ان دنوں ڈاکٹر طاہر القادری لانگ مارچ کی تیاریاں کر رہے ہیں دعاہے کہ اللہ انہیں کامیاب کرے مگراس سلسلے میں انہیں ایک بہت اہم مشورہ دیا گیاہے ۔ میرے خیال میں انہیں فوراً اس پر عمل کرنا چاہئے ۔وہی واحد راستہ ہے جو اس شہر کی طرف جاتا ہے جس کے دروازے پر تبدیلی کا بورڈ لگا ہوا ہے ۔ اگرچہ وہ راہِ پر خار ہے کچھ لمبی مگر اتنی طویل بھی نہیں کہ طے نہ ہوسکے ۔ مشورہ دینے والی شخصیت بہت اہم ہے مگر مشورے سے زیادہ اہم نہیں سو اس شخصیت کا نہیں صرف مشورہ درج کر رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو چاہئے کہ وہ مختلف پارٹیوں کے اُن امیدواروں کے خلاف عدالت عالیہ جائیں جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں الیکشن لڑنے کا حق نہیں ملنا چاہئے ۔ایم این اے کے امیدواروں کے خلاف سپریم کورٹ میں اور ایم پی اے کے امیدواروں کے خلاف ہائی کورٹس میں۔عدالتوں میں جانے کیلئے ضروری ہے کہ ان کے پاس امیدواروں کے جرائم کے ثبوت ہوں۔وہ ثبوت انہیں جمع کرنا ہوں گے اور یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے ۔ وہ شواہد کے حصول کیلئے شہر میں اپنی ایک تحقیقاتی ٹیم تیار کریں جواپنے شہر کے انتخابی امیدواروں کے متعلق مکمل چھان بین کرے،تمام اثاثوں کا ریکارڈ جمع کرے یہ پتہ کرے کہ اس شخص نے یہ اثاثے کیسے بنالئے ہیں اور کون کون سے اثاثے کس کس نوکر کے نام پر ہیں یہ لیڈران کرام چند سالوں میں کروڑ پتی اور ارب پتی کیسے بن گئے ہیں اوروہ یہ تمام معلومات صوبائی سطح پر کام کرنے والی اپنی تحقیقاتی ٹیم کو بھیج دے صوبائی سطح کی تحقیقاتی ٹیم وکلاء کے ایک وسیع پینل کے ساتھ مل کر کام کرے۔ وہاں ان معلومات پر اچھی جانچ پڑتال کی جائے اور پھر ان شواہدکو کورٹس میں بھیج دیا جائے ۔صوبائی سطح کی تحقیقاتی ٹیمیں اُن امیدواروں کی لسٹیں حاصل کریں جنہوں نے ابھی تک ٹیکس نہیں دیا ۔ جنہوں نے بجلی، پانی اور گیس کے بل نہیں دئیے ہوئے ۔ایک ٹیم ہر ایم این اے اورہر ایم پی اے کے متعلق تحقیقات کرے کہ اس نے اپنے حلقے سے باہر کے کسی شخص کاکوئی کام تو نہیں کرایا ۔اپنے کوٹے سے کسی ایسے شخص کو ملازمت نہیں دی جس کا تعلق اسکے حلقہ انتخاب سے نہیں تھا۔ تاکہ یہ بات بھی سامنے آئے کہ کوٹے میں ملنے والی ملازمتیں کہاں کہاں فروخت ہوئی ہیں۔کسی شخص سے کسی کام کیلئے رقم تو وصول نہیں کی ۔ بظاہریہ کام خاصا مشکل دکھائی دیتا ہے مگر مشورہ دینے والوں کو یقین ہے کہ جیسے ہی یہ سلسلہ شروع ہوا لوگوں نے خود ان لٹیروں کے خلاف ایسے ایسے ثبوت فراہم کردینے ہیں کہ دنیا حیران رہ جائے گی ۔امیدوار خود ایک دوسرے کے خلاف ثبوتوں کے ڈھیر لگادیں گے۔ پھر اس سلسلہ میں میڈیا سے بھی رابطہ کیا جائے ۔میڈیا کے پاس ان چوروں کے خلاف بے تحاشہ مواد موجود ہے۔خاص طور پر اخلاقی جرائم میں ملوث امیدواروں کے متعلق بہت سی ویڈیوز حاصل ہوسکتی ہیں ۔یوٹیوب پر موجود ویڈیوز کو بھی کورٹس میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں جن کی تردید نہیں ہوئی وہ بھی کورٹس میں لائی جا سکتی ہیں ۔کئی ایسی کتابیں بھی موجودہیں جو کئی امیدواروں کے خلاف ثبوت کی حیثیت رکھتی ہیں۔پورے ملک کی حلقہ بندیوں کو چیک کرایا جائے کہ کس دور میں کس ایم این اے اور کس ایم پی اے کی کوششوں سے کس حلقہ میں کیا تبدیلی آئی ہے اور کیوں آئی ہے، اس سے کس امیدوار کو کیا کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں اکثر امیدواروں کے خلاف یہی مقدمہ کافی ثابت ہوگا کہ اس امیدوار کے جو اثاثے ہیں وہ اس نے کہاں سے حاصل کئے ہیں ۔دوسرااس نے اثاثوں کو ظاہر کیوں نہیں کیا ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے خود اپنی تقریر میں فرمایا ہے کہ دولت چھپانے کے جرم میں آئین ِ پاکستان میں دوسال قید ِ بامشقت کی سزا ہے ۔اس کام کیلئے ادارہ منہاج القران ریٹائرڈ ججوں ، ریٹائرڈ پولیس آفیسروں اورفوجی اداروں میں کام کرنے والے ریٹائرڈ افراد کو محدود مدت کیلئے ملازمت بھی فراہم کر سکتا ہے۔ ایک ٹیم ایسی بھی تیار کی جائے جس کا کام امیدواروں کے پچھلے بیس سالوں میں اخبارات شائع ہونے والے بیانات کا جائزہ لینا ہو کہ کس شخص نے کب کہاں اور کیا جھوٹ بولا تھا اور پھر وہ تمام مواد بھی کورٹس میں پیش کیا جائے قانوناً جھوٹ بولنے والے افراد بھی امیدوار نہیں بن سکتے ۔پھر ان لوگوں کے لئے انعام کے طور پرمعقول رقم کا بھی اعلان کیا جائے جو ان امیدواروں کے خلاف ثبوت فراہم کریں ۔اس کام کیلئے یقیناً ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہے اس کیلئے مشورہ ہے ڈاکٹر طاہر القادری کی اپیل پر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اس تمام پراجیکٹ کا بجٹ ایک دن میں فراہم کردیں گے۔اگرچہ یہ مشورہ بہت زبردست ہے مگر امیدواروں میں اکثریت بڑے فنکار لوگوں کی ہے زیادہ تر ایسے باکمال لوگ ہیں کہ قتل بھی کرتے ہیں اور چرچا بھی نہیں ہونے دیتے ان کے دامن پر نہ کوئی داغ دکھائی دیتا ہے اور نہ جنجر پہ کوئی چھینٹ نظر آتی ہے اورپھر وہی پہلا پتھر مارنے بھی آجاتے ہیں۔یہ تو آپ نے سنا ہوا ہوگا کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو۔۔اس وقت بھی ان فنکاروں نے اپنی قلمی خدمتگاروں سے ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف ایک مہم شروع کرا رکھی ہے جس میں ڈاکٹر طاہر القادری پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے پاکستانی نیشنلٹی کے ساتھ ساتھ کینیڈا کی نیشنلٹی بھی حاصل کر رکھی ہے اس سلسلے میں ایک کالم نگار جو ہندوذہنیت سے بہت متاثر ہیں انہوں نے بھارت کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جنم لینے والا کوئی شہری جب کسی اور ملک کی نیشنلٹی لے لیتا ہے تو اسے بھارت ویزا لے کر آنا پڑتا ہے۔میں انہیں کیا کہوں انہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نہیں دکھائی دیتے۔جہاں ہر شخص دوہری شہریت رکھ سکتا ہے چاہے وہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو۔برطانیہ میں کئی ایسے وزیر رہے ہیں جن کے پاس دوہری نیشنلٹی تھی۔دوہری نیشنلٹی رکھنے والے پاکستانی جب ملک کے وزیر اعظم بنے تھے تو یہی کالم نگار ان کی شان میں قصیدہ خواں دکھائی دئیے تھے۔ کیا جس وقت ڈاکٹر قدیر خان وطن واپس آئے تھے تو کیا اس وقت ان کے پاس دوہری شہریت نہیں تھی ۔ماضی کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے کہ کہیں کسی اخبار میں کسی شخص نے معین قریشی یا شوکت عزیز کی دوہری نیشنلٹی پر اعتراض کیا۔اس وقت کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ۔جہاں تک دو ممالک کی شہریت حاصل کرنے کاسوال ہے تویہ صرف اس وقت مسئلہ بن سکتی ہیں جب وہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوجائیں ۔