ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے مینار پاکستان لاہور پر ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے انتخابی نظام میں اصلاحات کے لئے حکومت کو 10جنوری تک کی ڈیڈ لائن دے دی۔ ڈاکٹر صاحب اس روز خاصی تیاری کر کے آئے تھے ان کا طرز خطاب سیاسی رہنما کی طرح نہیں تھا بلکہ لگتا تھا کہ ایک پروفیسر اپنے طالب علموں کو ایک طویل لیکچر دے رہا ہے۔ اس اجتماع کے بعد جیو نیوز پر میں نے اپنے تبصرے میں بھی کہا کہ ایسے مطالبات کرنا جن سے انتخابات ملتوی کرنے کی راہ ہموار ہوکسی بھی فرد یا پارٹی کو زیب نہیں دیتا۔ تبصرے کے بعد جہاں بہت سے اور ٹیلی فون آئے وہاں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے بھی مجھے فون کیا۔ ٹیلی فون پر انہوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ میں نے ان کے موقف کو درست انداز میں میں نہیں سمجھا، وہ الیکشن کو ملتوی کرنے کے ارادے سے میدان میں نہیں اترے بلکہ ان کا مقصد اس الیکشن کے عمل کو بامعنی بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت ضروری ہے کہ میں ان کے موقف کو ایک بار گہرائی سے سمجھ لوں تو پھر شاید میں ان کی مخالفت نہ کروں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ”آئیے کھانا بھی کھاتے ہیں اور آپ سے بات بھی کرتے ہیں“ ۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ میں ہر وقت سیکھنے اور جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کھانے کے دوران ان کے دونوں صاحبزادے حسن اور حسین قادری بھی موجود تھے۔ گفتگو شروع ہوئی تومیں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ میں اپنے اسی موقف پر قائم ہوں کہ الیکشن کو ملتوی کرنے کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول ہو گی اور الیکشن کے عمل میں فوج اور عدلیہ سے مشاورت کے بارے میں میرے سخت تحفظات ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کا کہنا تھا کہ جس عمل کا مطالبہ وہ حکومت سے کر رہے ہیں اس کوکرنے کے لئے کوئی بہت لمبا عرصہ درکار نہیں ہے۔ ان کے مطابق نظام میں موجود دیگر خرابیوں کو ختم کرنے میں تووقت لگے گا لیکن انتخابی عمل میں جن تبدیلیوں کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں ان کے لئے صرف چند ماہ کا عرصہ ہی درکار ہے ۔گفتگو کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر والے کاغذات بھی منگوا لئے اور ان میں سے ریفرنس دینے لگے۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 62 کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ صرف وہی شخص ممبر پارلیمنٹ بن سکتا ہے جو کہ دانا، قابل، نیک سیرت، ایماندار، امانتدار ہو، جوفضول خرچ، عیاش اورمالی یا اخلاقی طورپر کرپٹ نہ ہو۔ اس کے علاوہ آرٹیکل 63 کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس نے خودیا اس کی اہلیہ نے کوئی حکومتی واجبات چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود جمع نہیں کروائے اسے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے نااہل تصور کیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا سوال تھا کہ کیا ٹیکس کی عدم ادائیگی حکومتی واجبات کی نادہندگی میں نہیں آتی؟ اس موقع پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے پو چھا کہ وہ کیسا انتخابی نظام لاناچاہتے ہیں؟ وہ کونسا ایسا طریقہ کار ہے کہ جس کے ذریعے انتخابی عمل میں تبدیلی چند ماہ کے عرصے میں ممکن بنائی جا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ماضی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی اصلاحات کی تجویز دی تھی مگر اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے آئینی اختیارات کا کھل کر ، بغیر کسی دباؤ کے استعمال نہیں کرتا پاکستان میں انتخابی نتائج وہی ہوں گے جو اس ملک کی اشرافیہ چاہتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کی بنیاد پر پارٹی کو نمائندگی دی جائے اور حلقوں میں افراد کے درمیان مقابلہ نہ ہو۔ ان کی تجویز یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کیلئے اپنے ترجیحی امیدواروں کی لسٹ الیکشن شیڈول کا اعلان ہوتے ہی الیکشن کمیشن کو پیش کر دے۔ الیکشن کمیشن ان کی قابلیت کو آئین کے آرٹیکل62 اور63 کے مطابق جانچ کر صرف ان افراد کو الیکشن کے لئے اہل قرار دے جو کہ آئینی طور پر اہل ہوں کیونکہ یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ و ہ امیدوار جو62 اور63پر پورے نہیں اترتے انہیں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے وقت ہی نا اہل قرار دے دے۔ملک بھر سے پارٹی کو حاصل ہونے والے ووٹوں اور کل ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعد اد کے حساب سے پارٹیوں میں سیٹیں تقسیم کی جائیں گی جن پر پارٹیوں کی جانب سے نامزد کئے گئے افراد ممبر بنیں گے۔میرے اس سوال پر کہ کیونکر کوئی آپ جیسے فرد واحد کے اس مطالبہ کو تسلیم کرے جبکہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں تو اس مرحلے پر ایسی کسی تجویز کی حمایت نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی سوچ ہے۔ میں نے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر انتخابی اصلاحات نافذ کر دیں۔ ان کا جواب تھا کہ اگر آئین میں اس کی رکاوٹ نہیں تو پھر کسی کا اعتراض کیا حیثیت رکھتا ہے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اگر لسٹ سسٹم پر انتخاب کروایا جائے گا تو پاکستان کے آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی زیادہ ووٹوں کی بنیاد پر اکثریت حاصل کرے گی ۔ پھر کیا انتخابی نظام میں تبدیلی سے کوئی خاص فرق پڑے گا اور کیا اس طریقہ کار سے انتہا پسند نظریات رکھنے والے لوگ بھی منتخب نہیں ہو جائیں گے؟ پھرنئے نظام انتخاب کو رائج کرنے کے لئے نئی قانون سازی اور آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی جس کے لئے کافی وقت درکار ہو گا۔ جواب میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ابتداء میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جامع جانچ پڑتال کے بعد اور انتخابی نظام سے الیکٹ ایبلز افراد کی ضرورت ختم ہونے کے باعث پہلے ہی انتخابات میں تیس سے چالیس فیصد اچھے افراد کو اسمبلی میں جانے کا موقع ملے گا ۔ان کی رائے میں یہ انتخابی اصلاحات صدارتی آرڈیننس کے تحت بھی نافذ کی جا سکتی ہیں۔ ان کی نظر میں طریقہ انتخاب بدلنے کے لئے محض ایک ریفرنڈم کی ضرورت ہے جس میں عوام سے نئے نظام کے حق اور مخالفت میں ووٹ کرنے کو کہا جائے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ پاکستان میں ریفرنڈم کی تاریخ اچھی نہیں اور لوگوں کو اس پر اعتماد نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں جھرلو پھیرا جاتا ہے۔ان کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ ریفرنڈم کے لئے وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لینا ہوگی اور آپ کے مطالبے پر پارلیمنٹ ایسا کیوں کرے گی، انہوں نے جواب میں محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔
میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ جمہوریت کے دشمن نہیں ہیں اور انتخابا ت کو سبو تاژ نہیں کرنا چاہتے تو کیا آپ اپنے لاکھوں چاہنے والوں سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ اپنے ووٹوں کے اندراج کے لئے اپنی قومی، آئینی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کریں؟انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے کارکنوں کو اگلے خطاب میں اس بات کی وا ضح ہدایت کریں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وقت کم بھی ہوا تو انتخابات کو آگے کیا جا سکتا ہے۔ میرے لئے یہ بات ناقابل قبول تھی سو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ایسا ممکن نظر نہیں آتا اور اس کی مثال بھی موجود نہیں ہے ۔اس پر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو آواز دے کر کہا کہ فائل لاؤ۔ فائل آئی تو کہنے لگے میں آپ کو ایک چیزدکھانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے ایک کاغذ پڑھنے کو دیا،اس کاغذ پر سندھ اور بلوچستان میں ضمنی انتخابات کوموخر کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے نوٹس میں آئین کے آرٹیکل254 کا حوالہ تھا۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اگر یہ خود آرٹیکل254 کو اس مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو ملک کی سلامتی اور بقا کے لئے اس آرٹیکل کے تحت انتخابات کو کچھ عرصے کے لئے موٴخر بھی کیا جا سکتا ہے۔میں نے کہا مگر اس نوٹیفیکیشن میں انتخاب کی اگلی تاریخ دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ اس آرٹیکل کو استعمال کرتے ہوئے انتخابات کی نئی تاریخ دی جا سکتی ہے۔ افتخار صاحب آپ نے مجھ پر تنقید کی کہ جب میں رکن اسمبلی تھا تو میں نے انتخابی اصلاحات کے لئے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا۔ آپ درست کہتے ہیں مگر اُس نقارخانے میں طوطی کی کوئی نہیں سنتا، وہاں پر سب وہ لوگ اکٹھے ہوئے ہیں جن کو انتخابی نظام میں اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ محض مجھے اس لئے اچھا کام کرنے سے روک نہیں سکتے کہ ماضی میں میں ایسا نہیں کر سکا۔
میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملاقات کے بعد جب واپس گھر آیا تو میں کنفیوژ تھا ۔ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے ان کی باتیں مجھ جیسے پرانے انقلابی کو بہت اچھی لگتی ہیں۔ میں بھی ایک ایسا ہی نظام چاہتا ہوں جہاں جاگیردار اور سرمایہ دار عوام کی نمائندگی کے لئے منتخب نہ ہوں بلکہ پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کی قیادت اسمبلیوں تک پہنچے۔ مگر ان کی ٹائمنگ پر میرے شدید تحفظات ہیں اور میں ماورائے آئین کسی بھی اقدام کی کسی صورت حمایت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی نیا انتخابی نظام آنا ہے تو اس کے لئے آئینی ترمیم ہی درست راستہ ہے ورنہ ماضی میں چار مرتبہ اچھے صاف ستھرے نظام، مثبت اور تعمیری نتائج کی خاطر جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی مگر بدلے میں مزید تباہی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ جمہوری نظام کی لاکھ برائیوں کے باوجود اس کو چلتے رہنے دینا چاہئے۔ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اس کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔میری رائے میں مسلسل انتخابات ہی بالآخر اچھے لوگوں کو آگے لائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے چالیس لاکھ ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی بجائے ، ان کی قیادت کرتے ہوئے انہیں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اپنے ساتھ لے کر چلیں گے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے اپنا کردار جمہوری طریقے سے ادا کریں گے۔