• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیس بحران، ذمہ دار پچھلی حکومت ہے، غلام سرور، تحقیقات کیلئے JIT بنائی جائے، شاہد خاقان

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہاہے کہ گیس بحران کی ذمہ دار پچھلی حکومت ہے ، کہیں مس مینجمنٹ یا بیڈ گورننس ہو تو ایکشن لینا حکومت کا حق بنتا ہے،سابق وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ کسی اور پر نہیں ڈال سکتی ہے،گیس بحران پر تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنائی جائے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ گیس بحران کی ذمہ دار سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس کمپنی ہے اس لئے دونوں کمپنیوں کے سربراہوں کے ہٹادیا گیا ہے،حکومت نے سسٹم میں خامیوں کا ادراک کرنے اور اپنی ناکامی ماننے کے بجائے کیا ان دونوں کو بکرا بنادیا ہے، حکومت کو پہلی بڑی آزمائش کا سامنا ہے کہیں گیس کی فراہمی معطل ہے تو کہیں گیس پریشر میں کمی کی شکایات ہیں۔وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان نے کہا کہ حالیہ گیس بحران کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں مس مینجمنٹ یا بیڈ گورننس ہو تو ایکشن لینا حکومت کا حق بنتا ہے، وفاقی وزیر پٹرولیم بھی عائد ہوتی ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس کمپنی سمیت ٹرمینل کمپنیوں میں لوگ پچھلی حکومت کے مقرر کردہ ہیں، یہ سب لوگ ہمیں اس نظام کے ساتھ ورثے میں ملے ہیں، گیس درآمد کرنے کیلئے تین ماہ پہلے ڈیمانڈ دینا ہوتی ہے، پچھلی حکومتوں میں بھی گیس کیلئے حتمی ڈیمانڈ نہیں ہوتی تھی، حکومت کوئی بھی ہو حتمی ڈیمانڈ دینا کمپنیوں کی ذمہ داری بنتی تھی ،پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے صرف چار ماہ ہوئے ہیں، ہم سے چار ماہ کی خرابی سے متعلق ہی پوچھا جاسکتا ہے۔ غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے آتے ہی نیا میرٹ آرڈر ترتیب دیا، میرٹ آرڈر میں ہائیڈرو، سولر، ونڈ اور اٹامک انرجی کو پہلے رکھا گیا،اس کے بعد ایل این جی، کوئلہ اور فرنس آئل آتے ہیں، نئے میرٹ آرڈر کی وجہ سے دونوں کمپنیاں ایل این جی کی حتمی ڈیمانڈ نہیں دے سکیں،یہاں سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کمپنیوں کے ایم ڈیز کی غفلت، مس مینجمنٹ اور بیڈ گورننس تھی، سوئی سدرن کے کمپریسر خراب ہوئے لیکن ایم ڈی ہمیں اطلاع نہیں دی نہ ہی گیس کی ڈیمانڈ اور سپلائی سے متعلق ہمیں بروقت آگاہ کیا۔غلام سرور خان نے کہا کہ انکوائری کے نتیجے میں دونوں کمپنیوں کے ایم ڈیز کی مس مینجمنٹ اور بیڈ گورننس ثابت ہوئی جس کے بعد ان کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، ان پر حکومت کو بروقت آگاہ نہ کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی، پہلے چیئرمین اوگرا اور پھر سیکرٹری پٹرولیم کی سربراہی میں اس کی انکوائری کی گئی ، دونوں انکوائریوں کا نتیجہ تقریباً ایک ہی تھا جس کی بنیاد پر وزیراعظم نے فیصلہ کیا، کہیں مس مینجمنٹ یا بیڈ گورننس ہو تو ایکشن لینا حکومت کا حق بنتا ہے۔ وزیر پٹرولیم غلام سرور نے کہا کہ ہم پر دوسروں کا ملبہ آن گرا ہے ہم چیزیں ٹھیک کررہے ہیں، عوام اور انڈسٹری جس پرابلم سے گزرے اس میں ہر آنے والے دن میں بہتری آئے گی، یہ معلومات غلط ہیں کہ نومبر میں فرنس آئل کے پاور پلانٹ چلنا شروع ہوگئے تھے، نومبر میں ہمارے پاس ہائیڈرو پاور کا استعمال زیادہ تھا باقی شارٹ فال ایل این جی سے پورا کیا، پاور سیکٹرز کو بٹھا کر ان سے حتمی ڈیمانڈ لے رہے ہیں یہ پچھلے لوگوں کی ذمہ داری تھی، اب ہم نے حتمی ڈیمانڈ لے لی ہے جس کا آرڈر دیں گے، پچھلے لوگوں کی گندگی ہم صاف کررہے ہیں، ہم نے اب ٹھوس اقدامات لے لیے ہیں آئندہ بدنظمی نہیں ہوگی۔ غلام سرور کا کہنا تھا کہ ہم خود کو جوابدہ ٹھہرائیں گے لیکن دو ٹرمینلز کے معاہدے کرنے والوں سے بھی پوچھا جائے، ٹرمینل ٹو مینٹی نینس پر ہے کیا یہ پچھلی حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی، جن لوگوں کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور نااہلیوں کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف اور حکومت کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑرہا ہے آپ ان کا دفاع کررہے ہیں، دس تاریخ سے تین پاور اسٹیشن فنکشنل ہوجائیں گے، پاور سیکٹر اور پٹرولیم سیکٹر سے آہستہ آہستہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہے لیکن ٹرمینل ٹو کی مینٹی نینس کی وجہ سے ایل این جی کی سپلائی رکی ہوئی ہے۔ غلام سرور نے کہا کہ گیس بحران کے وقت فرنس آئل کی نسبت ایل این جی سستی تھی، یہی وجہ تھی کہ پاور سیکٹر نے فرنس آئل اٹھانے سے انکار کردیا،اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ ایل این جی کی نسبت فرنس آئل مہنگا ہے، یہ تکالیف وقتی ہیں آئندہ والی سردیاں بہتر ہوں گی، میں بھی گیس بحران کا شکار ہورہا ہوں، میں نے سی این جی پمپ آج نہیں لگائے بیس سال پہلے کے لگے ہوئے ہیں، اگر باقی لوگوں کیلئے سی این جی بند ہے تو میری سی این جی بھی بند ہے۔ سابق وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ملبہ کسی اور پر نہیں ڈال سکتی ہے، گیس بحران حکومت کی ناکامی ہے ، گیس کی کمی سے سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کے ایم ڈیز کا تعلق نہیں ہے، سوئی سدرن اور ناردرن کے ایم ڈیز ان کمپنیوں کے ملازم ہیں باہر سے نہیں لائے گئے،یہ قابل اور اچھے لوگ ہیں جو کام کرتے رہے ہیں، حکومت کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستان پاور جنریشن میں ایک ارب روپے روز انہ زیادہ خرچ کررہا ہے، معیشت کے نقصان اور عوام کی زندگی مشکل ہونے کا کوئی تخمینہ نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کوئی ٹرمینل نہیں بلکہ دو گیس فیلڈز مینٹی نینس کیلئے گئی ہیں، یہ دونوں گیس فیلڈز ایم ڈیز نہیں حکومت کنٹرول کرتی ہے، وزیرپٹرولیم اور وزیراعظم شروع دن سے ایل این جی کو گالیاں دیتے رہے،یہ کہتے رہے کہ ملک کو ایل این جی کی ضرورت نہیں اب انہیں احساس ہوا کہ ملک ایل این جی کے بغیر نہیں چل سکتا ہے، یہ جس دن سے آئے مجھے گالیاں نکالتے رہے ،آج اپنی غلطی کا خمیازہ ایم ڈیز پر ڈال کر علیحدہ ہونا چاہتے ہیں، گیس بحران کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی جائے ، یہ معاملہ نیب کے حوالے کیا جائے تاکہ ملک کو سیکڑوں ارب روپے کے نقصان کے ذمہ داروں کا تعین ہوسکے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیرپٹرولیم نئے آئے ہیں انہیں علم نہیں ہر سال ستمبر میں ڈیمانڈ کیلئے پلان بنایا جاتا ہے، وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں بات ختم ہوجائے گی، دوسروں پر الزام لگانا اور ایم ڈیز کو نکالنا ناانصافی ہے، ملک کا سیکڑوں ارب کا نقصان ہوچکا اس کا ذمہ دار کون ہے۔ نمائندہ دی نیوز سینئر رپورٹر خالد مصطفیٰ نے کہا کہ گیس بحران کے ذمہ دار تمام اسٹیک ہولڈرز ہیں، اس کی زیادہ ذمہ داری پاور ڈویژن پر عائد ہوتی ہے، پاور سیکٹر سب سے زیادہ ایل این جی استعمال کرتا ہے، پاور سیکٹر وقت پر ڈیمانڈ نہیں دے گا اور وقت پر ایس این جی پی ایل کو ریکوری نہیں کر کے دے گا تو وہ کیا کرے گی، ایسی صورت میں ایس این جی پی ایل ایل این جی کے کارگو کو divert کروادیتی ہے، ایل این جی سیکٹر میں 35 بلین کا گردشی قرضہ ہوچکا ہے، یہ پاکستان کی معیشت میں بلیک ہول ہے۔ خالد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ایس این جی پی ایل کے ایم ڈی کو آن ٹائم پر ڈیمانڈ بتائی جاتی ہے جب ایل این جی درآمد کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، پاور ڈویژن کو تین سے چار ماہ قبل ڈیمانڈ بتادینی چاہئے تاکہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ وقت پر سپلائی دے سکے، بعض اوقات ایل این جی امپورٹ کرلی جاتی ہے لیکن پاور سیکٹر ایل این جی کا استعمال کم کردیتا ہے جس کی وجہ سے سوئی ناردرن کو پریشانی ہوتی ہے۔

تازہ ترین