• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا نے شام اور افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کے فیصلے کا اعلان کیا، تو بین الاقوامی منظر نامے میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ شام سے فوجوں کی واپسی کا اعلان خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا اور پھر اس کے ساتھ ہی افغانستان سے بھی فوجی انخلا کی اطلاعات نے زور پکڑ لیا۔ اگر ٹرمپ کے سیمابی مزاج کو ذہن میں رکھا جائے، تو یہ کچھ زیادہ حیرت انگیز خبر بھی نہیں تھی، کیوں کہ وہ اس طرح کے ڈپلومیٹک جھٹکے دینے کے عادی ہیں۔ یہاں تک کہ خود امریکی وزیرِ دفاع اس اچانک فیصلے کو برداشت نہ کرسکے اور اپنے عُہدے سے مستعفی ہوگئے۔ امریکا کے اہم فوجی حلیفوں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس فیصلے پر شدید تحفّظات کا اظہار کیا، تو تُرکی کی پریشانی بھی واضح تھی۔ البتہ روس اور ایران نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ یہ فیصلہ شام کے سیاسی حل کی راہ ہم وار کرے گا۔‘‘ شام سے تو امریکی فوجوں کی واپسی شروع ہوچُکی ہے، لیکن افغانستان کے متعلق ابھی تک عملی اقدامات سامنے نہیں آئے اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی واضح مؤقف دنیا کے ساتھ شئیر کیا گیا ہے۔ شام میں گزشتہ سات سالوں سے صدر، بشار الاسد اور اپوزیشن کے درمیان انتہائی خون ریز خانہ جنگی جاری ہے، جس میں پانچ لاکھ افراد ہلاک اور ایک کروڑ سے زاید شامی شہری بے گھر ہوچُکے ہیں۔ نیز، تقریباً تمام اہم شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ امریکا، مغربی ممالک، عرب دنیا اور تُرکی اپوزیشن کی حمایت کرتے رہے، جب کہ ایران اور روس نے صدر بشار کی فوجی مدد کی۔ امریکا اور مغربی ممالک کا کہنا تھا کہ وہ داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ یہی کچھ روس اور ایران بھی کہتے رہے، لیکن وہ صدر اسد کے مخالفین کو دہشت گرد اور باغی کہتے ہیں۔امریکا، شام میں فوجی طور پر متحرّک بھی نہیں تھا اور صدر اوباما کے دَور ہی سے مشرقِ وسطیٰ سے فوج کی واپسی کے اعلانات ہوتے رہے ہیں۔تاہم، سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہاں سے مکمل فوجی انخلا علاقے پر کیا اثرات مرتّب کرے گا؟ اور اگر افغانستان میں بھی یہی عمل دہرایا گیا، تو وہاں کیا صُورتِ حال بنے گی؟ یہ فوجی انخلا علاقے میں مزید پیچیدگیوں کا موجب ہوگا یا اس سے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی؟

شام اور افغانستان میں نئی تبدیلیاں
اشرف غنی

شام میں صرف دو ہزار امریکی فوجی گرائونڈ پر موجود تھے اور وہ بھی انتہائی شمال میں واقع کُرد علاقے میں۔ داعش نے چار برس قبل عراق اور شام کے درمیان ایک بڑے علاقے پر قبضہ کیا، تو امریکا نے شامی اپوزیشن اور کُردوں کی مدد سے ان علاقوں سے داعش کا صفایا کردیا، لیکن جو اصل سیاسی مسئلہ تھا، یعنی شامی خانہ جنگی، اُس کے حوالے سے امریکا محض بیانات کی حد تک ہی محدود رہا۔ اگر اُس نے کبھی شام پر حملہ کیا بھی(جیسے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر حملے کیے گئے)، تو اُس میں بھی بحرِ روم میں کھڑے جہازوں ہی سے کروز میزائل داغے گئے اور مخصوص اہداف ہی کو تباہ کیا گیا۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس ہمیشہ اعلانات کرتے رہے کہ اُن کا اسد حکومت کے خلاف کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی وہ اسد کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اُنہوں نے روس اور ایران کو گزشتہ دو برسوں سے شام میں کُھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اپوزیشن کو جس طرح چاہیں، نشانہ بنائیں اور اسے شکست دے کر اسد افواج کے علاقوں پر قبضے کی بحالی میں مدد کریں، جو اب تقریباً مکمل ہونے کو ہے۔دوسرے الفاظ میں ٹرمپ بھی اوباما کی طرح شامی مسئلے کے کسی جمہوری حل سے کوئی دِل چسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ اس حوالے سے کوئی عملی اقدام اٹھانے پر آمادہ ہیں۔ برطانیہ اور فرانس کا بھی یہی مؤقف تھا، لیکن اُنھوں نے دنیا کو بے وقوف بنانے اور عربوں، خاص طور پر شامی اپوزیشن کو دھوکا دینے کے لیے گزشتہ سات برسوں میں دوغلی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ داعش نے بہ مشکل چند ہزار افرد ہلاک کیے تھے، جس کے خلاف مغرب اور روس نے اتنا بڑا اتحاد بنایا، جب کہ شام کے عوام اور مُلک کی تباہی، لاکھوں انسانوں کی ہلاکتوں پر بے رحمانہ خاموشی یا پردہ پوشی کا رویّہ اپنایا گیا۔ اپنے مفادات کے لیے مسلم خون کو ارزاں کرنے کی یہ ایک اور بڑی مثال ہے، جو پہلی عالمی جنگ کے منظر نامے کی یاد دلاتی ہے، جب اِنہی مغربی طاقتوں اور روس نے مل کر عربوں کا بٹوارا کیا اور اُنھیں تُرکی سے لڑوایا۔ ان قوّتوں ہی نے مشرقِ وسطیٰ کو دس سال تک جمہوریت کے نام پر خون میں نہلایا ۔ عرب اسپرنگ کا ڈراما رچایا، خانہ جنگیوں کے تحفے دیے، شہروں کو کھنڈر اور شہریوں کو بے گھر کیا اور خود سیاست کی چالیں چلتی رہیں۔ مغربی میڈیا، جو جمہوریت اور انسانی حقوق کا بڑا چیمپئن بنتا ہے، اُس کا کردار بھی منافقانہ رہا۔

شام اور افغانستان میں نئی تبدیلیاں
بشارالاسد

ایک طرف تو وہ بے بس معصوم بچّوں کی کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاکتیں دِکھاتا رہا، لیکن جب خون ریزی رکوانے کی بات ہوتی، تو اپنے حکم رانوں کو یہ کہہ کر اس تنازعے میں ٹانگ اَڑانے سے روکتا رہا کہ’’ خانہ جنگی کے خاتمے سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ نہیں، انھیں لڑ لڑ کر تباہ ہونے دو، کم زور مشرقِ وسطیٰ کبھی سَر نہ اٹھا سکے گا۔‘‘حقیقت یہی ہے کہ امریکا کے اس علامتی فوجی انحلا سے کچھ نہیں بدلنے والا، کیوں کہ صدر اسد، روس اور ایران کی مدد سے پہلے ہی جنگ جیت چُکے ہیں۔ اُن کی گرفت مضبوط ہے اور خود عرب مُمالک اُنہیں’’ عرب لیگ‘‘ میں واپس لینے پر تیار ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوجی فیصلے ہی شامی حل میں اب تک مقدّم اور برتر تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ حسبِ معمول بڑی طاقتوں کے آگے بے بس ہے، جن میں روس، چین، امریکا، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔تاہم، ان قوّتوں کی بحرِ ہند اور بحرِ روم میں بالادستی کے لیے اُن کے جنگی بیڑے موجود ہیں۔ علاوہ ازیں، تُرکی میں نیٹو کے اڈّے ہیں اور عرب مُمالک میں بھی ان کی افواج موجود ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر اسرائیل کی فوجی طور پر بالادست قوّت مشرقِ وسطیٰ میں نہ صرف ان طاقتوں کی حفاظت کر رہی ہے، اس پر روس، ایران اور چین تک اعتماد میں لیے جاچُکے ہیں۔

شام اور افغانستان میں نئی تبدیلیاں
ڈونلڈ ٹرمپ

افغانستان میں بھی امریکا اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات شروع ہوچُکے ہیں۔ دراصل، اسے امریکا کی علاقے سے جانے کی تیاری کی شروعات کہا جاسکتا ہے ۔زلمے خلیل زاد، جو افغان معاملے کے لیے امریکی حکومت کے خصوصی نمائندے ہیں، بار بار علاقے کے چکر لگا رہے ہیں اور بات چیت کے دَور کر رہے ہیں۔ پاکستان ان مذاکرات میں فریقین کے بعد سب سے اہم اسٹاپ ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ صدر ٹرمپ نے وزیرِ اعظم، عمران خان سے ان مذاکرات میں مدد کے لیے درخواست کی تھی۔یقیناً پاکستان چاہتا ہے کہ اس کے پڑوس میں ایک مستحکم افغان حکومت ہو۔ بادی النّظر میں تو افغان مسئلے کے حل کے صرف دو فریق ہیں، ایک افغان حکومت اور دوسرے طالبان، دونوں ہم وطن ہیں اور اگر دل بڑا کریں، تو معاملہ آپس میں سُلجھ سکتا ہے، لیکن ایسے تنازعات میں سب سے بڑی الجھن یہی ہوتی ہے کہ ہم وطن فریق کم ہی براہِ راست بات چیت کرتے ہیں اور تھرڈ پارٹی یا پارٹیوں کو اُنھیں آمنے سامنے بیٹھنے پر راضی کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تھرڈ پارٹیوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ پھر ان کا اس مسئلے کو دیکھنے کا انداز بھی الگ الگ ہی ہوتا ہے۔ ویت نام کے معاملے میں بھی ایسا ہوا اور فلسطین کے مسئلے پر بھی اسی طرح کے معاملات چلے، شام میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، تو پھر افغانستان کو کیسے استثناء مل سکتا ہے۔ نیز، یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سعودی عرب، قطر اور تُرکی کے بھی افغانستان پر اثرات ہیں، جب کہ روس، چین اور وسطی ایشیاء کی کئی مسلم ریاستیں بھی اہم کردار کی حامل ہیں۔ افغان مسئلے پر مذاکرات کے دور قطر میں ہورہے ہیں، جہاں طالبان کا دفتر بھی ہے، لیکن جب یہ دفتر کُھلا تھا، اُس وقت اور آج کے حالات میں بہت تبدیلی آچُکی ہے۔اُس وقت قطر اور سعودی عرب آپس میں شیر وشکر تھے، جب کہ اب ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس طرح ان مذاکرات میں دو محاذ اور ایجنڈے تو صرف عرب مُمالک کے ہیں۔ پھر بھارت کا مفاد بھی اس میں شامل ہے اور اسی لیے وہ وسیع پیمانے پر افغانستان میں مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لے رہا ہے، جس کی قیمت وہ سیاسی فوائد کے طور پر بھی حاصل کرنا چاہے گا۔ نیز، امریکا اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، جب کہ روس اور چین سے اس کے جس نوعیت کے تعلقات ہیں، اُنہیں بھی اس کے کردار میں کوئی قباحت نظر نہیں آئے گی۔ ایران بھی بھارت کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے۔ چاہ بہار پورٹ اس کے حوالے کیا جاچُکا ہے، جہاں سے افغانستان کے لیے 800 کلومیٹر طویل شاہ راہ زیرِ تعمیر ہے۔ بندرگاہ اور یہ شاہ راہ، بھارت کو افغان ٹریڈ کے لیے متبادل راہ داری فراہم کریں گے، جب کہ افغان، ایران سرحد پر نیلم ڈیم بھی بھارت کی امداد سے تیار ہوا، جس کا افتتاح وزیرِ اعظم، مودی نے کیا تھا۔البتہ پاکستان’’ افغان امن عمل‘‘ میں بھارت کے کردار کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ اہم سوالات یہ ہیں کہ کسی بھی ممکنہ سمجھوتے میں طالبان کو آئندہ مُلکی اقتدار یا انتخاب میں شرکت کا موقع کب اور کس طرح ملے گا؟ اگر امریکا چلا جاتا ہے، تو امن و امان کا ذمّے دار کون ہوگا۔پھر یہ بھی کہ مُلک کی بحالی کے لیے مالیاتی اور تیکنیکی وسائل کون فراہم کرے گا، اس میں علاقائی مُمالک کا کیا کردار ہوگا، کیوں کہ روس اور چین دونوں ہی طالبان اور افغان حکومت کے امن عمل کی میزبانی کر رہے ہیں۔اس سے اُن کی دل چسپی بھی عیاں ہے۔ یقیناً وہ امریکا کے انخلا کے بعد کے خلا کو پُر کرنا چاہیں گے، لیکن مشکل یہ ہے کہ امریکا کی ان دونوں سے اس معاملے پر کوئی بات چیت نہیں اور اُنہوں نے مذاکرات کی اپنی اپنی میزیں سجا رکھی ہیں، جن پر ایک دوسرے کے بیٹھنے پر پابندی ہے۔ پاکستان، 2200 کلو میٹر پر پھیلی افغان سرحد پر تیزی سے باڑ لگا رہا ہے۔غالباً وہ نہیں چاہتا کہ انحلا کے بعد کی کوئی بھی شورش اس پر اثر انداز ہو، جیسا پہلی افغان وار کے بعد ہوا۔

افغان امن مذاکرات جس انداز میں چل رہے ہیں، وہ بہ ظاہر تو کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں اور کوئی کرشمہ ہی بریک تھرو پیدا کرسکتا ہے۔ اصل میں اختلاف اسی بات پر ہے، جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا، یعنی طالبان اور غنی حکومت کے درمیان کسی قسم کی انڈر اسٹینڈنگ پیدا ہونا۔ جب کہ صُورتِ حال یہ ہے کہ دونوں ایک ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں۔ طالبان کی خواہش ہے کہ امریکا مُلک چھوڑ دے اور فوری طور پر اُسے اقتدار مل جائے، جیسے پہلی افغان وار میں مُلکی افراتفری کے بعد ملا عُمر طاقت حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے، لیکن اب زمینی اور علاقائی حالات بدل چُکے ہیں۔ طالبان گو کہ مُلک کے بڑے حصّے پر اثر ورسوخ رکھتے ہیں، تاہم اُن کی بالادستی اس نوعیت کی نہیں، جیسی ملا عُمر کی تھی۔پھر آج حکومت اتنی کم زور بھی نہیں۔ علاوہ ازیں، اُس وقت امریکی فوجوں کو گئے آٹھ سال کے قریب ہوچُکے تھے، جب کہ آج یہ فوجیں اس سے بھی زیادہ طاقت سے موجود ہیں اور مُلک کی اصل حکم ران بھی۔پھر اُس وقت چین اپنی اقتصادی دوڑ میں مصروف تھا اور اُسے افغان مسئلے سے کوئی دِل چسپی نہیں تھی۔ روس بکھر کر شکست کے زخم چاٹ رہا تھا، لیکن آج کچھ بھی ایسا نہیں۔ اسی لیے طالبان کو بہت سے سمجھوتے کرنے پڑ رہے ہیں اور ہر علاقائی طاقت کے ایجنڈے کو بھی اسپیس دینا پڑ رہی ہے۔ شاید طالبان کے لیے اپنے اس کردار کو اپنے سخت گیر عناصر کو سمجھانا مشکل ہو۔ اور یہ مشکل اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے، جب اقتدار میں فوری جانے کا کوئی راستہ نہ ہو اور اگر ہے بھی، تو مقصد شراکتِ اقتدار کے ذریعے یا پھر نئے انتخابات میں شامل ہو کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہو۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا طالبان اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں گے اور یہ کہ اس سے اُن کی عوامی مقبولیت پر کیا اثر پڑے گا۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انقلابی جنگجو لیڈر، بہت اچھے حکم ران ثابت نہیں ہوتے، خاص طور پر جب عوام کے پاس موازنے کے لیے پہلے سے حکم رانی کی مثال موجود ہو، جیسے کہ اس وقت صدر اشرف غنی کی حکومت ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ مذاکرات اور فوجوں کی واپسی کا ذکر امریکا کی پسپائی ہے۔کسی حد تک تو یہ بات درست ہے، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس کے جانے کے بعد افغانستان وہی افغانستان ہوگا، جو اس کے آنے سے پہلے تھا۔ کیا سویت یونین کے بِکھرنے کے بعد جس قسم کا وسطی ایشیاء، مغربی طاقتیں ترتیب دینا چاہتی تھیں، کیا وہ اس میں کام یاب ہوئیں؟

تازہ ترین