ہمارے پڑوس میں ایک بچی کام کرتی تھی اس کی عمر بمشکل تیرہ یا چودہ سال ہو گی۔ وہی کچی عمر جسے ہم Tender Ageکہتے ہیں اور ہمارے پرانے قصہ گو اور شاعر جس کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے تھے کہ
برس پندرہ یا کہ چودہ کا سن
جوانی کی راتیں، مرادوں کے دن
لیکن ان مرادوں بھرے دنوں میں، وہ اپنے ماں باپ سے دور اس گھر میں چوبیس گھنٹے کی ملازمہ ہے۔ گھر کے مکین یقیناً اس سے اچھا برتاؤ کرتے ہوں گے، جب ہی تو اس کی آنکھوں میں دیوں کی سی جوت ہے اور چہرے پر بے اختیار نمودار ہونے والی مسکراہٹ میں ایک اچھوتی سی دل میں کھبنے والی کشش ہے۔ اسے دیکھ کر میں اکثر سوچتی ہوں کہ یہ بچی اگر مجھے اتنی پیاری لگتی ہے تو اس کی ماں کے لئے اس کا وجود کیا معنی رکھتا ہو گا …؟ اور خود سے اسے دور کرنے میں جانے وہ کتنے عذابوں سے گزری ہو گی…؟
خیر ہمارا روایتی معاشرہ تو یوں بھی نوجوان اور غریب بچیوں کے لئے کوئی سکھ کی سیج نہیں سجاتا۔ کبھی وٹے سٹے میں اور کبھی لین دین کے چکر میں انہیں کسی بڑی عمر کے مرد سے بیاہ کر ان کا کام تمام کر دیا ہے لیکن اب بچیوں کے بڑھتے ہوئے شعور ،کچھ کرنے ،کچھ سیکھنے اور کچھ بننے کی تمنا کو دیکھتے ہوئے یہ رسک بھی نہیں لیا جاتا کہ وہ زندہ ہی رہیں۔ سبھی ملالہ کی شکل میں سر پر گولی مار کر زندگی کی امنگوں اور آرزوؤں کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی فرزانہ کے سر کا نشانہ لے کر اس کی زندگی کا چراغ گُل کر دیا جاتا ہے۔ پولیو ٹیم میں شامل ہونے والی پشاور کی چودہ سالہ فرزانہ وہ باہمت بچی تھی جس نے شاید گھر والوں کی خاطر یا اپنی زندگی کو بہتر کرنے کی سوچ میں گھر سے باہر قدم نکالا تھا اس جرأت کی سزا اسے فوراً ہی بھگتنا پڑی۔
ملالہ کے لئے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ہی سزا بن گئی تھی اور فرزانہ کی ہمت اور حوصلہ ہی اس کی جان کادشمن ہو گیا ۔ تعلیم اور شعور کی خواہش کرنے والے تو مجرم ٹھہرے کہ بہرحال وہ ایک خاص ذہنی سوچ کے لئے بڑا چیلنج ہیں لیکن بہتر صحت اور بہتر زندگی کی تدبیر کرنے والوں سے کچھ لوگوں کو کیا خطرہ ہے؟شاید وہ خود ذہنی اور جسمانی طور پر معذور لوگ ہیں اس لئے دوسروں کی بہتری اور صحت مند زندگی کی تدبیریں انہیں سیخ پا کر دیتی ہیں۔ جب ہی تو ہر جگہ پولیو کے خلاف مہم میں حصہ لینے والوں کو بندوق کی نوک پر رکھ لیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس سوچ کا بظاہر کوئی جواز نہیں، سوائے احساس کمتری کے جو ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی پیداوار ہے۔بہرحال یہاں میرا مقصد اس بحث میں الجھنا نہیں بلکہ پولیو مہم میں جان سے گزرنے والی خواتین اور خصوصی طور پر فرزانہ کے والدین اور باقی گھر والوں سے اظہار افسوس بلکہ اظہار شرمندگی ہے کہ ہم انہیں بچانے کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ حکومت وقت نے بھی اپنی اسی کمزوری اور بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے شہید ہونے والی خواتین اور فرزانہ کے پسماندگان کے لئے کچھ مالی معاوضے کا اعلان تو کیا ہے لیکن مالی معاوضہ کسی جان کا بدل نہیں ہو سکتا۔ہاں غربت کے کچھ دنوں کو آسان ضرور کر سکتا ہے لیکن فرزانہ دوسری شہید بچیوں کے لئے خصوصی طور پر مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ان کی ہمت کو سراہنے اور سلام پیش کرنے کے لئے کسی اعزاز کا اعلان ہونا چاہئے جو اور کچھ نہیں تو ماں باپ کے دل کو شاید کچھ تسکین ہی دے سکے اور دوسری بچیوں کے حوصلے کو پست ہونے سے بچا سکے۔ملالہ نے اپنی ہمت اور سوچ کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ خدا اسے مکمل طور پر صحت یاب کرے لیکن اسے اپنے ملک اور پوری دنیا میں ملنے والی پذیرائی نے اس کی ہم عمر دوسری بچیوں کے حوصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور لوگ چاہے جتنے بھی کانٹے ان کی راہ میں بچھائیں، معصوم بچیاں لہو لہان ہو کربھی بہتر اور باشعور زندگی کے خواب دیکھتی ہی رہیں گی۔ فرزانہ بھی اسی کچی عمر کی ایک حوصلہ مند بچی تھی جس نے اس لہولہان معاشرے میں اپنی ہمت کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی تھی اس کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جانی چاہئے۔ ہمیں اس کی ہمت اور جرأت کو ضرور خراج تحسین پیش کرنا چاہئے تاکہ اس شمع کی لو بجھنے نہ پائے۔یہ شمع اور امید کی وہ لو ہے جو ہماری پڑوس میں کام کرنے والی بچی کی آنکھوں میں جھلملاتی ہے۔ اسے ایک انجانے مستقبل کا حسین تصور کہہ لیں یا اس مخصوص عمر کی فطری خوشی۔ جب زندگی اپنی تمام تر بدصورتیوں اور تکلیفوں کے باوجود ایک سہانا خواب لگتی ہے۔ مائیں اپنی اس عمر کی بچیوں کو نظر بھر کر نہیں دیکھتیں۔ مباداً خود ان کی اپنی ہی نظر انہیں نہ لگ جائے۔ لیکن زمانے کی ظالم نظروں سے بچانا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا اس میں کچھ فرض ہمارا بھی بنتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو کم از کم ان کی ہمت کو داد تو ملنا ہی چاہئے۔