• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 سال میں 2117 پولیس مقابلے3345افراد ہلاک، صوبہ سندھ سرفہرست پنجاب دوسرے نمبر پر، تنظیم انسانی حقوق

اسلام آباد ( فخر درانی) ساہیوال میں پولیس مقابلے کے نام پر بے دردی سے قتل ہونے والے چار شہریوں کے واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ پولیس اصلاحات کے بلند و بانگ دعوے صرف دعوے ہیں اور پولیس پرانا طرز بربریت اپنی جگہ وہیں کا وہیں موجود ہے، انسانی حقوق حقوق کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2014سے مئی 2018تک 3,345افراد پولیس مقابلوں میں مارے چکے ہیں جس میں23خواتین،12بچےشامل ہیں جبکہ پولیس مقابلوں میں 55پولیس اہلکار بھی مارے گئے ہیں، اس سے قبل کاؤنٹر ٹیرورزم ڈپارٹمنٹ نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ مارے جانے والے دہشتگرد تھے اور ان کا تعلق دائش سے تھا تاہم بعد میں کئی گواہ سامنے آئے اور انہوں نے پولیس کے دعوے کو یکسر مسترد کردیا ، کراچی میں ایس ایس پی ملیر راؤانوار کے ہاتھوں مارے جانے والے نقیب اللہ کے قتل کے بعد حکومت پر سوالیہ نشان بنانے والا یہ ایک دوسرا سنگین واقعہ ہے۔ایچ آر سی پی کے اعداد شمار کے مطابق یکم جنوری2014 سے 11مئی 2018تک مجموعی طو رپر 2117پولیس مقابلے ہوئے جس میں 6,610مرد، 23خواتین اور بارہ بچے موت کا شکار ہوئے جس میں 3,345افراد مارے جاچکے ہیں، اس عرصے میں پولیس مقابلوں کی تعداد میں صوبہ سندھ سرفہرست ہے جس میں ایک ہزار پانچ سو بانوے مارے گئےجس میں 18پولیس اہلکار بھی شامل ہیں سندھ پولیس کے ایسے 944واقعات ہیںپولیس مقابلوں کے اعداد و شما رکے مطابق آٹھ سو سینتیس ہلاک ہونے والے جرائم پیشہ تھے، 122افراد دہشتگرد تھے، 201ڈاکہ زنی کے مقدمات میں ملوث تھے، 36 اغواہ برائے تاوان، 108قتل،134ڈاکیتی، جبکہ 16بھتہ خوری میں ملوث تھےجبکہ 18پولیس اہلکار ہلاک ہوئے اور 14زخمی، صوبہ پنجاب میں پولیس مقابلوں کی تعداد سندھ سے زیادہ ہے 1036پولیس مقابلوں میں 1,556افراد موت کا شکار ہوئے جس میں تین ہزار چھ سو اٹھاسی مرد چھ عورتیں شامل ہیں جبکہ 25پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے،ایچ آر سی پی کے اعداد وشمار کے مطابق نوسو ساٹھ جرائم میں ملوث تھے جس میں چھ سو پانچ ڈکیتی ، 25اغواء110قتل اور 26جنسی درندگی میں ملوث تھےاور چھیالیس دہشتگردی میں ملوث تھے، صوبہ خیبر پختوں خواہ میں پولیس مقابلوں کی تعداد سب سے کم ہے، یہاں یہ بات واضع رہے کہ مندرجہ بالا اعداد شمار اخبارا ت سے حاصل شدہ ہیں جبکہ پولیس کے اعداد و شمار اس سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین