MeToo# تحریک کے بعد گزشتہ دو برسوں کے دوران مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات اور برابری کے لیے اُٹھنے والی آوازوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ چاہے وہ عوامی زندگی ہو، سیاست کا میدان ہو، کاروبار ہو یا پھر معیشت کا کوئی بھی شعبہ، مرد اور خواتین ایک ایسی تبدیلی اور ایک ایسی دنیا کے لیے کام کررہے ہیں، جہاں صنفی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر معاشی مواقع پیدا کیے جاسکیں۔
ریاستی حکمتِ عملی (Public Policy)اور سماجی پیش رفت(Social Progress)کا جائزہ لینے کے لیے شہادت یا ثبوت ایک بنیادی جزو ہوتا ہے۔ صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اقدار، تصورات، رویوں، تبدیلی کی رفتار یا اسے حاصل کرنے میں ناکامی اور ایک زیادہ مساوی دنیا تشکیل دینے کے ذرائع یا اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں سماجی معمولات، روزمرہ کے گمان و خیالات، مردوں اور خواتین کے رویوں اور جمود کے مقابلے میں تبدیلی کے بیانیے کو دستاویزی بنانا ہوگا۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم سماجی معمولات کو چیلنج، وقت کے ساتھ تبدیلی کی پیمائش اور خود پر یا اپنے رہنماؤں پر ذمہ داری عائد کرسکیں۔
ویمن پولیٹیکل لیڈرز
ویمن پولیٹیکل لیڈرز (WPL)خواتین سیاسی رہنماؤں کا ایک عالمی فورم ہے۔ فورم کا مقصد سیاسی لیڈرشپ کے عہدوں پر خواتین کی تعداد اور اثرورسوخ کو بڑھانا ہے۔ اس فورم کے تحت کئی کمیونٹیز کام کررہی ہیں، جن میں ویمن اِن پارلیمنٹ (WIP)، ویمن یورپین لیڈرز (WEL)، ویمن گورنمنٹ لیڈرز (WGL)اور ویمن میئرز انٹرنیشنل (WMI)شامل ہیں۔
’ویمن پولیٹیکل لیڈرز‘ گلوبل فورم نے ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی گروپ Kantar Publicکے اشتراک سے The Reykjavik Index for Leadership تشکیل دیا ہے۔ یہ انڈیکس نومبر 2018ء میں ویمن پولیٹیکل لیڈرزکے آئس لینڈ میں ہونے والے عالمی فورم کے موقع پر لانچ کیا گیا تھا، جس کا مقصد خواتین اور مردوں کے مابین مساوات کی پیش رفت پر نظر رکھنا ہے۔ انڈیکس کی افتتاحی رپورٹ میں G-7ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جی سیون ممالک میں لوگ خواتین سیاسی سربراہوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
رپورٹ کیا کہتی ہے؟
ایسے کئی قابلِ قدر اور طاقتور اشاریے موجود ہیں، جو خواتین اور مردوں کے لیے معاشی مساوات میں ہونے والی پیشرفت کی پیمائش کرتے ہیں۔ تاہم اس سے پہلے تک دنیا میں ایسا کوئی انڈیکس تشکیل نہیں دیا گیا تھا، جس کے ذریعے اس بات کی پیمائش کی جاسکتی کہ لوگ خواتین سیاسی رہنماؤں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ Reykjavik Index کی رپورٹ میں پہلی بار ان رویوں اور تصورات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کے ذریعے یہ سمجھنےمیں مدد مل سکتی ہے کہ ہمیں مزید کتنا آگے جانا ہوگا، جہاں پہنچنے کے بعد یہ بحث ختم ہوجائے گی اور تمام شعبہ جات میں ’لیڈرشپ پوزیشنز‘ حاصل کرنے کے لیے صنفی حیثیت بے معنی ہوگی۔
مردوں اور خواتین کے مابین حقیقی مساوات کے لیے ’سربراہی کا حق‘ ایک بنیادی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزید برآں، سربراہی عہدوں پر دونوں صنفوں کے لیے مساوات سے نہ صرف خواتین کے خلاف تعصب ختم ہوگا بلکہ معاشرے میں بعض سربراہی عہدوں پر مردوں کے خلاف تعصب کو بھی دور کیا جاسکے گا۔ اس رپورٹ میں، خواتین اور مرد، دونوں کے خلاف موجود تعصب پر بات کی گئی ہے۔ تاہم زیادہ تعصب لیڈرشپ پوزیشنز پر براجمان خواتین کیخلاف پایا جاتا ہے۔ 100انڈیکس حاصل کرنے کا مقصد یہ ہوگا کہ لوگ اب لیڈرشپ پوزیشنز کیلئے مرد اور خواتین کو مساوی طور پر اہل سمجھتے ہیں۔
جی سیون ممالک میں زمینی حقائق
Reykjavik Index کے نتائج کی روشنی میں، جی سیون ملکوں کو 2 گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے گروہ میں 4ملکوں کو رکھا گیا ہے، جہاں انڈیکس کے نتائج بہتر ہیں جیسے کہ برطانیہ( 72)، فرانس(71)، کینیڈا(71) اور امریکا(70)۔ ان چار ملکوں میں بہتر انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں صنفی مساوات کی طرف پیشرفت ہورہی ہے۔ دوسرے گروہ میں 3ممالک ہیں، جو تبدیلی سے ایک قدم پیچھے ہیں۔ جاپان( 61)، جرمنی( 59) اور اٹلی (57)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جی سیون کے پہلے گروہ میں شامل 4ملکوں کے مقابلے میں دوسرے گروہ میں شامل 3ملکوں کے عوام میں یہ سوچ زیادہ پائی جاتی ہے کہ عمومی طور پر سربراہی عہدوں کیلئے خواتین، مردوں کے برابر نہیں ہیں۔
مردوں اور خواتین کی سوچ میں فرق
تمام جی سیون ملکوں میں Reykjavik Indexپر صنفی مساوات کے حوالے سے بلحاظ مجموعی مردوں( 61) کے مقابلے میں خواتین (67)کی رائے مثبت ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین اس بات کی قائل ہیں کہ سربراہی عہدوں کے لیے خواتین اور مرد برابری کے حقدار اور لائق ہیں۔
مستقبل پر نظر
مستقبل میں اس انڈیکس کو دنیا کے دیگر ملکوں تک پھیلایا جائے گا، تاکہ صنفی مساوات کے لیے عالمی رجحانات اور رویوں کی بہتر دستاویز سازی کی جاسکے۔ پھر جاکریہ اندازہ لگایا جاسکے گا کہ سربراہی عہدوں کے لیے مردوں اور خواتین کو مساوی حیثیت حاصل ہونے کے لیے کتنی تیزی سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہوگی، جو سب کے لیے فائدہ مند ہو۔