• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم،کراچی

اگر بزرگ اکٹھے بیٹھے ہوں، تو عموماً اس طرح کے جملے زیرِگفتگو ہوتے ہیں،’’ارے بھئی، زمانہ بہت بدل گیا ہے، ہمارے وقتوں میں تو ایسا ہوتا تھا‘‘،’’ہمارا بھی کیا دَور تھا، جب ہر طرف امن و خوش حالی تھی۔بچّے، بڑوں کی عزّت کرتے تھے اورلحاظ بھی تھا ،مگر اب تو ادب رہا، نہ عُمر کا لحاظ اور نہ ہی رشتوں میں محبّت رہی-‘‘ہر زمانے کے لوگوں کو یہی لگتاہے کہ ہمارا دَور، آج کی نسبت بہت اچھا تھا-ماضی کا بھی اپنا ہی ناسٹلجیا ہوتا ہے-گئے وقتوں کی یادیں، سُنہرے خواب کی صُورت حافظے میں جھلملاتی رہتی ہیں- ایک ریسرچ کے مطابق ساڑھے تین سو سال قبل مسیح بھی لوگ یہی کہتے تھے اور ارسطو سے یہ قول منسوب کیاجاتا ہے کہ’’بچّے بگڑ گئے ہیں، ہمارا دَور تو بہت اچھا تھا-‘‘ موجودہ دَور میں بھی نئی اور پُرانی نسل کے مابین جنریشن گیپ کی بات ہوتی ہے۔بزرگوں اور نوجوانوںکے درمیان فاصلہ محسوس ہوتا ہے-

بلاشبہ ہرنئے دَور میں تعلیم، تہذیب اور معاشرت ہر چیز بدلتی ہے کہ بدلنا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے-جس دَور کا بھی جائزہ لیا جائے، تہذیبی اقدار، رہن سہن، ملنے جُلنے کے طریقے، لباس، فیشن اور رنگوں کا انتخاب بدلتارہا۔جیسا کہ ستّر کی دہائی کا فیشن کچھ اور تھا،2019ء کا کچھ اور ہے-پہلے میچنگ ضروری تھی، دوپٹا رنگوانا ایک کارِ درد تھا-ہاتھ سےترپائی اور بٹن ٹانکنے جیسے کام خواتین کی مہارت میں شمار ہوتے تھے-سوئیٹر بُننا ہر قبیل کی عورت کا شغل اور ہنر تھا-اب مختلف رنگوں کے کنٹراسٹ مثلاًدوپٹا گلابی، قمیص گولڈن اور غرارہ جامنی رنگ ’’فیشن سمبل‘‘ سمجھا جارہا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے سلائی،ترپائی اور سوئیٹر بُننے کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائےریڈی میڈ ملبوسات کو ترجیح دی جاتی ہے -پہلے لڑکوں کے لیے بھی مغرب تک گھر واپسی ضروری تھی اور مغرب کے بعد باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا،لیکن اب ملازمت سے چُھٹی ہی رات گئے ہوتی ہے-اس کے ساتھ ہی معاشرے میں کچھ تہذیبی رویّے بھی تھے-ہر گھر میںخاندان کے بزرگ قابلِ احترام مقام رکھتے تھے اور فیصلوں میں ان کی رائے مقدم رکھی جاتی تھی- عموماً گھر کےبچّے، بچّیاں،نوجوان اور بڑی عُمر کے افراد بھی بڑوں کے آگے سَر خم اور لہجہ نرم رکھتے تھے- نیز،بچّوں کی تربیت اور ان کی شادیوں میں بزرگوں کی رائےکو فوقیت دی جاتی تھی۔

اصل میں جنریشن گیپ کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ جب دو افراد، مختلف زمانے، ماحول اور حالات میں آنکھ کھولتے ہیں، تو عمومی طور پر اُن کے معیارات مختلف ہوجاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ1960ء میں پہلی بار جنریش گیپ کا تصوّر وجود میں آیا، جس کے بعد یہ بڑھتا ہی چلا گیا۔اگراس جدیدہ دَور کی بات کریں، تو اس کے بھی اپنے تقاضے، چیلنجز ہیں-خواتین ہر شعبۂ ہائے زندگی میں نمایاں کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ سات سمندر پار کے دروازے کُھلے ہیں۔ نت نئے آپشن ہر فرد کو میسّر ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بڑا اہم بن جاتا ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ نئی اور پُرانی نسلوں کے درمیان ’’ ہمارےاور تمہارے دَور‘‘ کا جھگڑا نمٹ جائے-اس کے لیے سب سے پہلےشکایتیں، گلے شکوے اور ناقدری کا رونا رونے کی بجائے، بہترہے کہ مفاہمت کی صُورت تلاش کی جائے- نہ صرف تبدیلیوں کو قبول کیا جائے، بلکہ بدلتی مصروفیات کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ بھی کریں اوراس کے لیے پہلا قدم بڑوں ہی کو اُٹھاناہوگا،اپنے دِل میں گنجایش بڑھانی ہوگی،شکوے،شکایت کی بجائے محبّت اور شفقت کا معاملہ اختیار کرنا ہوگا- یہ حقیقت ہے کہ نئی نسل، ماحول کا پہلے سے زیادہ دباؤ برداشت کر رہی ہے۔ پھر زندگی اتنی سادہ بھی نہیں رہی، جتنی پہلے تھی۔ نئی نسل کو بُرا بھلا کہنے کی بجائےان کے احساسات سمجھیں، ان کا موقف سُنیں اور وقت بھی دیں۔ یاد رکھیے، تعلق بہتر بنانے کے لیےتھوڑا وقت بھی غنیمت ہے-نئی نسل کی مائیں زمانے کے مطابق، نئے طور طریقوں سے بچّوں کی پرورش اور تربیت کرنا چاہتی ہیں،انہیں اس کی آزادی اور اختیار دیں، اہم فیصلوں میں شریک کریں اور ان کی رائے کوبھی اہمیت دیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج نئی نسل کے رویّوں میں اعتماد اور لہجوں میں کھراپن ہے۔ اب ’’وہ کیوں؟‘‘ اور’’ کیوں نہیں؟‘‘جیسے سوال اُٹھاتے ہیں۔نوجوان خود مختاری اور اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ان سے مشاورت ضرور کریں۔ بلاشبہ بڑے، چھوٹوں کے لیے اچھا سوچتے ہیں،لیکن کبھی کبھی انہیں اپنی بھی کرنے دیں۔ کہیں کہیں ان کے فیصلے درست اور بہتر بھی ثابت ہوتے ہیں۔

ایک چیز جو نئی اور پُرانی نسل دونوں کے لیے ضروری ہے، وہ ہے خیالات کا تبادلہ۔جنریشن گیپ ختم کرنے کے لیے نئی نسل کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے بڑوں کی بات احترام سے سُنیں اور ان کا کہا بھی مانیں۔ گھر کے بزرگ گھنیرے سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں اور پُرانے گھنے درختوں کی چھاؤں بڑا آرام دیتی ہے۔ کبھی کبھی ان کے سائے میں بھی وقت گزاریں- اپنی کرنی بھی ہو، تو زبان اور لہجہ نرم رکھیں- یاد رکھیں، ہر پُرانی چیزغلط اور ہر نئی چیز درست نہیں ہوتی- زمانے کی نئی تبدیلیاں اپنی جگہ، محبّت زندگی کو بہتر بنانے کا پُرانا نسخہ ہے۔ نئی نسل ہو یا پُرانی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ دونوں کومل کر ساتھ چلنا ہے اور ایسے میں محبّت بَھرا تعلق ہی فاصلوں کے درمیان پُل بن سکتا ہے،لہٰذا اس تعلق کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں- محبّت فاتحِ عالم ہے اور جو دِلوں کو فتح کرنے کا گُر جان لے، وہی زمانے کا فاتح بنتا ہے۔ دونوں نسلوں کو محبّت اور اچھے رویّوں سے آپس میں اعتماد کا رشتہ قائم رکھنا ہوگا، تاکہ تیزی سے بدلتی دُنیا میں خوشی اور سُکون کے ساتھ زندہ رہا جاسکے۔ 

تازہ ترین