منو بھائی کے بارے میں کیا کہوں اور کہاں سے شروع کروں وہ اتنے اچھے، اتنے ارزاں اور اتنے ناگزیر تھے کہ اُن کی مثال نظامِ فطرت کی سی تھی جیسے ہوا، پانی اور روشنی اس درجہ عام و ارزاں ہیں کہ ان کی طرف توجہ مائل نہیں ہوتی لیکن اِن کی فراہمی میں ذرا سا بھی فرق آجائے تو پھر یہ ناقابلِ التفات چیزیں انمول نعمتیں بن جاتی ہیں۔منو بھائی کی زندگی میں کُل انسانیت کا درد پنہاں تھا۔ وہ دُکھی انسانیت کیلئے مسیحا تھے۔ 2000ء میں جب سُندس فائونڈیشن کا دورہ کرتے ہیں اور زندگی کو ترستے ہوئے ننھے گلابوں سے ملتے ہیں تو پھر زندگی کی تمام تر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے آپ کو اِن بچوں کی مسیحائی کیلئے وقف کر دیتے ہیں۔ رہتی زندگی سُندس فائونڈیشن کے چیئرمین کے طور پر معصوم بچوں کے نام کر دیتے ہیں۔ ان کی خوشی میں خوش اور ان کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ اِس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آخری ایام میں جب مرض الموت نے انہیں آن گھیرا اور اسپتال میں ڈائلیسز ہو رہا تھا تو راقم کے جانے پہ یہی پوچھتے کہ بچے کیسے ہیں؟ میں سمجھتا کہ میرے بچوں کا پوچھ رہے ہیں، بتانے پہ کہتے کہ وہ بھی تو میرے بچے ہیں لیکن سُندس فائونڈیشن کے میرے سب بچے کیسے ہیں؟ طبیعت میں اس قدر ضعف لیکن درد اور تڑپ کا یہ عالم کے اُس لمحے بھی درد مندوں کا درد دِل میں سموئے ہوئے تھے۔ منو بھائی جب قلم سے کام لیتے تو لوگوں کی اُمنگوں، محرومیوں اور خوابوں کو زبان بخش دیتے۔ وہ انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے اسباب کو سمجھتے ہوئے معاشرتی تشکیل میں خواتین کے کردار کو نہ صرف اہم سمجھتے تھے بلکہ لازمی قرار دیتے تھے۔ انفرادیت پہ اجتماعیت کو فوقیت دیتے ہوئے کُل انسانیت کا سو چتے۔
میں بتا نہیں سکتا کہ مرحوم کی خوبیوں نے اُن کی زندگی کو کس درجہ آویزاں کر دیا۔ اِن میں دُور اندیشی اور عملی سوچ بدرجہ اُتم موجود تھی، وہ کسی بھی مسئلے کا وقتی حل کے بجائے اُس مسئلے کو جڑ سے اُکھیڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ اِس کی مثال یوں سمجھئے کہ جب اُن کی توجہ تھیلیسیمیا میں مبتلا مریض بچوں کی طرف جاتی تو وہ نہ صرف انکے وقتی علاج (انتقالِ خون) کیلئے توانائی صرف کرتے بلکہ معاشرے سے اس کا مکمل خاتمہ چاہتے، جس کیلئے وہ سُندس فائونڈیشن مالیکیولر اینالِسز سینٹر قائم کرتے ہیں۔ جہاں شادی سے قبل تھیلیسیمیا اسکریننگ پلان کرتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اسپیکر اسمبلی سے ملتے ہیں اور پری میرج تھیلیسیمیا کیرئیر اسکریننگ کو قانون کا درجہ دلوانے کی بات کرتے ہیں، جو صد افسوس کہ منو بھائی کی زندگی میں نہ مل سکا۔میں نہیں بتا سکتا کہ ہم سب کی زندگیوں میں مرحوم کس قدر دخیل تھے اور اِن کی موت نے ہم سب کو کیسا بے قرار و مایوس اور بے دست و پا کر دیا ہے۔ اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینا، چھوٹا ہو یا بڑا اِس سے عزت آمیز محبت کرنا منو بھائی کا خاصا تھا۔ انکے دِل میں اس بات کا احساس کبھی گزرا ہی نہیں کہ انہیں ان کی خدمات کا صلہ مل رہا ہے کہ نہیں۔ معاوضے کا احساس شاید اِن میں تھا ہی نہیں۔ مجبور کی مجبوری کو بھانپ کر اس کی ہر ممکن مدد کرنا ان کا شیوہ رہا۔اپنی 18سالہ رفاقت کے دوران میں نے ہمیشہ منو بھائی کو خدمتِ خلق کیلئے کوشاں دیکھا۔ ستمبر 2016ء میں ایک میٹنگ جس میں سہیل وڑائچ، مجیب الرحمٰن شامی، فواد چوہدری، جہانگیر ترین، علیم خان جیسے سیاستدان اور دانشور موجود تھے، میں وزیراعظم عمران خان کو صحافیوں اور سیاستدانوں کی صفوں سے گزر کر منو بھائی کے پاس آتے اور اس بات کا برملا اقرار کرتے میں نے خود دیکھا کہ منو بھائی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے انسانیت کی خدمت کیلئے قائم شوکت خانم اسپتال کیلئے معاونت اور حوصلہ افزائی کی۔ منو بھائی نے سندس فائونڈیشن میں رجسٹرڈ مریضوں کی عیادت اور حوصلہ افزائی کیلئے عمران خان صاحب کو دعوت دی اور اس ادارے کی بھی معاونت کرنے کی پیشکش کی جسے انہوں نے من و عن قبول کیا۔ اب منو بھائی تو نہیں رہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب اپنے وعدے کو پورا کرتا ہوئے سُندس فائونڈیشن کا دورہ کرینگے تاکہ منو بھائی کے ان ہزاروں معصوم بچوں کی معاونت اور حوصلہ افزائی ہو سکے۔ منو بھائی ایسا مرد درویش 84سال کی عمر میں 19جنوری 2018ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اُمیدوں کا ٹمٹماتا چراغ ہمیشہ کیلئے گُل ہو گیا لیکن میں اللہ کی رضا پہ راضی ہُوا۔ رب کریم سے دُعا ہے کہ مرحوم کی روح کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!