• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اختصاص اور دسترس کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایسے فرد کی تصویر ابھرتی ہے، جسے اپنے شعبے کے سوا کسی بات کا علم نہیں ہوتا، مگر ایسانہیں ہے۔ انسان نے تعلیم کا ارتقائی سفر شروع کیا تو علم و فلسفے کے خدوخال اُبھرے جبکہ کائنات اور خدا اہم مباحثے ٹھہرے۔ جادو کے زیرِ اثر علم نجوم نے جنم لیا اور علم فلکیات کی صورت گری ہوئی۔ زمین پر بحری و بری راستوں سے تاجروں اور سوداگروں کے تجارتی قافلے اور کارواں چلے تونئے خطے دریافت ہوئے ۔ ارضیات و طبیعیات نے کروٹ بدلی اور اپنی کوکھ سے علمِ حیاتیات و نباتات کو پیدا کیا۔ علم طب کا ظہوریونانی و آیور ویدک ادویات اور علاج معالجے کی شکل میں ابھرا۔ یورپ ، ایشیا اور عرب دنیا میں 5ہزار قبل ازمسیح سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ انیسویں صدی نے ایسی جست لگائی کہ یہ پچھلی تمام صدیوں سے آگے چلا گیا۔ علمِ طب،فلکیات،طبیعیات،کیمیا، حیاتیات و نباتات، ارضیات و جغرافیہ جیسے علوم و فنون کی شاخیں نکل آئیں، جہاں سے تعلیم میں اسپیشلائزیشن کا رواج شروع ہوا۔

آج کے دور کو آپ حقیقی معنوں میں اسپیشلائزیشن کے دور سے موسوم کر سکتے ہیں۔ ہمارے اسپیشلائزڈ ڈاکٹرز ہوں یا پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسرزہر طرف ان کی مانگ ہے اور یہ سب اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اسپیشلائزیشن نے امراض کی یقینی تشخیص کو ممکن کر دکھایا ہے۔ ہر ایک مرض کے الگ الگ اسپیشلسٹ کی اس دنیا میں حتمی علاج و معالجے کی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔

سائنس، معاشیات، فنانس، مارکیٹنگ، صحافت، آرٹ، انجینئرنگ وغیرہ، ہر شعبے میں اسپیشلائزیشن کا دور دورہ ہے۔ یہی انتہائے کمال ہے اوریہی جدید دور کا انداز ہے۔ اس وقت ہم اسپیشلائزیشن کے تخلیقی و اختراعی دور میں جی رہے ہیں،جہاں سائنس اور آرٹ دونوں ہی سائنسی سوچ کا پیرہن اوڑھ چکے ہیں۔ میڈیکل سائنس، طبیعیات، کیمیا، حیاتیات، جینیات، ادب،فلکیات، عمرانیات اور تاریخ کے شعبہ جات میں ہر علم اپنی جگہ ایک مکمل سائنس بن چکا ہے۔ کمپیوٹر سائنس میں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر ماہرین کے لیے خاص شعبہ جات موجود ہیں۔ آج کل بگ ڈیٹا، ڈیٹا مائننگ، انٹرنیٹ آف ایوری تھنگ اور مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے۔ اس وقت نیورو سائنس اور جینیات مکمل طور پر اسپیشلائزیشن کے شعبے بن چکے ہیں، جہاں علم کا کلی تعارف ممکن نہیں۔ جدیدمعیشت کے اُتار چڑھاؤ اور عالمی کاروبار کے لیےایم بی اے کی ڈگری میں اسپیشلائزڈ فیلڈ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، جس کا تعلق آپ کی افتادِ طبع سے ہے۔

اسپیشلائزیشن سےکیریئر کا انتخاب

کبھی ہم سوچتے تھے کہ کون سا ہنر اور تعلیم ہمیں روزگار فراہم کرے گی لیکن اب تعلیم بھی سائنسی ہوچکی۔ وہ اتنی ترقی پا چکی ہے کہ کوئی بھی طالب علم اپنے رجحان و میلان، جھکاؤ اور دلچسپی کو دیکھ کر اپنے لیے کیریئر کا انتخاب کرکے اسی شعبے میں دسترس اور عبور حاصل کرکے کمال دکھا سکتے ہیں۔ اب کیریئر کونسلنگ باقاعدہ سائنس بن چکی ہے، جہاں طالب علموں کی دلچسپی دیکھ کر انہیں علوم بتائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کا ذہن سائنسی ہے تو سائنس کے مضامین اور اگر آپ سماجی علوم کے رسیا ہیں توسماجی مضامین۔ یہاں بھی ہر شعبے میں ماہرین کی طلب موجود رہتی ہے، اس لیے علوم و فنون میں اسپیشلائزیشن نے محفوظ کیریئر اور روزگار کو ممکن بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسپیشلائزیشن کو روزگار کا ضامن بھی مانا جاتا ہے اورمزاج کے مطابق ملازمت کا ملنا ایک بڑی نعمت ہے۔

اسپیشلائز کے فوائد

پاکستان میں اسپیشلائز ایجوکیشن کی بات کی جائے تو ہمارے ہاں دو نظام ہائے تعلیم ہیں،مدرسہ اور اسکول، جوکہ اسپیشلائزیشن کی ایک واضح مثال ہے۔ مدرسہ میں بچوں کو بنیادی طور پر دینی تعلیم سے روشناس کرایا جاتا ہے جبکہ اسکول میں عموماً دنیاوی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔

امریکا و برطانیہ سے کسی بھی شعبے میںاسپیشلائزیشن کرنے والے روزگار کی ضمانت پاتے ہیں، جنکی خدمات کا دائرہ پوری دنیا پر محیط ہوتا ہے، وہ جہاں چاہیں روزگار کے مواقع حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی ہر شعبے کے ماہرین کی مانگ ہے۔ پروفیسر بن کر تمام عمر مشعل علم جلائے رکھنے کی سعادت جسے حاصل ہے، وہی جان سکتا ہے۔ ہمارے ٹیک اسٹوڈنٹس بھی اگر اس احساس کو پالیں تو وہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 

تازہ ترین