پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا ایم ڈی
ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر عام ہے کہ بلڈ پریشر کاتعلق صرف دِل ہی سے ہے، لیکن یہ صرف دِل تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ تقریباً ہر بڑےعضومثلاً جگر، پھیپھڑوں اورگُردوں وغیرہ کا بھی اپنا بلڈ پریشر ہوتا ہے، جسے اسی عضو کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ دِل، دماغ اور پھیپھڑوں کو زندگی کی تکون کہا جاتا ہے اور چوتھا ستون اب جگر بنتا جارہا ہے۔عین ممکن ہے کہ اس کے بعد گُردوں کا نمبر آجائے۔تاہم،ان تمام اجزاء کا بلڈ پریشر اُس وقت اہمیت اختیار کرتا ہے، جب اُن میں کسی خرابی کے باعث خون کا دباؤ بڑھ جانے سےان کے افعال میںگڑبڑ واقع ہوجائے،بصورتِ دیگر اس کی اہمیت نہیں ہوتی۔ دراصل ان اعضاء میں دائمی خرابی کے باعث ریشے پیدا ہوجاتے ہیں، جو خون کا دباؤ بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ایسا ہی کچھ معاملہ جگر کا بھی ہے۔طبّی اصطلاح میںجگر کا بلڈ پریشر PORTAL HYPERTENSION کہلاتا ہے۔ بنیادی طور پر جگر، جسم کے لیےایک فوڈ فیکٹری یا گودام کی مانند ہے، جہاں غذا کو ترتیب دے کر اس قابل بنادیا جاتا ہے کہ وہ جسم کے لیے مفید ثابت ہو۔ جگر یہ کام تواتر کے ساتھ کرتا ہے،خصوصاًرات کو جب ہم گہری نیند سوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ پروٹین اور کولیسٹرول کی تیاری کے لیےجگر رات ہی کو زیادہ کام کرتا ہے،اسی لیے معالجین کولیسٹرول کی ادویہ کا استعمال رات ہی کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ پروٹین جسم کے خلیوں اور ہارمونز کی بنیادی ضرورت ہے،تو چربی اور نشاستہ بھی انرجی یا فیول کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ پانی کسی بھی کیمیائی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ نمکیات اور وٹامنز اس پورے عمل کو نہ صرف تیز کرتے ہیں،بلکہ ان کے مابین ایک توازن بھی برقرا رکھتے ہیں۔
عموماً جگر کے کم و بیش تمام دائمی امراض آخری اسٹیج میں ایک ہی علامت سے دوچار ہوتے ہیں، جو سوزشِ جگر ہے۔جگر کے کسی بھی دائمی مرض میں اس کے خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوجاتے ہیں اور اُن کی جگہ ریشے بنتےہیں۔ اس کی واضح اور آسان مثال شہد کی مکھی کا چھتّا ہے،جس میں ترتیب سے باریک باریک سوراخ ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جگر کے بھی خلیے ہوتے ہیں، جب یہ کثیر تعداد میں ٹوٹتے ہیں، تو اُن میں رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ جگر میں شریانوں اور وریدوںکے علاوہ پت کی نالیاں بھی اسی کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ خردبین کے ذریعے دیکھا جائے، تو یہ خلیے آٹھ دیواری ہوتے ہیں اور اُن کی دیواروں کے درمیان یہ تین اقسام کی نالیاں موجود ہوتی ہیں،جن میںقدرت نے مختلف اقسام کے رنگ بھی بَھر دیئے ہیں، تاکہ دیکھنے والی آنکھ اُسے صحیح طرح سے دیکھ سکے۔
جگرکابلڈ پریشر بڑھنےکےدو بنیادی عوامل ہیں۔ایک اندرونی اور دوسرا بیرونی۔ جگر کی اندر ونی خرابی سوزش کی وجہ سے ہوتی ہےیا پھرخون کی اندرونی یا بیرونی رگیں، جو جگر میں پائی جاتی ہیں، ان میں کسی بھی وجہ سے کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے، تو جگر کے خون کا دبائو بڑھنے لگتا ہے۔دوسرے عوامل میںجگرکی نسوں یا رگوں میں کیڑےپیدا ہونا یا پھر کوئی بیرونی دبائو ہے۔تاہم،ماہرین نے ایک وجہ خون میں لوتھڑے جم جانا بھی قرار دی ہے۔ خون کے یہ لوتھڑے درحقیقت سرطان کے خطرے کی گھنٹی ہیں۔عام طور پرجگر کا بلڈ پریشر بڑھنے کےبیرونی عوامل صرف دس فی صد تک ہی پائےجاتے ہیں، جب کہ اسّی سے نوّے فی صد کیسز میں جگر کابلڈ پریشر، خود اُس ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہیپاٹائٹس بی، سی اور شراب نوشی تینوں جگر کے ازلی دشمن ہیں،جب کہ تمام دائمی عوارض ایک عرصے بعدسوزشِ جگر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ویسے توسوزشِ جگر کا سبب ہیپاٹائٹس اے، بی،سی اور الکحل ہیں،لیکن بعض کیسز میں ہربل اور عام ادویہ، فولاد اور تانبے کا جسم میں رُک جانا وغیرہ بھی وجہ بن جاتے ہیں۔
سوزشِ جگر ایک ایسا عارضہ ہے، جس کی ابتدا جگر کے متوّرم ہونے سے ہوتی ہے اور پھر گٹھلیاں بنتی ہیں،جب کہ آخری مرحلے میں جگرسکڑ جاتا ہے۔ابتدا سے لےکر آخری مرحلے تک مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاًجسم میں نقاہت، کم زوری، سُستی، پیٹ میں پانی بَھرجانا، چہرے پر سُوجن، پیروں پر وَرم، جسم پر باریک باریک، خاص طور پر سینے پہ مکڑے کے جالے کی مانند سُرخ دھبّے، معمولی نوعیت کا یرقان اور پیٹ پر نَسوں کا نمایاں ہونا وغیرہ شامل ہیں۔نیز، جگر جسم سے فاسد مادّے خارج کرنے کےبھی قابل نہیں رہتا اور اگر یہ مادّےخارج نہ ہوں،تو جسم پر مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں، خصوصاً جب امونیا دماغ کو متاثر کرتی ہے،تو وہ اپنے افعال صحیح طور پر انجام نہیں دے پاتا، نتیجتاً مریض الٹی سیدھی حرکات کرتا ہےیا پھر دِن میں نیندآنے، رات کو جاگنے، نام، مقام اور چیزیں بھول جانے، غنودگی طاری رہنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جن سے مریضوں کے اہلِ خانہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید اُن پر جن بھوت کا سایہ ہوگیا ہے۔بعض اوقات مریض کو بے ہوشی کے دورے بھی پڑتے ہیں، جن سے ہوش میں لانا مشکل ہوجاتا ہے۔
وہ تمام علامات جو سوزشِ جگر میں پائی جاتی ہیں، وہی جگر کے بلڈ پریشر کی بھی ہیں، ماسوائے اُن خون کے نالیوں کے، جن کا تعلق براہِ راست جگر سے ہے اور وہ اس کے دبائو کی زد میں ہوں۔یا پھریو ں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر جگر کا بلڈ پریشر بڑھ جائے، تو اس کے اثرات اُن اعضاء پر بھی ظاہر ہوتے ہیں،جن کا تعلق جگر سے ہو۔ان اعضاء مثلاًمعدے، کھانے کی نالی، تلّی، انتڑیوں اور پاخانہ خارج ہونے کی جگہ کے چاروں اطراف میں جب خون کی نالیاں یا رگیں دباؤ کا شکار ہوں، تو یہ اکثر پھٹ جاتی ہیں،نتیجتاًخون کی قے ہوتی ہےاور اگر الٹی نہ ہو، توخون پاخانے کے ذریعے خارج ہوجاتا ہے۔اس صورت میں پاخانے کی رنگت سیاہ بالکل ڈامر جیسی ہوجاتی ہے۔ مریض سُستی اور شدید کم زوری محسوس کرتا ہے۔نیز، اُٹھنے بیٹھنے میں یا پھر چلتے ہوئے بھی سانس پھولنے لگتی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ مریض کے جسم میں خون کی مقدار انتہائی کم ہوچُکی ہے۔ بعض اوقات تو خون اس قد رخارج ہوتا ہے کہ جان کے لالے تک پڑ جاتے ہیں۔ خون کا دباؤ یک دَم کم ہوجاتا ہے، پسینے آنے لگتے ہیں، سانس اور نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ یہ ایک خطرناک حالت ہے،جس میںاہلِ خانہ کی ذرا سی غفلت اور سُستی مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے،لہٰذا مریض کوفوری طور پر اسپتال لے جائیں، جہاں معالج کی نگرانی میںخون کی بوتلیں لگائی جاسکیں۔نیز،اینڈو اسکوپی کے ذریعے مریض کے معدے کی نالیوں اور خون کی نالیوں کوبھی بند کیا جاتا ہے، تاکہ خون کا رساؤ رُک جائے۔ ایسے موقعے پرمعالج کے لیے ایک جانب مریض کی زندگی، دوسری جانب اہلِ خانہ اور تیسری جانب فوری علاج مثلث کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔چوں کہ علاج سے قبل مریض یا اس کے سرپرست سے اجازت لینی ضروری ہوتی ہے،اگراس وقت لواحقین کی جانب سےعلاج معالجے میں کسی قسم کی رکا وٹ پیش آئے، تو موت یقینی ہے۔
دوسری اہم علامت پاخانے کی جگہ اور اس کے اطراف کی نالیوں میں موجود وریدوں کا پھٹ جانا ہے،جس کے نتیجے میں تازہ خون فوّارے کی مانند بہتا ہے، جو ایمرجینسی کی صورت ہوتی ہے۔ تب معالج کے نزدیک سب سے اہم مریض کی جان بچانا ہوتا ہے۔ تیسری علامت قدرے ہلکی اور عموماً دائمی ہوتی ہے، جو تلّی کی جانب دباؤ ہے۔ خون کادورانیہ/بہاؤ جگر پر دباؤ کے باعث اس کا رُخ تلّی کی جانب موڑ دیتا ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے ایک سڑک اگر ٹریفک کے باعث بند کردی جائے یا ٹریفک کا دباؤ بڑھ جائے، تومتبادل راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔تلّی اس دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے اپنےحجم میں اضافہ کرلیتی ہے ،جو ایک ماہرمعالج باآسانی ہاتھ کے ذریعےچُھو کر محسوس کرسکتاہے ۔واضح رہے کہ تلّی کے حجم میں اضافے کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔
جدید طریقۂ علاج کی بدولت جب جگر خرابی سے دوچار ہوکر خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہو، تو اس سفرکی رفتار کو آہستہ کیا جاسکتا ہے، بلکہ بسا اوقات اُسے اِسی اسٹیج پر روک بھی سکتےہیں ۔اس حوالے سے کئی ادویہ بے حد کام یاب نتائج دے رہی ہیں۔ بصورتِ دیگرجان بچانے کے لیے جگر کی پیوند کاری ناگزیر ہے۔
(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)