اس نے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر اعتماد بھرے لہجے میں کہا سن او دریا! تو ہر بار میرے سینکڑوں ساتھیوں کی زندگی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ اے بے رحم دریا تیری ظالم لہریں ہمارے گھروندے تباہ کردیتی ہیں لیکن میں تجھے چیلنج کرتا ہوں کہ اگلے سال تیری سرکش لہریں گھروں کو تباہ تو کیا میرے ساتھیوں کے قدموں تک بھی نہیں پہنچ سکیں گی یہ کہہ کر اس نے دریا کے کنارے کو اپنے ہاتھ میں پکڑے بیلچے سے کھودنا شروع کر دیا۔ چھریرے بدن کے اس شخص کے بیلچے کا زمین پر ٹکراؤ ہونا تھا کہ اچانک لاکھوں ہاتھ بیلچے تھامے میدان میں کود پڑے۔ دریا کو اتنا گہرا کر دیا کہ اگلے سال جب سیلاب آیا تو اس کا پانی کناروں سے باہرتک نہ نکل سکا ۔ اس شخص جو کہا تھا کر کے دکھادیا۔ وہ شخص ماؤزے تنگ تھا۔ ماؤزے تنگ جس نے افیمی موالی چینیوں کو دنیا کی عظیم اقوام میں لاکھڑا کیا۔ کہتے ہیں کہ ماؤزے تنگ نے اپنی پوری زندگی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک چین کی بھوک ختم نہیں ہوگی پیٹ بھر کر نہیں کھاؤں گا۔
ارسطو نے کہا تھا بھوک انقلاب اور جرم کو جنم دیتی ہے افسوس ہماری بھوک صرف جرم جن رہی ہے۔ اس کی کوکھ سے انقلاب ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔آج پاکستان میں جہاں دیکھو نظام بدلنے کی آواز آرہی ہے۔ ایک خوشگوار آواز ہے نظام بدلنا۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس ملک کو تباہ کرنے والے اس نظام سے اپنے مفادات کشید کرنے والے ،اس نظام کی باریکیوں کو اپنی رکھیل بنائے رکھنے والے اسے تبدیل کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ زکوٰة،عشر ، فطرانہ اور قربانی کی کھالوں سے کیسا انقلاب آئے گا آپ خود اندازہ کرلیں ۔ مولانا طاھر القادری قسم کھا کر کہتے ہیں انہیں جلسے کیلئے ایجنسیوں نے سپورٹ نہیں کیا بلکہ لوگوں نے اپنے زیور بیچے ، کمال ہے پاکستان کے غریب عوام اتنے امیر ہوگئے کہ ایک جلسے کیلئے اپنے زیور تک بیچ ڈالے۔ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے اپنی اولاد بیچنے والی مخلوق اتنی امیر کب سے ہوگئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعی یہ نظام فرسودہ ہوچکا اور اب اسے تبدیل ہو جانا چاہیے سوال تو پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نظام فرشتے چلائیں گے یا اس کے لئے جرمن، فرانس سے قیادت درآمد کی جائے گی۔ جمہوری نظام دنیا کا سب سے زیادہ قابل اعتماد نظام ہے لیکن بدقسمتی سے اسے چلانے والے قابل اعتماد نہیں ۔ بحران نظام کا نہیں قیادت کا ہے اور بچاری قیادت وہ کاغذی شیر ہے جو ہمیشہ چھیچھڑوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک مقام یہ ہے کہ اس قیادت کی بددیانتی، بے اصولی اور خیانت کو چیلنج کرنے والے بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں کوئی سیر ہے تو دوسرا سوا سیر، کوئی چور ہے تو دوسرا گرہ کٹ، بس سمجھ لیں ٹھگی کا رنگ بازی کا دونمبری کا عالمی کپ ہے اور دونوں جانب اس فن میں یکتا کھلاڑی۔
لیڈر کیا ہوتا ہے؟ جسے ایک عام آدمی بھی کاپی کر سکے۔ اس جیسا بن سکے، اور لیڈرخود اپنی عوام کے کردار اور انداز زندگی کا آئینہ ہو۔ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ بنتے ہیں تو فرماتے ہیں میری تنخواہ عرب کے ایک مزدور بدو کی تنخواہ کے برابر ہوگی۔ کسی نے عرض کیا اے خلیفہ وہ تو بہت کم ہے آپ نے فرمایا کہ اگر وہ ایک درہم میں زندگی گزار سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔چودہ سو سال پہلے یہ بات آپ ﷺ کے یارِ غار نے کہی آج یوراگوائے کا صدر عملی طور پر ایسا کرکے بھی دکھا رہا ہے۔ خو سے موسیکا اپنی ساری تنخواہ دان کر دیتا ہے اور ایک کمرے کے مکان مین لمبی تان کر سوتا ہے۔اور ہماری قیادت،ہنسی آتی ہے، قول و فعل میں اتنا تضاد ، کہنا خود کو کالی کملی والے کے غلام ، دعویٰ آپﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور رہنا سونے کے محلوں میں، سفر کرنا جہاز کی قیمت والی گاڑیوں میں پہننا ریشم کی پوشاکیں ، اف اتنی بد عملی اتنی بددیانتی اتنی دروغ گوئی۔ خود کو لیڈر کہلانے والو، لیڈر بننے کیلئے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھنے پڑتے ہیں۔اربوں روپے کے خرچ سے انقلاب کے پوسٹرز تو چھپ سکتے ہیں انقلاب نہیں آتے۔
ایسا بھی نہیں کہ اس دھرتی نے قائد پیدا نہیں کئے، اصولوں پر زندگی گزارنے والے یہاں تک ان پر جان دینے والے پیدا نہیں کئے لیکن اب ہم شاید خود اتنے بداعمال ہو چکے ہیں کہ اپنے گناہ ہمیں ہماری قیادت کی شکل میں دیکھنے پڑرہے ہیں۔ قائد اعظم سخت بیمار تھے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ بھائی کیلئے دن رات تڑپنے والی دکھیاری بہن فاطمہ نے قائد کے پسندیدہ خانساماں کو کراچی سے بلایا ، آئے گا پکائے گا بھائی کو اس کے ہاتھ کا کھانا پسند ہے۔ کھانا عظیم قائد کو پیش ہوا آپ نے پہلے لقمے پر کہا کہ خانساماں کو کراچی سے کس نے بلوایا اور کیسے؟ فاطمہ بولیں بھیا میں نے سرکاری گاڑی میں طلب کیا ہے ضعیف ہاتھوں میں نوالہ رک گیا لرزش بڑھ گئی، فرمایا فاطمہ! اگر وہ میرے لئے آیا ہے تو سرکاری گاڑی میں کیوں؟ اس کا کرایہ میری جیب سے ادا کرو۔ ہے کوئی جو اب اس جیسی مثال پیدا کر سکے” ذات دی کوڑھ کرلی شہتیراں نوں جپھے“ قیادت کا دعویٰ کرنا کچھ اور ہوتا ہے قیادت کر کے دکھانا کچھ اور ۔ یہاں تو قیادت کا عالم یہ ہے کہ وہ عام ورکر سے ہاتھ ملانے کے بعد فوری طور پر ہاتھ دھونا نہیں بھولتی کہ کہیں غربت کے جراثیم ان میں سرایت نہ کر جائیں۔ کون قیادت کہاں کی قیادت۔ یہاں صرف حاکم ہیں۔ بادشاہ ہیں، ظل الٰہی ہیں اور باقی سب رعایا۔ قیادت کو تو اس خوف سے نیند نہیں آتی کہ ا گر دجلہ اور فرات کے کنارے پر ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کی پکڑ ہوگی۔ اگر عراق کے کسی دلدلی رستے پر ایک گدھا بھی ٹھوکر کھا گیا تو اللہ کو کیا جواب دوں گا اور یہاں اپنی حکومت کرنے کیلئے یا سامنے کی حکومت گرانے کیلئے لانگ مارچوں ،دھرنوں اور تحریکوں میں پندرہ بیس کارکنوں کا مارے جانا تحریک میں جان پڑنے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔بھتہ خوروں ٹارگٹ کلروں کو تحفظ فراہم کرنا کامیاب سیاست ہے۔ اپنے ”ٹور ٹپے“ کیلئے چھوٹے موٹے ہنگاموں میں درجن دو درجن افراد کا مارے جانا کوئی معانی نہیں رکھتا۔
پاکستان آج نظام کے بحران کا شکار نہیں، قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ قوم اب مختلف خیالات اور نظریات میں تقسیم گروہ ہے۔ ہم مذہب میں بھی تفریق کا شکار ہم سیاست میں تقسیم کا شکار اور نفرت میں ضرب در ضرب کے قائل ہیں،قیادت کیا اب آسمان سے اترے گی۔ کوئی مشین ایجاد ہوگی جس میں حب الوطنی ،خوف خدا ،عوام سے محبت، حرص و لالچ کی قید سے آزاد، آنے والے مشکل دنوں کا ادراک رکھنے کی صلاحیت، انصاف پر مبنی سوچ، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی قوت ، امت کی بھلائی کے اجزاء ڈالیں گے اور ایک صالح قیادت آکھڑی ہوگی۔” جیسا منہ ویسی چپیڑ“، جیسی قوم ویسے لیڈر، جیسی روح ویسے عمل، پھر انتظار کس چیز کا۔ طاقتور ،چرب زبان، بازی گر، جادو گر ہم سے ہمارے جذبات سے کھیل رہے ہیں انہیں یہ حق ہے کیونکہ ہم کونسا ایماندار ہیں کھر ے لوگ ہیں” جو جہاں ہے جیسا ہے“ کی بنیاد پر رج کے بے ایمان ہے۔ جب قوم کی بدقسمتی عروج پر ہو تو وہ اونٹ پر بھی بیٹھ جائے کتا اسے کاٹ ہی لیتا ہے۔ اور ہم تو پھر وہ لوگ ہیں جنہیں کوئی بھی پکار کر کہہ دے ارے بھیا کتا آپ کا کان کاٹ کر لے گیا ہم ہاتھ سے کان کو تلاش کرنے کے بجائے کتے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر ہمارے ساتھ ہونی بھی وہی چائیے جو کان کاٹ کر بھاگنے والے کے ساتھ ہوتی ہے۔ سو میرے گروہوں طبقوں فر قوں میں بٹے لوگو انجوائے کرو نئے اعلانات کو ، نئے نظام کو جس کی بوتل نئی ہوگی چم چم کرتی، لیکن اس میں شراب دیسی ہوگی اس کا نشہ بھی ویساہی ہوگا… چکرا دینے والا۔