کراچی(جنگ نیوز) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے تسلیم کیاہے کہ ایکسچینج کمپنیاںملک میں پبلک اور ملک کو فارن ایکسچینج فراہم کرنے میں بڑا اہم رول ادا کررہی ہیں، جو ایکسچینج کمپنیاں ملک کے لئے قانونی طو ر پرکام کررہی ہیںانہیں ایف آئی اے سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں ان کے وقار اور کاروبار کااحساس ہے،وزیرخزانہ نے گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ اور ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے بشیرمیمن کو فوری طور پر ہدایات جاری کی کہ وہ کوئی ایسا مکینزم بنائیں تاکہ کسی بھی لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار فاریکس ایسو سی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمد بوستان ودیگر ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران کیا جنہوں نے ان سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن بھی موجود تھے۔وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا ہوا ہے، گزشتہ اجلاس میں ایشیا پیسفک گروپ نے حکومت پاکستان کو اے ایم ایل کے خلاف جو ہدایات جاری کی ہیں ہم اس پر پوری طرح عمل کر کے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوائیں گے۔ قبل ازیںملک محمدبوستان نے وزیرخزانہ کو بتایا کہ گزشتہ 2 ہفتوں سے ایف آئی اے کی ٹیمیں مختلف ایکسچینج کمپنیوں کی سرپرائز چیکنگ کر رہی ہیں، ہمیں اس پر قطعاََ کوئی اعتراض نہیں ہے،تاہم گزشتہ 2 سال میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی وردیوں میں ڈاکو کئی ایکسچینج کمپنیوں سے کروڑوں روپے لوٹ چکے ہیں لہذا ایسے کسی بھی حادثے سے بچنے کے لئے ہماری درخواست ہے کہ ایف آئی اے کی سرپرائز چیکنگ کے لئے ایک ایسا مکینزم ہونا چاہئے کہ جب بھی ایف آئی اے کی کوئی ٹیم کسی بھی ایکسچینج کمپنی کی چیکنگ کرنا چاہتی ہے تو انکے ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کوئی بھی ایک آفیشل لازمی ہونا چاہئے اور اس چیکنگ کی باقاعدہ مکمل ویڈیو بننی چاہئے تاکہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہم ویڈیو کیمرہ فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں اگر پوری چیکنگ کی ویڈیو بن رہی ہوگی تو اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو آپ خود دیکھ کر ایکشن لے سکتے ہیں۔انہوں نے وزیر خزانہ سے درخواست کی کہ آپ ایف آئی اے آفیشلز کو ہدایت جاری کریں کہ وہ کسی بھی ایکسچینج کمپنی میں سرپرائز چیکنگ کرنے جائیں تو عزت و احترام کے ساتھ چیکنگ کریں۔ ہم ان کے ساتھ مکمل تعاون کرینگے۔جو ایکسچینج کمپنیاں قانونی طور پر ایس بی پی کے رولز اینڈ ریگولیشن کے مطابق اپنا بزنس کر رہی ہیںاور ملک میں ڈالر لیکر آرہی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ملک بوستان نے کہا کہ حکومت کے ہنڈی حوالہ آپریٹرز،غیرقانونی منی چینجرز اور فارن کرنسی اسمگلرز کے خلاف آپریشن کی ہم بھرپور حما یت کرتے ہیں،یہ لوگ پاکستان کی معیشت کا ناسور ہیں ان کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے کیونکہ بد عنوان افراد کرپشن کا پیسہ ان کے ذریعے بیرون ملک بھیجتے ہیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کا فرض ہے،ملک بوستان نے وزیر خزانہ کو تجویز پیش کی کہ ایئر پورٹ ، بارڈر یا ڈرائی پورٹ پر جو بھی ایجنسی غیرقانونی اسمگلرز سے جتنی مالیت کی فارن کرنسی پکڑے اسکا 50فیصد پکڑنے والی ایجنسی کو بطور انعام دیا جائے۔ایکسچینج کمپنیوں نے سال 2010سے 2018 تک حکومت پاکستان کو 13بلین ڈالر انٹر بینک میں کمر شل بینکوں کے ذریعے فراہم کئے اس کے علاوہ ایکسچینج کمپنیاں حج ، عمرہ ، ٹریولنگ، علاج ،تعلیم، پبلک ، تمام گورنمنٹ او ر سول اداروں کو فارن ایکسچینج فراہم کرتی ہیں۔اس وقت جو1کروڑ پاکستانی بیرون ملک کام کررہے ہیںاور ہر سال تقریباََ 20بلین ڈالر کی ورکر ریمیٹینس کمرشل بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوںکے ذریعے پاکستان بھیجتے ہیں،ان کی فیملیز ایکسچینج کمپنیوںکے کائونٹر سے آکر اپنی رقم وصول کرتی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ایکسچینج کمپنیاں ماہانہ 200؍سے 300؍ملین ڈالر حکومت پاکستان کو انٹر بینک میں کمرشل بینکوں کے ذریعے فراہم کرتی ہیں، حکومت جس طرح کمرشل بینکوں کو ان ورڈ ڈالر لانے پر 6؍روپے فی ڈالر ریبیٹ ادا کرتی ہے اسی طرح ایکسچینج کمپنیوں کو اگر 2؍روپے فی ڈالر ادا کرے تو ایکسچینج کمپنیاں 500؍سے 700؍ملین ڈالر ماہانہ فراہم کر سکتی ہیں، موجودہ حکوت کو بھی ایکسچینج کمپنیوں نے اگست 2018ء سےنومبر 2018ء تک 1؍ارب ڈالر فراہم کیے ہیں جو پاکستان کے ریزرو بڑھا نے، پاکستانی روپیہ اور معیشت کو مضبوط کرنے میں بڑا اہم رول ادا کر رہی ہیں۔اس موقع پر بشیر میمن نے کہا کہ ہم قانونی طور پر فارن ایکسچینج کا بزنس کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کر ینگے۔ہم غیرقانونی منی چینجرز کو ہنڈی حوالہ آپریٹرز اور کرنسی اسمگل کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینگے اور ملک سے اس ناسور کو ختم کر کے دم لینگے۔ انہوں نے کہا کہ فاریکس ایسوسی ایشن ہمیں اپنی طرف سے مکینزم بنا کر لیٹر لکھے تاکہ ہم تمام صوبوں کے ایف آئی اے ڈائریکٹر زکو ہدایت جاری کریں کہ وہ کوئی ایسا قابل قبول مکینزم بنائیں جس سے قانونی طور پر ملک کے لئے کام کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کواپنا کاروبار کرنے میں کوئی دشواری کا سا منا نہ کرنا پڑے۔