بطور قوم ہم ہمیشہ ردِعمل ظاہر کرتے ہیں، کبھی عمل نہیں کرتےاور بھول جاتےہیں اور پھر ایک اورسانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتے اور سانحات کو بار بار رونما ہونے سے روکنے کیلئے بہتری کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ہم سنجیدہ مسائل کیلئے عارضی حل تلاش کرتے ہیں اور اُس عارضی حل کو مستقل اور ریاستی پالیسی کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ جب ’ماورائے عدالت قتل‘ ریاستی پالیسی کا حصہ بن جائے اور ریاست اسے چھپانے کی کوشش کرے تو جو کچھ ساہیوال میں ہوا، اس سےصرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں بالخصوص پولیس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ساہیوال کا سانحہ پہلا نہیں تھا اور نہ ہی آخری ہوگا کیونکہ اس سے ’پولیس کامائنڈسیٹ‘ اور عدالتی عمل کی پیروی کی بجائے شدت پسندی سے نمٹنے کیلئے ریاست کی جانب سے مشکوک افراد کو ’انکائونٹرز‘ میں مارنے کی پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔ اگر میڈیا شور نہ کرتا اور خواتین اور بچے شامل نہ ہوتے تو پنجاب پولیس اور حکومت آپریشنل پارٹی کیلئے ’انعامی رقم‘ کا اعلان کرچکی ہوتی۔ لہذا ساہیوال واقعے سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں اور کیا ہم نام نہاد ’انکائونٹرز‘ میں لوگوں کو مارنے کا کا ’مائنڈ سیٹ‘ تبدیل کرسکتےہیں۔ صرف اتوار کوہی کورنگی کے علاقے میں پولیس کی فائرنگ سے چند لوگ زخمی ہوگئے تھے کیونکہ پولیس نے دعویٰ کیاکہ وہ ملزمان کے ساتھ’کراس فائرنگ‘ میں آگئے تھے جبکہ کیس کے حقائق واضح طورپر اشارہ کرتےہیں کہ وہاں کوئی انکائونٹر نہیں ہوا نہ ہی کوئی ملزم ملا ۔ یہ مزید برا بھی ہوسکتا تھا کیونکہ خاتون حاملہ تھی اور اتوار کی رات تک ان کی حالت تشویشناک تھی۔ ہمیں واقعے کی تفتیش کرنےوالی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے شواہد کی انتظار ہےکہ وہاں کیا ہواتھا، سی سی ٹی وی فوٹیج، عینی شاہدین کے بیانات اور جو باتیں ابھی تک سامنے آئیں ہیں ان سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہ ایک جعلی انکائونٹر تھا اور جس طرح سے والدین اور ان کی 14سالہ بیٹی چھوٹے بچوں کے سامنے قتل کیےگئے وہ صرف ’سفاکانہ عمل‘ ہے کیونکہ وہاں ڈرائیور ذیشان کی جانب سےمزاحمت کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ’جعلی انکائونٹرز‘ کی پالیسی پہلی بار 90کی دہائی میں اپنائی گئی تھی تاکہ خاص طورپر پنجاب اور سندھ میں ڈاکوئوں اور فرقہ ورانہ شدت پسندوں اور نسلی گروہوں سے نمٹاجائے۔ اہم بات یہ ہےکہ ’جعلی انکائونٹرزکےحوالےسے خیبرپختونخوا کی پولیس کا ٹریک ریکارڈ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ہمیشہ بہتر رہاہے۔ ملزمان کو سزا دینےکیلئے اسے عدالتی کارروائی کا متبادل سمجھ لیاگیاتھا اور سیکڑوں کوماردیاگیا اور پولیس پارٹیز کو کیش انعامات سےنوازاگیا۔ بطورانعام لاکھوں روپوں کا اعلان کیاگیاا ور حتیٰ کہ ’انکائونٹرز‘ کی تفصیلات جانے بغیر کہ وہ اصلی تھے یہ جعلی،کچھ پولیس افسران کو صدارتی ایوارڈ بھی دیئےگئے۔ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور پولیس سسٹم، عدالتی سسٹم کو بہتر کرنے اور دہشتگردوں اور جگجوئوں سے نٹمنے کیلئے بھی کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ ہماری جیلیں شدت پسندوں کا گڑھ بن چکی ہیں اور حتٰی کہ اگر انھیں سزا بھی مل جاتی ہے تو انھیں موبائل فون سمیت تمام سہولیات ملتی ہیں۔ ایس ایس پی رائوانوار جیسے پولیس افسران اسی پالیسی کی پیداوار ہیں اور گزشتہ کئی سالوں میں جو کچھ اس نےکراچی میں کیاوہ ریاستی پالیسی کا حصہ تھا، اس سے ملزمان کو ’مقابلوں‘ میں مارنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اور چند دیگر افسران کو ان کی ’خدمات‘ کیلئے انعامات سے نوازا بھی گیا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ نقیب اللہ محسود کے واقعے سے قبل رائو انوار کوئی ہیروتھا۔ حتٰی کہ محسود کے واقعے کےبعد بھی اسے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ نام ای سی ایل میں ڈالا گیا لیکن بالآخر وہ اپنی پوری سروس کرکے ریٹائر ہوگیا۔ بعد میں کئی پولیس افسران کو نشانہ بنایاگیا اور مبینہ طورپر شدت پسندوں نے انھیں ماردیا لیکن یہ پالیسی آج تک جاری ہے۔