• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شاعر قابل اجمیری نے ایک شعر میں بہت اہم بات کہی تھی،

’’وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘

فن کی دُنیا کا چمکتا ستارہ، روحی بانو تو کئی برس پہلے اس وقت ہی مرچکی تھیں، جب ان کے جوان سال بیٹے کو قتل کردیا تھا، وہ نوجوان روحی بانو کی کل کائنات تھا۔ اس کے قتل کے بعد تو روحی صرف زندگی کے دن گن رہی تھیں اور پھر25جنوری 2019کو خالق حقیقی سے جاملیں۔ ان کو فراموش کرنا ٹیلی ویژن کے ناظرین کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ ان کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ فن کارائوں میں ہوتا ہے۔ 1970اور 1980کے عشروں میں وہ شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہی تھیں۔ ایک جانب ٹیلی ویژن اسکرین پر دل چُھو لینے والی اداکاری کا مظاہرہ کررہی تھیں تو دوسری جانب سلور اسکرین پر دل کش پرفارمنس سے فلم بینوں کے دل جیت رہی تھیں۔ 10اگست 1951کو جنم لینے والی منجھی ہوئی اداکارہ نے درجنوں فلموں اور ان گنت ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی یادگار پرفارمنس سے انمٹ نقوش چھوڑے۔ روحی بانو برِصغیر کے نامور طبلہ نواز اللہ رکھا خان کی بیٹی، جب کہ موسیقی کی دُنیا کے نامور فن کار ذاکر حسین کی بہن تھیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں کو دنیا بھر میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں ٹیلی ویژن کے لیے ممتاز ڈراما نگار اشفاق حسین، منو بھائی، بانو قدسیہ، انور سجاد اور حسینہ معین کے لکھے ہوئے ڈراموں کے چرچے تھے اور ان کے لکھے ہوئے ڈراموں میں حقیقت کا رنگ روحی بانو بھرتی تھیں۔ آج بھی پاکستان کے ٹیلی ویژن ڈرامے بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں، مگر کوئی خالدہ ریاست، عظمیٰ گیلانی اور روحی بانو جیسی صف اول کی اداکارہ سامنے نہیں آئی۔ روحی بانو نے پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور فن کاروں کے سامنے جم کر اداکاری کی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ منظور قریشی، راحت کاظمی، شکیل، آصف رضا میر، طلعت حسین، توقیر ناصر اور دیگر مقبول فن کاروں کے ساتھ ان کے ٹی وی ڈرامے بہت کام یاب ہوئے، جب کہ فلموں میں انہیں شہنشاہ جذبات اور فلم انڈسٹری کی پہچان محمد علی کے ساتھ بھی پسند کیا گیا۔ وہ فلموں میں اچھل کُود والے کرداروں سے گریز کرتی تھیں، ایسے کردار ادا کرنا پسندکرتی تھیں، جن میں اداکاری کا مارجن زیادہ ہوتا تھا۔ انہوں نے ابتدا میں جب فلم انڈسٹری کا رُخ کیا تو انہیں انڈسٹری کا ماحول اچھا نہیں لگا، تو وہ واپس ٹی وی ڈراموں کی جانب آگئی تھیں، بعدازاں انہوں نے درجنوں فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کے سپر ہٹ ٹیلی ویژن ڈراموں میں کرن کہانی، کانچ کا پل، زیرزبر پیش، ایک محبت سو افسانے، دروازہ، دُھند، زرد گلاب، سراب، پکی حویلی اور دیگر شامل تھے۔

ان ڈراموں میں جو کردار کیا ، اُسے یادگار بنا دیا۔ ڈراموں کی طرح کام یاب اور سپر ہٹ فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی قابلِ ذکر فلموں میں پالکی، امنگ، انسان اور فرشتہ، راستے کا پتھر، انوکھی، گونج اٹھی شہنائی، خدا اور محبت، دشمن کی تلاش، ضمیر ، بڑا آدمی، کائنات، آج کا انسان ، کرن اور کلی،دل ایک کھلونا و دیگر شامل ہیں۔ روحی بانو کو وحید مراد، محمد علی، آصف رضا میر، غلام محی الدین اور سدھیر کے مدمقابل فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ لاکھوں ناظرین اور فلم بینوں کے دلوں پر راج کرنے والی اداکارہ روحی بانو کی ازدواجی زندگی خوشگوار ثابت نہیں ہوئی۔ ان کی زندگی کا محور ان کا بیٹا تھا اور جب وہ بھی ساتھ چھوڑ گیا، تو وہ اس صدمے کو برداشت نہ کرسکیں اور نفسیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والی قابل فن کارہ، خود کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگئیں۔

روحی بانو نے اپنے فنی کیریئر میں کئی یادگار ڈراموں اور فلموں کے علاوہ مختلف ایوارڈز بھی حاصل کیے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے شعبہ اداکاری میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سینٹر سے ڈراما81کے سلسلے کا کھیل ’’کانچ کا پل‘‘ جسے یونس جاوید نے لکھا اور ہدایات محمد نثار حسین کی تھیں۔ اس ڈرامے میں فردوس جمال، روحی بانو اور توقیر ناصر مرکزی کرداروں میں تھے، جب کہ بیگم خورشید مرزا، شاہدہ بیگم، نثار اور عثمان بھی مختلف کرداروں میں نظر آئے۔ ’’کانچ کا پل‘‘ میں روحی بانو نے ڈاکٹر کے روپ میں یادگار عمدہ پرفارمنس دی ۔ اس ڈرامے میں یونس جاوید نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرتی دُکھوں کی عکاسی کی تھی۔ ڈرامے میں ڈاکٹر (روحی) ایک مریض کے والدین سے مخاطب ہوکر کہتی ہیں کہ ’’میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ہر روز کسی نہ کسی کو مرتا دیکھتی ہوں، جب کوئی مرتا ہے تو یُوں لگتا ہے کہ جیسے میرا اپنا بچہ مرگیا، میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ قدرت ہر شخص کو اتنی تکلیف دیتی ہے، جس کو وہ برداشت کرلے۔‘‘ کانچ کا پل کے ہیرو اور سینئر اداکار توقیر ناصر نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’روحی بانو اس زمانے میں اپنے کیریئر کی بلندیوں پر تھیں، کانچ کا پل میں ان کی لازوال پرفارمنس سے مجھے شوبزنس میں پہچان ملی۔ فردوس جمال اور میرے ساتھ روحی نے کمال کی اداکاری کی، میرے لیے ’’کانچ کا پل‘‘ سنگ میل ثابت ہوا۔ کردار میں اپنی ذات کی نفی کرکے کس طرح ڈوبا جانا ہے، یہ میں نے روحی بانو سے سیکھا۔ وہ اکیڈمی کا درجہ رکھتی تھیں، میں نئی نسل کی فن کارائوں سے کہتا ہوں کہ روحی بانو جیسی اداکاری کرکے دکھائو تو مانوں۔ میں نے بے شمار اداکارائوں کے ساتھ ٹی وی ڈراموں میں کام کیا، مگر روحی بانو جیسی فن کارہ آج تک نظر نہیں آئی۔ وہ فن کا ایک روشن چراغ تھیں، جو اب ہم میں نہیں رہیں، لیکن فن کار کبھی نہیں مرتا، اسے اس کا فن زندہ رکھتا ہے۔‘‘

روحی بانو کے ابتدائی ڈراموں میں مقبول ڈراما سیریل ’’کرن کہانی‘‘ بھی شامل تھا۔ ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین کے لکھے اس ڈرامے نے کئی فن کاروں کو مقبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1973میں پی ٹی وی سے نشر کیے گئے اس ڈرامے میں روحی بانو کے ساتھ بابرہ شریف بھی جلوہ افروز تھیں۔ اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مایہ ناز ڈراما نگار حسینہ معین نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ ’’کرن کہانی‘‘ ڈرامے میں بابرہ شریف کا مختصر کردار تھا، جب کہ روحی بانو لیڈ پر تھیں، روحی بہت باکمال فن کاروں تھیں ، ان کو جو بھی کردار ملتا، اسے جان دار بنا دیتی تھیں۔ ریہرسلز میں روحی کا رویہ کچھ اور ہوتا تھا، لیکن جب وہ کیمرے کے سامنے جاتی تھیں، تو کردار میں ایسی ڈوب جاتی تھیں کہ سب حیران رہ جاتے تھے۔ وہ پیدائشی فن کارہ تھیں۔ انہوں نے دو شادیاں کیں، مگر افسوس دونوں ہی ناکام رہیں۔ پہلے شوہر سے ایک بیٹا تھا، انسان دو دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا، ایک دُنیا وہ تھی جو اسے شوبز سے ملی تھی اور دوسری اس کی اپنی زندگی۔ گریٹ فل فن کارہ تھیں، زندگی نے ان کے ساتھ کچھ اچھا کھیل نہیں کھیلا، ان کے نصیب میں اچھے پتے نہیں آئے۔ کچھ عرصے بعد اسے والدین کی دنیا میں جانا پڑا۔ میرے تین ڈراموں میں روحی بانو نے عمدہ پرفارمنس دی، ان میں کرن کہانی، دُھند اور زیرزبر پیش شامل تھا۔ وہ حقیقت میں ٹیلی ویژن کی سپراسٹار تھیں۔ آج کل کا میڈیا تو نئی فن کارہ کو ایک ہی ڈرامے میں سپر اسٹار لکھنے لگ جاتا ہے ، فن کاروں میں مجھے روحی کی طرح بابرہ شریف کا رویہ بہت اچھا لگا۔ کرن کہانی میں تھوڑے سے کردار کے باوجود جب بھی بابرہ شریف مجھ سے ملتی ہیں، تو دُور سے دوڑ کر چلی آتی ہیں۔ ‘‘روحی بانو کا ایک اور مقبول ڈراما ’’دروازہ‘‘ 1981میں ٹیلی کاسٹ ہوا تھا۔ منو بھائی کے تحریر کردہ اس ڈرامے کی ڈائریکشن محمد نثار حسین نے دی تھی۔ اس میں آصف رضا میر ہیرو تھے، اسی طرح حسینہ معین کے لکھے ہوئے ڈرامے ’’دھند‘‘ میں ان کے ساتھ خالدہ ریاست تھیں۔ ڈراما سیریل ’’سراب‘‘ میں راحت کاظمی، طلعت حسین، نجمہ محبوب اور آصف رضا میر نمایاں کاسٹ میں شامل تھے۔ ’’زرد گلاب‘‘ بھی بے حد پسند کیا گیا۔ اداکار طلعت حسین نے جنگ کو بتایا کہ روحی بانو ایک ذہین، پڑھی لکھی اور باکمال اداکارہ تھیں۔ میں نے ان کے ساتھ دو تین ڈراموں میں کام کیا ۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں کو عروج دینے میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘ فلم انڈسٹری کے سینئر اداکار غلام محی الدین نے جنگ کو بتایا کہ روحی بانو نے میرے ساتھ دو فلموں میں کام کیا، جن میں ’’خدا اور محبت‘‘ اور ’’انسان اور فرشتہ‘‘ شامل تھی۔ وہ بڑی آرٹسٹ تھیں، ہم سب نے ان کا حق ادا نہیں کیا، اس لیے انہیں علاج کے لیے ترکی جانا پڑا۔ ترکی کے صدر کی بیگم نے انہیں علاج کے لیے بلایا اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے مشکلات میں زندگی بسر کی۔‘‘

روحی بانو کی چند مشہور فلمیں

٭پالکی (1975)، امنگ (1975)، انسان اور فرشتہ (1976)، راستے کا پتھر(1976)، انوکھی (1976)، گونج اٹھی شہنائی (1976)، زندگی (1978)، خدا اور محبت (1978)، دشمن کی تلاش (1978)، ضمیر (1980)، دل ایک کھلونا (1981)،کرن اور کلی (1981)، بڑا آدمی (1981)، کائنات (1983)، آ ج کا انسان (1984)، دشمن کی تلاش (1991)، سمجھوتہ (1995)

روحی بانو کے چند مقبول ڈرامے

٭کانچ کا پل ٭کرن کہانی ٭زیر زبر پیش٭ دھند ٭دروازہ٭زرد گلاب٭پکی حویلی ٭سہراب ٭ ایک محبت سو افسانے۔

تازہ ترین
تازہ ترین