• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الطاف علی بریلوی اور فروغِ تعلیم
الطاف علی بریلوی

اُردو قطعہ نگاری کے بے تاج بادشاہ، رئیسؔ امروہوی نے اُنہیں ’’سرسیّد ثانی‘‘ قرار دیا تھا۔ سبب، تعلیمی خدمات اور علم کے فروغ کے سلسلے میں وقف کیے جانے والے اُن کے دن رات تھے۔ یہ ذکر ہے اصلاحِ قوم کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ بسر کرنے والی بے مثل شخصیت، سیّد الطاف علی بریلوی کا۔ اُن کا قائم کردہ ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ آج بھی سرسیّداحمد خان اور خود الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ تو محض تعلیمی خدمات کا ایک سرسری سا تذکرہ تھا، لیکن الطاف علی بریلوی، جس کتاب کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، وہ ’’حیاتِ حافظ رحمت خان ‘‘ ہے۔ 1934ء میں شایع ہونے والی یہ کتاب پون صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود الطاف علی بریلوی کی شخصیت کا ایک حوالہ ہے۔

یہ واقعہ ہے، 10 جولائی 1905ء کا، جب روہیل کھنڈ، یوپی (بھارت) کے محلّے عقب کوتوالی، شاہ آباد میں ایک متوسّط گھرانے میں ایک بچّے نے جنم لیا۔ خاندان کے مورثِ اعلیٰ، سیّد عنایت اللہ شاہ تھے، جو درویش کے طور پر مشہور تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ الطاف علی بریلوی کے آبا و اجداد مدتّوں پہلے وسط ایشیا سے ہجرت کرکے ہندوستان کو مستقل آماج گاہ بناچکے تھے۔ الطاف علی بریلوی کے دادا، سیّد اصغر علی، ملنے جلنے والوں میں ’’میاں‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور تجارت کرکے گزر بسر کیا کرتے۔ دادی بھی تعلیم یافتہ تھیں۔ ایسے دَور میں کہ جب خواتین میں لکھنے پڑھنے، تجارت اور ملازمت کا رجحان بہت کم تھا، پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں۔ الطاف علی بریلوی کے دادا کے بڑے بھائی اکبر علی اور ان کے چھوٹے بھائی اصغر علی تجارت میں دیانت کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بہار اور بنگال اُن کی تجارت کے مراکز تھے۔ اصغر علی کی اولاد میں دو بیٹے سیّد لائق علی اور سیّد اسحاق علی اور بیٹی مستجاب بیگم تھیں۔ یہی سیّد اسحاق علی، الطاف علی بریلوی کے والد تھے۔اگر دادا ’’میاں‘‘ کے نام سے جانے جاتے، تو والد ’’بھائی جان‘‘ کی نسبت سے مشہور تھے۔ لکڑی کی تجارت کرتے، جس میں محنت اور دیانت کے عُنصر نے ’’برکت‘‘ کی فضا پیدا کر دی تھی اور معاشی آسودگی نے کاروبارِ حیات کو کچھ آسان بنا رکھا تھا۔ گھرانہ اس قدر تہذیب یافتہ تھا کہ پرانے وقتوں ہی سے بھائی بہنوں اور اُن کی اولاد میں نہ صرف ملنا جُلنا تھا، بلکہ ایک دوسرے کے لیے ادب آداب اور خلوص و محبت کے احساسات گویا لازمی عناصرتھے۔ جب الطاف علی بریلوی کی مکتبی تعلیم کا آغاز ہوا، تو ہندوستان سیاسی تبدیلیوں کے دَور سے گزر رہا تھا۔ مقامی لوگوں میں چاہے وہ ہندو تھے، یا مسلمان، انگریزوں کے خلاف شدید احساسات پائے جاتے تھے۔اگر الطاف علی بریلوی کی پیدایش کا سال’’ تقسیمِ بنگال‘‘جیسے اہم ترین سیاسی واقعے پر مبنی تھا، تو اُن کی نَوعُمری کا زمانہ پہلی عالم گیر جنگ(1914-18 )کی تباہ کاریوں سے پُر تھا۔یوں اُن کی زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں قومی اور عالمی منظرنامے ہلچل سے بھرپور تھے۔ یہ تو خارجی معاملات تھے۔ اُدھر داخلی محاذ پر کچھ یوں ہوا کہ ابتدائی تعلیم کے بعد طبیعت کی خرابی کے باعث تعلیم میں تعطّل پیدا ہوا، تاہم سلسلہ منقطع نہ ہوا۔دورانِ تعلیم اس قدر محنت کی کہ اساتذہ کی نظروں میں آگئے اور اُس زمانے کے ذہین طلبہ میں نصابی سرگرمیوں میں طاق ہونے کے باعث ’’ہیڈ پریفیکٹ‘‘ قرار پائے۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں کرکٹ، ہاکی اور کبڈی میں دل چسپی لیتے۔مذہبی تہواروں سے بھی خاص لگاؤ رکھتے۔نو عُمری ہی کے دنوں کی بات ہے کہ گھر سے کچھ ہی دُو رواقع ’’موتی پارک‘‘ جانا گویا کارِ معمول تھا کہ جہاں دن رات سیاسی جلسے منعقد ہوتے اور نام وَر ہندو اور مسلمان رہنما، سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پُر جوش تقریریں کرتے اور سامعین و حاضرین کے دلوں کو گرماتے۔ ایسے میں الطاف علی بریلوی کے معصوم ذہن میں بھی آزادی حاصل کرنے کی شمع روشن ہو جاتی۔1925ء میں بریلی کے ایڈورڈ میموریل اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اسی زمانے میں انہوں نے بریلی میں ’’انجمن نوجوانانِ اسلام ‘‘ کی بنیاد ڈالی، جس کے بہت سے قومی مقاصد میں سے ایک’’ دارالمطالعہ‘‘کا قیام بھی تھا،تاکہ نوجوانوں اور طلبہ میں کتاب سے اُلفت قائم کی جاسکے۔یہی وہ سال بھی تھا کہ اُن کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا اور اب خانگی اُمور کے مسائل و معاملات بھی کارِ حیات کا حصّہ بن گئے۔1926ء میںمزید تعلیم کے لیے بریلی کالج میں داخل ہوئے۔یہاں سے گیارہویں جماعت کا امتحان پاس کرکے 1927ء میں علی گڑھ چلے آئے۔وہی علی گڑھ کہ جس نے مسلمان قوم کو عالمِ بے سروسامانی میں منزل کی راہ دکھائی۔ یہاں پہنچ کر الطاف علی بریلوی کو محسوس ہوا کہ دنیا بہت وسیع ہے اور تعلیمی سفر کے دوران کرنے کو بہت سے کام ہیں،خاص کر قومی اور سیاسی نوعیت کے کام،سو اب کام کرنے کے لیے پہلے سے بے تاب اور بے قرار طبیعت کو ایک گونہ سکون میسّر آیا۔یہاں پروفیسر رشید احمد صدیقی، خواجہ غلام السیّدین، پروفیسر ڈاکٹر ہادی حسن اور دیگر اساتذہ موجود تھے کہ جو طلبہ کے ذہنوں کو بیدار کرنے میں بہت طاق تھے۔

الطاف علی بریلوی اور فروغِ تعلیم
مجاہد بریلوی

1929ء میںبی اے کے امتحان میں کام یابی کے بعد قانون کی تعلیم کی جانب توجہ دی اور 1930ءایل ایل بی میں داخلہ لےلیا ۔اس میں اپنی خواہش کم اور والد کی اس شدید خواہش کا دخل زیادہ تھا کہ جو اپنے بیٹے کو اعلیٰ درجے کے وکیل کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وکالت کی تعلیم شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال کا عرصہ بہت تیزی سے گزرگیا، لیکن اس دوران اُنہیں احساس ہوا کہ قانون کی پڑھائی سے طبیعتاً مانوس نہیں ہو پارہے اور یہ نظر آنے لگا کہ اب یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی، سو رفتہ رفتہ اپنی طبیعت کے عین مطابق تعلیمی اور سماجی خدمات میں زیادہ وقت صرف کرنے لگے۔ 1931-32ء میں ’’آل انڈیا مسلم نیشنلسٹ کانفرنس‘‘ کا قیام عمل میں آیا،تو الطاف علی بریلوی نے اس کے اغراض و مقاصد کی نہ صرف بہ شدّومد تائید کی، بلکہ بریلی میں اُس کی ایک شاخ بھی قائم کی اور اُس کے لیے تحریری طور پر راہ ہم وار کی۔ 1932-33ء کا سال آپہنچا۔ ملازمت تلاش کرنے کی کوشش جاری رہی۔ تاہم، اُفتادِ طبع کے باعث کوئی ملازمت نہ مل سکی۔ خانگی الجھنیں راہ تکنے لگیں۔ گھریلو مسائل و معاملات سر اٹھانے لگے۔ بیوی بچّوں کی ذمّے داریاں رہ رہ کر یہ تقاضا کرنے لگیں کہ جلدازجلد کسی ملازمت کا بندوبست ہوجائے۔ ان سب پریشانیوں کے باوجود لکھنے پڑھنے اور قومی اُمور میں دل چسپی کا شوق کسی طرح ماند نہ پڑا۔ 1934ء وہ سال تھا کہ جب الطاف علی بریلوی کی کتاب ’’حیاتِ حافظ رحمت خاں‘‘ منظرِ عام پر آئی۔ روہیل کھنڈ کی تاریخ پر مبنی اس کتاب میں جاں باز روہیلوں اور خاص طور پر حافظ رحمت خاں کے شب ور وز کا احاطہ کیا گیا۔ کتاب کی اشاعت کے بعد لوگ الطاف علی بریلوی کے نام سے واقف ہونے لگے۔ مذکورہ کتاب میں اُنہوں نے ’’داستانِ حیات‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مقدمے میں اُن دنوں کے حالات کا ذکرکچھ ان الفاظ میں کیا ہے:’’میری بیگم، سیّدہ انیس فاطمہ اور میرے والد، محترم سیّد اسحٰق علی صاحب مرحوم کا استقلال و ایثار بھی بے مثل تھا۔ان لوگوں نے میری اس علمی و قومی خدمت کے سلسلے میں شب و روز کی مصروفیت کو نہ صرف خوش دلی کے ساتھ انگیز کیا، بلکہ تین سال کے طویل عرصے میں ایک دفعہ بھی یہ تقاضا نہ کیا کہ میں اسے ترک کر کے کچھ روزی روزگار کی بھی فکر کروں،درانحالیکہ میں صاحبِ اولاد تھا اور ہمارا خاندان ان دنوں سخت معاشی بحران میں مبتلا تھا۔‘‘وہ سر سیّد کے اُس پیغام کی حقّانیت کو صدقِ دل سے مانتے تھے کہ جس میں تعلیم کو مسلمانانِ ہند کے جملہ مسائل کا حل بتایا گیا تھا۔ اوّل اسکول کی سطح پر اور پھر کالج کی آزادانہ فضاؤں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اُنہیں بارہا سر سیّد کے افکار و کردار میں قوم کی نجات کا سامان نظر آتا،ان کے نزدیک زندگی کا مقصد، تعلیم کے فروغ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

1935ء میں انہوں نے اپنے چند مخلص اور مستعد ساتھیوں کے تعاون سے سرسیّد کے نقشِ پا کی پیروی کرتے ہوئے ’’اسلامیہ گرلز اسکول ،بریلی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ساتھ ہی ’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، علی گڑھ‘‘ کے دفتر کا انتظام سنبھال کر اسے فعال بنانے کے لیے ہمہ جہتی رُخ سے کام کیا۔ عمارت کی تزئین و آرایش سے لے کر اُس کی تصنیف و تالیف کے کاموں کی رفتار کو بھی دو چند کر دیا اور چند ہی دنوں میں یہ محسوس ہونے لگا کہ سرسیّد کا ایک دیوانہ، شمعِ علم کا پروانہ بن کر اُس پرگویا نثار ہونے کا تہیّہ کیے بیٹھا ہے۔ کام کی رفتار کو مزید تیز کرنے کے لیے انہوں نے ہندوستان کے دُور دراز علاقوں کا دورہ بھی کیا اور وہاں تعلیمی پس ماندگی پرایک رپورٹ مرتّب کی، تاکہ اربابِ حل و عقد اُس کے لیے دامے درمے قدمے معاونت کر سکیں۔دسمبر 1936ء میں ’’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘‘ کے پچاس برس مکمّل ہونے کو تھے۔ الطاف علی بریلوی کی رائے پر اس موقعے کو شایانِ شان طور پر منانے کا انتظام کیا گیا۔اس کانفرنس کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا۔شعبہ جاتی تقسیم کچھ یوں رہی۔’’ابتدائی تعلیم و مدارس(اردو)‘‘، ’’ثانوی تعلیم‘‘،’’اعلیٰ تعلیم‘‘،’’تعلیمِ نسواں‘‘، ’’تعلیمِ بالغاں‘‘،’’اسلامی علوم و فنون‘‘،’’مدارسِ اسلامی‘‘ کے علاوہ چند اور شعبے بھی شامل تھے۔گو کہ کانفرنس کا انعقاد 1937ء میں عمل میں آیا، تاہم کارگزاری اور اثر آفرینی کے باعث یہ تقریب یادگار ثابت ہوئی۔ 1937-38 ءمیں تعلیمی مقاصد کے تحت پٹنہ،بہار کا دورہ کیااور مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تجاویز مرتّب کیں۔اسی سال اُن کی کتاب’’The Struggle of Muslims in Education ‘‘سامنے آئی۔ 1940ء میں پونا میں تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی اور مقصد یہ تھا کہ تعلیم کو سستا اور عام کیا جائے۔ الطاف علی بریلوی نے اس سلسلے میں انتہائی فعال کردار ادا کیا۔1941ء میں انہوں نے ’’انجمن مصنّفین‘‘ کی بنیاد رکھی کہ جس کا مقصد مشرقی علوم و فنون کو فروغ دینا،دوسری زبانوں کے ادبی و تعلیمی مضامین کو تراجم کی شکل میں سامنے لانا ،علمی اور ادبی جریدے کا اجراء وغیرہ تھا۔یہی وہ سال بھی تھا کہ انہوں نے ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔تاہم یہاں بھی اُن کے پیشِ نظر، اوّلین مقصد، تعلیم کا فروغ رہا۔1942ء میں سہ ماہی ’’مصنّف‘‘ کا اجراء کیا،جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اہلِ علم و ادب میں اپنی پہچان کروا لی۔الغرض یہ کہ الطاف علی بریلوی ہمہ وقت تعلیم، کتاب کی اہمیت اور اُس کے فروغ کے بارے ہی میں سوچا کرتے۔ اسی ذیل میں انہوں نے 1944 ءمیں ’’بیت المصنّف‘‘ کا افتتاح کیا۔ اُن کے گھر سے متصّل ایک کمرے میں کتابیں،رسائل،اخبارات پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجّہ کرتے۔ 1946ء کا انتخابی معرکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے مترادف تھا، لہٰذا الطاف علی بریلوی نے بھی مسلم لیگ کے ٹکٹ پربریلی سے انتخابات میں حصّہ لینےکا ارادہ کیا،تاکہ تعلیمی میدان میں مزید تن دہی کے ساتھ کام کرسکیں،لیکن اُنہیں ٹکٹ نہ مل سکا۔ اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا، تو اس بات کو شاید اپنی ہتک پر محمول کرتے ہوئے مسلم لیگ کا مخالف ہو جاتا،تاہم سرسیّد کے سچّے پیروکار ہونے کے ناتے، الطاف علی بریلوی نے اس بات سے بے نیاز ہوکر کر مسلم لیگ کی حمایت جاری رکھی۔ 

الطاف علی بریلوی اور فروغِ تعلیم
مصطفیٰ علی بریلوی

برّصغیر کے سیاسی اُفق پر 1947ء کا ہنگامہ خیز اور فیصلہ کُن سال شروع ہوا اور بالآخر14اگست کو جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا، تو الطاف علی بریلوی ہندوستان ہی میں رہ کر مسلمانوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے، لیکن وہاں پیش آنے والے انتہائی نامساعد حالات نے اُنہیں نئی مملکت کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کردیااور یوں 1950ء میں پہلے ڈھاکا بعدازاں، کراچی پہنچ گئے۔ یہاں بھی وہ ایک بار پھر اُسی تعلیمی سفر کی طرف متوجّہ ہوئے کہ جس کی بنیاد پر ہندوستان میں نیک نامی کمائی تھی۔1951ء میں کراچی میں ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اغراض و مقاصد بہ مطابق، علی گڑھ تحریک تھے، یعنی فروغِ تعلیم کے لیے دیوانہ وار کام کرنا۔ مذکورہ برس ہی ’’العلم‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی پرچے کا اجراء کیا، جس نے بہت جلد سنجیدہ اذہان کو متوجّہ کرلیا۔ ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے تحت ماہ بہ ماہ اجلاس منعقد کیے، جس میں مشاہیر شرکت کرتے، مقالے پڑھے جاتے، فروغِ تعلیم کی تجاویز پیش کی جاتیں اور اُنہیں مقتدر حلقوں تک ’’العلم‘‘ کے ذریعے پہنچایا جاتا۔ 1954ء میں انہوں نے تعلیم اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے ذیل میں ایک بڑا قدم اٹھایا اور ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ کی بنیاد رکھی۔ 1956 میں ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ نے لائبریری کی بِنا بھی ڈال دی۔ خود الطاف علی بریلوی کی جمع کی گئی کتابوں کے علاوہ اخبارات اور رسائل اس کا حصّہ بنائے گئے۔1960ء میں انہوں نے جنرل ایوّب خاں کی بنیادی جمہوریت پر مبنی انتخابات میں حصّہ لیا اور کام یاب ہوکر سماجی، فلاحی اور تعلیمی میدانوں بے غرض خدمات انجام دیں۔1964ء میں اُن کے تحریر کردہ خاکوں پر مبنی کتاب ’’راہی اور راہ نما‘‘ سامنے آئی۔ پھر تعلیم کے سلسلے میں چند ایک کتابیں تحریر کرنے کے بعد 1969ء میں خاکوں کی دوسری کتاب ’’چند محسن چند دوست‘‘ زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوئی۔ درمیان میں چند اور کتابیں تحریر کیں اور آخری کتاب ’’تخلیقات و نگارشات‘‘ 1985 میں سامنے آئی۔1986ء وہ سال تھا کہ جب سر سیّد کے اس سچّے پیروکار نے دنیا سے کوچ کیا۔ الطاف علی بریلوی کی پوری زندگی کا احاطہ کیا جائے، تو دو باتیں تکرار سے سامنے آتی ہیں۔ ایک، مسلسل کام، دوسرا، فروغِ تعلیم۔ بلاشبہ، اگر قوم کو سرسّید کے ایسے ہی چند مخلص پیروکار میسّر آجائیں، تو ہمارا ملک بھی چند ہی برسوں میں تعلیم کے میدان میں بہت آگےجاسکتا ہے۔

الطاف علی بریلوی کی زندگی ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ اُن کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ اُن کی شخصیت پر ڈاکٹر کہکشاں ناز نے پاکستان اسٹڈی سینٹر،جامعہ کراچی سے ڈاکٹر جعفر احمد کی زیرِنگرانی پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اُن کا مقالہ ’’سیّد الطاف علی بریلوی کی تعلیمی،علمی اور سیاسی خدمات‘‘ کے عنوان سے جامعہ کراچی سے شایع ہوچکا ہے۔الطاف علی بریلوی کی اہلیہ، سیّدہ انیس فاطمہ بھی کئی کتابوں کی مصنّفہ تھیں۔ اُن کی اولاد میں چار بیٹیاں اور چھے بیٹے شامل ہیں۔ دو بیٹے حیات ہیں۔ سیّد طارق علی تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں، جب کہ سیّد مجاہد علی صحافتی حلقوں میں مجاہد بریلوی کے نام سے معروف ہیں اور کئی عشروں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہیں۔ بیٹیوں میں سیّدہ سلطان فاطمہ، سیّدہ برجیس فاطمہ، سیّدہ تنویر فاطمہ اور سیّدہ نسیم فاطمہ شامل ہیں۔اُن کے بھتیجے، سیّد مصطفیٰ علی بریلوی بھی اپنے چچا کے نقشِ قدم پر چلے۔ تصنیف و تالیف اور تعلیم اُن کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ کئی کتابیں تصنیف کیں۔ الطاف علی بریلوی کے انتقال کے بعد ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘کا انتظام و انصرام اُن کی نگرانی میں رہا۔ سہ ماہی پرچہ ’’العلم‘‘ بھی اُسی شان سے نکلتا رہا، جیسا اُن کے چچا کی زندگی میں نکلتا تھا۔ مصطفیٰ علی بریلوی اب حیات نہیں۔ اُن کی اولاد میں مجتبیٰ علی سب سے بڑے ہیں اور ’’آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس‘‘کے اُمور کی انجام دہی میں مشغول ہیں۔ دیگر بیٹوں میں اصطفیٰ علی اور ارتضیٰ علی شامل ہیں۔

تازہ ترین