی حکام کے درمیان رابطے اور مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے، تو ’’بابِ دوستی‘‘ کو آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ عموماً ایران کے ساتھ واقع سرحد پر ناخوش گوار واقعات کم ہی پیش آتے ہیں۔ تاہم، 16اکتوبر کو پاک، ایران سرحد پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے 2افسروں سمیت14سیکیوریٹی اہل کاروں کے اغوا سے کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہوا۔

صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ اورساحلی شہر، گوادر میں ’’سی پیک منصوبے‘‘ سے متعلق مختلف اجلاسوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، جن میں صوبائی اوروفاقی وزراء کے علاوہ سول و عسکری حکّام اور غیر ملکی مندوبین بھی شریک ہوئے۔ اگرچہ وزیراعظم، عمران خان کے دورئہ چین کے موقعے پر اعلیٰ سطحی وفد میں وزیراعلیٰ بلوچستان، میر جام کمال بھی شامل تھے، لیکن دسمبر کے دوسرے ہفتے میں صوبائی حکومت کے ترجمان کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ ’’سی پیک، جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی‘‘ کے آئندہ اجلاس میں حکومت بلوچستان کی شرکت کا فیصلہ اجلاس کے ایجنڈے کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ ’’سی پیک منصوبے سے بلوچستان کو لاتعلق کرنے سے صوبے کے عوام مستفید نہیں ہوسکیں گے۔‘‘ دوسری جانب 12اکتوبر کو وزارتِ منصوبہ بندی و ترقیات کی ایک وضاحت میں بتایاگیا کہ سی پیک منصوبے کے تحت چار برسوں میں 28ارب ڈالر کے 22منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، تاہم صوبے کی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ ان منصوبوں میں صوبے کے بلوچ پشتون علاقوں کو یک سر نظر انداز کیا گیا ہے اور سی پیک کے تحت صوبے میں کوئی منصوبہ تو دُور کی بات، اس کے اثرات تک کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ گوادر جس کی وجہ سے یہ منصوبہ شروع ہوا ہے، وہاں آج بھی لوگ پینے کے پانی کے لیے ترس رہے ہیں، اس صورتِ حال سے آبی قلّت کے سنگین مسئلے کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک طرف گوادر میں آبی قلت کا سنگین مسئلہ درپیش ہے، تو دوسری جانب بین الاقوامی سطح پرگوادر کی بازگشت دور دور تک سنائی دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس 29اکتوبر کوگوادر میں ’’ایشیائی اسمبلی‘‘ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں 26ممالک کے 100 سے زائد مندوبین شریک ہوئے۔ اگرچہ سابق حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی بلوچستان کے معدنی شعبے میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سنجیدگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ تاہم، معدنی شعبے کی حالتِ زار کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی صنعت، کوئلے کی کان کنی، جس سے ایک لاکھ کے لگ بھگ کان کنوں کا روزگار وابستہ ہے، اس کے بنیادی نوعیت کے مسائل آج تک حل نہیں ہوسکے۔ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ہر سال ان کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں درجنوں کان کن جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ 2018ء میں مئی اور اگست کے مہینے میں مارواڑ اور سنجدی میں پیش آنے والےو اقعے میں 35 مزدورجاں بحق ہوئے۔جب کہ ہرنائی ، دکی، اسپین کاریز اور دیگر علاقوں کی کوئلہ کانوں میں بھی اسی نوعیت کے واقعات پیش آتے رہے، جن میں مجموعی طور پر ایک سو کے قریب مزدور جاں بحق ہوئے۔14 اور 15دسمبر کی درمیانی شب تربت کے علاقے ’’واکے‘‘ میں سیکیوریٹی فورسز کے قافلے پر حملے میں چھے اہل کار شہید، جب کہ ایک کیپٹن سمیت 15 اہل کار زخمی ہوئے۔ جوابی کارروائی میں چار حملہ آور بھی مارے گئے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ بنا رہا۔ لاپتا افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی تلاش میں عدالتوں میں دھکے کھانے کے ساتھ سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیئے۔ اس حوالے سے کوئٹہ میں’’ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘‘ کا احتجاجی کیمپ مسلسل کئی برسوں سے جاری ہے، جس میں لاپتا افراد کے لواحقین ، بچّے اور خواتین گمشدہ افراد کی تصاویر اٹھا کر دن بھر بیٹھے رہتے ہیں۔ کیمپ میں مختلف سیاسی رہنماؤں کی آمدورفت بھی جاری رہتی ہے ۔ لاپتا افراد کا معاملہ حالیہ عرصے میں صوبے سے نکل کر قومی منظرنامے پر بھی دکھائی دینے لگا ہے، مختلف فورمز پر لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے جدوجہد کرنے والوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ، سردار اختر مینگل کا نام نمایاں ہے، جنہوں نے حکومت سازی کے وقت اس شرط پر مرکزکا ساتھ دیا کہ لاپتا اافراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔انہوں نے حکومت کو لاپتا افراد کی ایک لمبی فہرست بھی دی، تاہم، اب تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باعث بی این پی نے عمران خان کی حمایت سے دست برداری کا عندیہ بھی دیا ہے۔ بلوچستان میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ خشک سالی کا مسئلہ بھی موجودرہا، بلکہ اُس نے اس قدر شدّت اختیارکرلی کہ بعض اضلاع میں قحط جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ واضح رہے کہ کوئٹہ سمیت کئی اضلاع میں پینے کے پانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے،ماہرین کے مطابق زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے، اور اگر اس صورت حال پرفوری توجّہ نہ دی گئی تو خدشہ ہے کہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں گے۔اس حوالے سے نومبر میں صوبائی اسمبلی میں تمام جماعتوں نے ایک متفقّہ قرارداد بھی پاس کی، جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ بلوچستان کو ’’آفت زدہ‘‘ صوبہ قرار دے کر ڈیموں کی تعمیرکے لیے خصوصی فنڈز مہیاکیا جائے۔

بہرحال، ملی جلی یادوں کے ساتھ 2018ء کا سورج غروب ہوچکا، اور اب عوام کی امیدیں سال نو 2019ء سے وابستہ ہیں کہ اللہ کرے، یہ سال ان کے لیے امن و ترقی اور خوش حالی کی نوید لائے۔ سی پیک اور گوادربندرگاہ کے حوالے سے بلوچستان کے عوام صوبے کے معاشی مسائل کے حل اور ترقی و خوش حالی کے منتظر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے کیاحکمتِ عملی وضع کرتی اور کس حد تک کام یابیاں حاصل کرتی ہیں۔ 

تازہ ترین