• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیفین کاسریئل (Stephane Kasriel)دنیا کی سب سے بڑی فری لانس ویب سائٹ ’اَپ ورک‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں، جن کی عمریں 5سے 14سال کے درمیان ہیں۔ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے بچے وہ تعلیمی راستہ اختیار نہیں کریں گے، جس کا انتخاب انھوں نے اپنے لیے کیا تھا۔ ’مجھے یقین ہے کہ وہ خود کو ایک بالکل مختلف جاب مارکیٹ کے لیے تیار کریں گے۔ میرے سب سے چھوٹے بچے نے ابھی کنڈرگارٹن، جبکہ سب سے بڑے نے ہائی اسکول شروع کیا ہے، ایسے میں، میں ان کے لیے کچھ خیالات ضرور رکھتا ہوں‘، وہ کہتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے اثرات مختلف لوگوں پر مختلف ہوتے ہیں، جن کا اندازہ لگانا ابھی باقی ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کو اس وقت پسند کرتے ہیں، جب وہ ہماری روز مرہ کی زندگی کو ہمارے لیے پہلے سے زیادہ آسان اور پُرلطف بناتی ہے لیکن دوسری طرف ہم پریشان بھی ہوتے ہیں۔ ’ایسے میں مستقبل پر نظر رکھنا اور یہ سوچنا ضروری ہے کہ وہ ہمارے لیے کیا تبدیلیاں لے کر آئے گا‘، اسٹیفین اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

مثلاً:گزشتہ سال گیلپ سروے کے مطابق، 10میں سے 8امریکی سمجھتے ہیں کہ آئندہ 10سال کے دوران، مصنوعی ذہانت )(Artificial Intelligence) نوکریوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کے مقابلے میں موجودہ نوکریوں کو ختم کرنے کی وجہ زیادہ بنے گی۔ ’لوگوں کے خدشات کے باوجود، میں سمجھتا ہوں کہ AIکا اثر توقعات، خدشات اور پیشگوئیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوگا، تاہم بہ یک وقت ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اپنی نظریں آنے والے وقت پر رکھیں اور اپنی آنکھیں کھُلی رکھیں‘، وہ کہتے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم(WEF)عالمی معیشتوں کی رہنمائی کرنے اور سماجی شعبوں جیسے تعلیم، صحت، نکاسی آب اور اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs)کے حوالے سے بہت کام کررہا ہے۔ اسٹیفین، ورلڈ اکنامک فورم کی ’ورلڈ گلوبل کونسل آن ایجوکیشن، جَینڈر اینڈ وَرک‘ کے Co-chairبھی رہے ہیں، جہاں انھیں تعلیم، اور آج کی نسل کے مستقبل اور کام کے حوالے سے بہت کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ ان تجربات کو اپنے بچوں کے فائدے میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اسٹیفین کاسریئل اپنے بچوں کو کیا بتاتے ہیں، آئیے ہم بھی جانتے ہیں۔

روبوٹ غالباً سارے کام نہیں کریں گے

اسٹیفین کہتے ہیں کہ جب انھوں نے 2017ء میں ڈیووس کانفرنس میں شرکت کی تو زیادہ تر لوگوں کا AIکے بارے میں تصور ایک ’ٹرمینیٹر‘ کا تھا-ایک ایسا طاقتور روبوٹ جو آپ کا ہر کام کرنے کا اہل ہوگا اور وہ ’روبوٹ انقلاب‘ برپا کردے گا۔ تاہم وہ کہتے ہیں اس کے اگلے سال ہی AIکے لیے’ٹرمینیٹر‘ کی سوچ کی جگہ ’آئرن مین‘نے لے لی تھی۔ ’لوگوں کی سوچ میں تبدیلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہر آئے دن اپنی رائے بدل رہے ہیں: ٹیکنالوجی، انسانوں کی جگہ لے لے گی یا انسانوں کی مدد کو آئے گی اور ان کی طاقت میں اضافہ کرکے جدت کو فروغ دے گی، اس بارے میں لوگ ابھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں‘، وہ کہتے ہیں۔ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو ٹرمینیٹر کے بجائے آئرن مین کے نظریے سے دیکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔ ’ماضی کے ٹیکنالوجیکل انقلابوں نے آٹوموبائل سے لے کر اے ٹی ایم تک، نوکریاں ختم کرنے کے مقابلے میں نوکریوں کے زیادہ مواقع پیدا کیے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عام تاثر کے برعکس، ٹیکنالوجی کو اس مقام پر پہنچنے کے لیے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے‘۔ اس سلسلے میں وہ فرانسیسی کمپیوٹر سائنسدان اور فیس بک میں مصنوعی ذہانت کے سربراہ یان لکان(Yann LeCun)کی کہی ہوئی بات سے اتفاق کرتے ہیں، جو کہتے ہیں، ’مخصوص شعبوں میں مشینوں کی کارکردگی Superhumanوالی ہے، تاہم عمومی ذہانت کے معاملے میں وہ ابھی چوہوں کے قریب بھی نہیں پہنچی‘۔

آپ اپنی بقیہ زندگی اسکول میں گزاریں گے

وجہ؟ کیونکہ روایتی تعلیم جس رفتار سے آپ کو نئے ہنر سیکھا رہی ہے، عملی دنیا اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بدل رہی ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی کی رفتار بے مثال ہے، جس کے نتیجے میں ہر آئے دن پہلے سے زیادہ اسمارٹ مشینیں منظرِ عام پر آرہی ہیں، جس کے لیے انسانوں کو بھی اپنی صلاحیتوں اور ہنر کو بہتر بنانا ہے۔ٹیکنالوجی اور سائنس کے شعبے میں جیسے جیسے نئی ایجادات اور اختراعات سامنے آرہی ہیں، ہمیں بھی نئے ہنر سیکھنے ہونگے۔ ’ورلڈ اکنامک فورم کی تحقیق کے مطابق، آج پرائمری اسکول میں داخل ہونے والے 65فی صد بچوں کو وہ کام کرنے ہونگے، جن کا ابھی وجود ہی نہیں ہے اور جس کےلیے آج کی تعلیم انھیں تیار ہی نہیں کررہی‘۔ ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، ورلڈ اکنامک فورم کا کہنا ہے کہ 2020ء تک مختلف صنعتوں میں کام کرنے کےلیے مطلوب صلاحیتوں اور ہنر میں 35فی صد تبدیلی آجائے گی۔’بدلتے ٹیکنالوجیکل ماحول میں، آج کی نسل کے بچوں کو تعلیم کو زندگی بھر کی جستجو کے طور پر دیکھنا ہوگا‘۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے کسی مرحلے پر کوئی سرٹیفکیشن حاصل کرنے کے لیے آپ کو کمیونٹی کالج میں داخلہ لینا پڑسکتا ہے یا کسی ’میسوِاوپن آن لائن کورس(MOOC)سے ماسٹرز ڈگری حاصل کرنا پڑسکتی ہےیا Udemyجیسے کسی آن لائن لرننگ پلیٹ فارم سے نینو ڈگری حاصل کرنا پڑسکتی ہے یا پھر کیریئر میں مؤثر رہنے کے لیے مختلف مراحل پر تینوں کام کرنے پڑسکتے ہیں۔

آپ خود اپنے باس بن سکتے ہیں

جیسے جیسے دنیا زیادہ ڈیجیٹل بن رہی ہے، یہ جغرافیائی حدود سے بالا ہوتی جارہی ہے۔ UXڈیزائنرز، کاپی رائٹرز یا اینڈرائیڈ ڈیویلپرز کو کام حاصل کرنے کے لیے شہر کے کاروباری مراکز کے درمیان کسی مہنگے دفتر میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اپنا کام کہیں بھی بیٹھ کر کرسکتے ہیں۔ Etsyاور Upwork جیسے لوگوں کو جوڑنے والے نیٹ ورکس انھیں اپنا باس خود بننے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔

سماجی صلاحیتوں پر توجہ دیں

بڑھتی آٹومیشن کے زمانے میں وہ صلاحیتیں اور وہ ہنر سیکھیں جو روبوٹ نہیں کرسکتے۔ پروگرامنگ، ڈیٹا انالیسز، انجینئرنگ اور میتھ جیسے تعلیم تو آپ کو ہر صورت اور یقینی طور پرآنی چاہیے، تاہم ورلڈ اکنامک فورم کی Future of Jobsرپورٹ بتاتی ہے کہ مستقبل میں کامیابی کے لیے صرف تکنیکی صلاحیتیں کافی نہیں ہونگی۔ سماجی صلاحیتوں جیسے کسی کو قائل کرنے کی صلاحیت، جذباتی ذہانت اور دوسروں کو سیکھانے کی صلاحیت کے حامل افراد کی طلب زیادہ ہوگی۔ حرفِ آخر یہ کہ اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی ٹیکنیکل صلاحیتوں کو مضبوط سماجی اور اشتراکی ہنر سے چار چاند لگانے ہونگے۔

مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے

کئی خدشات کے باوجود، کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل کیسا ہوگا۔ کچھ چیزیں جیسے تعلیمی نظام اور اِمیگریشن پالیسیز، ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ مشینیں بھی ہم ہی بناتے ہیں، ہم ہی اسکول بناتے ہیں اور نصاب لکھتے ہیں اور یہ ہماری ہی مرضی پر منحصر ہوگا کہ مستقبل میں کام کیسے ہوگا۔ مستقبل، پتھر پر کھینچی گئی لکیر نہیں ہے، وہ ناگزیر نہیں ہے، اسے آپ نے تشکیل دینا ہے اور یہی بات ہمیں اُمید دیتی ہے۔

تازہ ترین