• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب مسلم لیگ (ن) نے 2013 ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو ہمارے ملک کو بجلی اور گیس کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کو یقین تھا کہ اُنہیں انتخابات میں کامیابی میاں نواز شریف کی عوامی مقبولیت اور شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں، جو اُنہوں نے گزشتہ پانچ سال کے دوران پنجاب میںکئے تھے، کی وجہ سے ملی ہے۔ لیکن اگر اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے مرکزی وعدے، ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانا، کی پاسداری نہ کی تو اُن کا اگلے انتخابات میں کوئی چانس نہیں ہوگا۔ چنانچہ روز ِاول سے ہی مسلم لیگ (ن) نے پاور پلانٹس لگانے کا کام شروع کردیا۔ جب مسلم لیگ(ن) حکومت نے اپنی آئینی مدت کا آغاز کیا تو ملک کو سات ہزار میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا۔ مزید یہ کہ کئی ایک پاور پلانٹس کی فعال زندگی ختم ہوچکی تھی، اور وہ فرنس آئل اور ڈیزل پر چلتے ہوئے وسائل ضائع کررہے تھے۔ اُن سے بجلی کی مطلوبہ مقدار پیدا نہیں ہورہی تھی۔ اُس وقت تیل کی قیمت 100ڈالر فی بیرل تھی، جبکہ ایل این جی تیل کی قیمت کا اٹھارہ فیصد تھی۔ چنانچہ معاشی طورپر کم لاگت سے بجلی پیدا کرنے کیلئے واحد ایندھن کوئلہ ہی تھا، خاص طور پر تھر کا کوئلہ۔ لیکن چونکہ تھر کا کوئلہ نکالنے کا عمل شروع کرنے کے لئےچار سال کا عرصہ درکار تھااورپاور پلانٹس، اگر اُن پر بھی بیک وقت کام شروع کردیا جاتا، کی تنصیب مزید ایک سال لے جاتی، اسلئے مسلم لیگ (ن) حکومت نے فیصلہ کیا کہ پہلے کچھ پلانٹس کو درآمد شدہ کوئلے پر چلایا جائے، اور پھر بتدریج مقامی کوئلے سے استفادہ کیا جائے۔ جب حکومت نے یہ کام شروع کیا تو توانائی کے شعبے میں خو ش قسمتی سے دو اچھی چیزیں ہوئیں۔ پہلی، تیل کی قیمت نیچے چلی گئی، اور دوسری ایل این جی کی قیمت تیل کی قیمت کے اٹھارہ فیصد سے چودہ فیصد پر آگئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس (جنہیں درآمد شدہ ایل این جی پر منتقل کیا گیا)کی لاگت کوئلے کے مساوی ہوچکی تھی۔ اس پیش رفت نے حکومت کو اپنی حکمت ِعملی تبدیل کرنے اور مزید ایل این جی پلانٹس لگانے کا موقع فراہم کردیا۔ حکومت نے ایل این جی سے چلنے والے تین پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں ہر ایک بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتا تھا۔ یہ پاور پلانٹس حکومت نے اپنی رقم سے لگائے(دووفاقی حکومت نے اور ایک پنجاب حکومت نے )۔ سی پیک منصوبے کے تحت درآمد شدہ کوئلے سے چلنے والے مزید دو پلانٹس لگائے گئے، جن میں ہر ایک کی پیداواری صلاحیت 1320 میگا واٹ تھی۔ اس کے علاوہ حکومت نے نیلم جہلم منصوبے کومکمل کرنے اور تربیلا ڈیم کے پاور پلانٹ میں چوتھی توسیع کا بھی فیصلہ کیا۔ منصوبے اپنی تکمیل کی طرف بڑھنے لگے، یہاں تک کہ پاکستان کی تاریخ میں وہ دن بھی آیا جب نومبر 2017 ء کو حکومت نے اعلان کیا کہ ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیا گیا ہے،تاہم ہم نے اُن علاقوں میں لوڈ شیڈنگ ضرور کی جہاں بجلی کے بلوں کی وصولی پچاس فیصد سے کم ہوتی تھی۔آج جنوری کے وسط میں، جبکہ موسم ِ سرما ہے اوربجلی کی طلب انتہائی کم ہے، ملک کو شدید لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیران نہیں ہونا چاہئے کہ توانائی کا موجودہ بحران موجودہ حکومت کی ناقص مینجمنٹ کی وجہ سے ہے۔

موجودہ حکومت نے ایل این جی کی طلب کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے اس کی مزید سپلائی کا آرڈر روک دیا، حالانکہ دو ٹرمینلز کے ساتھ یومیہ 1.2 بلین کیوبک فٹ ایل این جی کو گیس میں تبدیل کرنے کا کنٹریکٹ ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں لگائے جانے والے دنیا کے تین انتہائی ایفی شینٹ پاورپلانٹس اپنی استعداد سے نصف پر چل رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) حکومت کے دوران لگائے جانے والے یہ پاور پلانٹس گیس کی 61 فیصد توانائی کو بجلی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اورسے سات سینٹ فی کلوواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ چار ایفی شینٹ پاور پلانٹس مشرف دور میں پنجاب میںلگائے گئے تھے۔یہ گیس کی 45 فیصد توانائی کو بجلی میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ چاروں پاور پلانٹس اس وقت بند پڑے ہیں۔ اس طرح سردیوں میں گیس کی موجودہ کمی کی ذمہ داری پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی ہے کہ اس نے اس مناسب مقدار میں ایل این جی درآمد نہیں کی۔ بدقسمتی سے فرنس آئل سے چلنے والے زیادہ تر پاور پلانٹس ملک کے درمیانی علاقوں میں ہیں۔ سردمیوں میں دھند کی وجہ سے ٹرانسمیشن لائنز ٹرپ ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بجلی کی سپلائی میں تعطل آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت لاہور اور فیصل آباد بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کررہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے تعمیر کردہ این ایل جی پاور پلانٹس شمالی وسطی علاقوں میں تھے۔ ان سے ٹرانسمیشن کا بوجھ کم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اگر آج وہ اپنی پوری گنجائش کے مطابق چل رہے ہوتے تو لائنز ٹرپ ہونے کے باوجود برقی رو میں کوئی خاص تعطل واقع نہ ہوتا۔ 

موجودہ مسئلے سے نکلنے کیلئے حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مناسب مقدار میں ایل این جی درآمد کرے اور ایفی شینٹ پاور پلانٹس چلائے۔ اس گیس کا کچھ حصہ گھریلو صارفین کو بھی فراہم کیا جائے۔ حکومت اس خسارے کو گرمیوں میں، جبکہ گیس کی طلب کم ہوتی ہے، گیس کو ایل این جی میں تبدیل کرکے پورا کرسکتی ہے۔ اس معاملے کو سمجھنے کیلئے سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی یہ کوئی راکٹ سائنس ہےتاہم بجلی اور گیس کی طلب اور رسد کو مینج کرنا ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس صورت ِحال سے سبق سیکھ کر پی ٹی آئی اگلے موسمِ گرما اور پھر اگلے موسمِ سرما میں موجودہ غلطیاں نہیں دہرائے گی۔

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین