• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عطیہ خداوندی، حضرت شیث علیہ السّلام
حضرت شیث علیہ السّلام سے منسوب مزارات میں سے ایک ، جوایودھیا، بھارت میں ہے

حضرت آدم علیہ السّلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی، ہابیل کو قتل کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے اُسے کوّے کے ذریعے بھائی کی لاش دفنانے کا طریقہ بتایا، جس پر عمل کرتے ہوئے اُس نے لاش دفنا دی۔ اب اُسے اپنے والد کے غصّے کا خوف تھا۔ اس موقعے پرشیطان نے قابیل کو گھر سے بھاگ جانے کی ترغیب دی، کیوں کہ اُسے یہ خوف لاحق تھا کہ اگر قابیل، حضرت آدمؑ کے پاس رہا، تو کہیں توبہ و استغفار کے بعد دوبارہ راہِ حق پر نہ آ جائے۔ چناں چہ اُس نے قابیل سے کہا’’ اب تجھے تیرے والد زندہ نہیں چھوڑیں گے، تجھے قتل کر ڈالیں گے، تُو یہاں سے بھاگ جا۔‘‘ قابیل کو تو پہلے ہی اس بات کا خوف تھا، لہٰذا وہ یمن فرار ہوگیا، جہاں اُس نے سکونت اختیار کی اور بعدازاں اُس نے شادیاں بھی کیں، جن سے اولادِ کثیر پیدا ہوئی۔ قابیل نے اپنے والد کے دینِ حق سے بغاوت کرکے پہلے آتش پرستی شروع کی، پھر شیطان نے اُسے پتھر سے بُت بنانے کا طریقہ سِکھا دیا، یوں قابیل اور اُس کی اولاد نے ایک اللہ کو چھوڑ کر بُت پرستی شروع کردی۔ دنیا میں قتل و غارت، حسد و فساد اور بُت پرستی کی بنیاد قابیل ہی نے رکھی۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’دنیا میں جب بھی کوئی ظلم سے قتل ہوتا ہے، تو اُس کا ایک گناہ، حضرت آدم علیہ السّلام کے بیٹے، قابیل کی گردن پر ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ شخص ہے، جس نے ظالمانہ قتل کی ابتدا کی اور یہ ناپاک طریقہ جاری کیا‘‘۔ (مسند احمد)

حضرت شیث علیہ السّلام کی وِلادت

حضرت آدمؑ کو جب بیٹے کے قتل کی خبر ملی، تو وہ بہت غم زدہ ہوگئے، کیوں کہ ہابیل نہایت سعادت مند، فرماں بردار، نیک اور شائستہ نوجوان تھا۔ اُس کے ان ہی اوصافِ حمیدہ کی بناء پر حضرت آدمؑ کو اُمید تھی کہ وہ اللہ کے دین کو آگے بڑھانے میں اُن کا معاون و مددگار ثابت ہوگا۔ نیز، بعض روایات کے مطابق، ہابیل کی شہادت کا بنیادی سبب یہی تھا کہ قابیل کو بھی اندازہ ہو چُکا تھا کہ والد کے بعد نبوّت کا تاج نیک سیرت، ہابیل ہی کے سَر سجے گا اور اسی حسد نے اُسے بھائی کے قتل پر اُبھارا۔ ہابیل کے قتل کے بعد، حضرت آدمؑ اور اماں حوّاؑ بہت اداس رہا کرتے اور بیٹے کو یاد کرکے گھنٹوں آنسو بہایا کرتے تھے۔ حضرت آدمؑ، اللہ تعالیٰ سے دُعا فرمایا کرتے تھے کہ’’ اے اللہ! مجھے ایسی اولاد عطا فرما، جو تیرے دین کو دنیا میں پھیلانے میں میری معاون و مددگار ہو اور میرے بعد بھی تیرے پیغام کو دنیا میں عام کرے، میری صحیح جانشین ہو اور دنیا میں تیری وحدانیت کی عَلم بردار ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کی دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا اور ایک نیک ،صالح بیٹے کی بشارت سے مطلع فرمایا، چناں چہ کچھ ہی عرصے بعد حضرت شیث علیہ السّلام پیدا ہوئے۔ حضرت آدمؑ اور امّاں حوّاؑ اُن کی پیدائش پر بےحد خوش تھے۔ یہ حضرت آدم علیہ السّلام کے تیسرے بیٹے تھے اور اُس وقت اُن کی عُمر 130سال تھی۔ امّاں حوّا علیہ السّلام نے صاحب زادے کا نام ’’شیث ‘‘ رکھا، جس کے عربی میں معنیٰ’’عطیۂ خداوندی‘‘ کے ہیں، یعنی’’ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کیا گیا خُوب صورت و خُوب سیرت تحفہ۔‘‘ حضرت شیث علیہ السّلام حُسن و جمال، شکل و صُورت اور عادات و اطوار میں اپنے والد سے بہت زیادہ مشابہ تھے۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ کو آپؑ سے بہت محبّت تھی۔

تعلیم و تربیت

حضرت آدم علیہ السّلام، حضرت شیث علیہ السّلام کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ۔ آپؑ کو اس بات کا علم ہوچُکا تھا کہ اُن کی اولاد میں سے یہ بچّہ اُن کا جانشین ہوگا، چناں چہ اُنہوں نے شروع ہی سے اُن کی تربیت پر خصوصی توجّہ دی۔ آپؑ، حضرت شیثؑ کو جنّت کا احوال سناتے، اچھے اور بُرے کی پہچان کرواتے۔ جوں جوں حضرت شیث علیہ السّلام بڑے ہوتے گئے، اُن کی پوشیدہ صلاحیتیں اور والدین کی تعلیم و تربیت رنگ لاتی رہی۔ حضرت آدمؑ نے اُن کو درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ کے خُوب صورت اور منفرد طریقے سِکھائے۔ اُنہیں دن و رات کی گھڑیوں کی پہچان کروائی، ان اوقات میں ہونے والی عبادتوں کی تعلیم دی، اس کے علاوہ ’’ طوفانِ نوح ؑ‘‘ کے بارے میں بھی آگاہ کیا، جو کچھ عرصے بعد آنا تھا۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حوّاؑ کو حضرت شیثؑ سے بڑی اُمید تھی، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُن کا ایک بیٹا قتل ہوگیا، دوسرا شیطان کا پیروکار بن کر کفر کے راستے پر چل نکلا تھا، اب اللہ کے دین کو آگے پھیلانے اور شیطان کے شر کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت آدم علیہ السّلام کے بعد حضرت شیث علیہ السّلام ہی تھے۔ چناں چہ، جب حضرت آدم علیہ السّلام کی وفات کا وقت قریب آیا، تو اُنہوں نے حضرت شیث علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ اور جانشین نام زَد کیا۔ 960برس کی عُمر میں حضرت آدمؑ نے وفات پائی۔ حضرت شیث علیہ السّلام نے حضرت جبرائیل امینؑ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق والد، حضرت آدمؑ کی تدفین کی۔

حضرت شیث علیہ السّلام نبوّت کے منصب پر

اللہ ربّ العزّت نے حضرت شیث علیہ السّلام کو نبوّت کے عظیم منصب پر فائز فرمایا اور اولادِ کثیر سے نوازا۔پھر یہ کہ اُن کی اولاد نہایت فرماں بردار اور نیک بھی تھی، جو اپنے والد کے ساتھ تبلیغِ دین کے کاموں میں مصروف رہتی۔روایت میں ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر 100صحیفے نازل کیے اور چار کتابیں۔ ان 100صحیفوں میں سے 50صحیفے حضرت شیث علیہ السّلام پر اُترے‘‘(ابنِ کثیر)۔ گو کہ قرآنِ کریم میں جن 25 انبیائے کرام علیہم السّلام کے اسمائے گرامی مذکور ہیں، اُن میں حضرت شیث علیہ السّلام کا نام شامل نہیں، تاہم احادیثِ مبارکہ میں اُن کے نبی ہونے کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔حضرت شیث علیہ السّلام نے اپنی پوری زندگی والد کی دی ہوئی تربیت کے تحت اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی میں صَرف کی۔ آخری عُمر میں زیادہ ضعیف ہونے کی وجہ سے گوشہ نشین ہوگئے تھے، لیکن اولاد آپؑ کے کام کو آگے بڑھاتی رہی۔ حضرت شیث علیہ السّلام اپنے بھائی، قابیل کی اولاد کے کفر و شرک میں مبتلا ہونے اور شیطان کا آلۂ کار بنے رہنے کی وجہ سے بڑے فکرمند رہتے تھے اور اُنہیں راہِ راست پر لانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے، جنہوں نے اپنے باپ، قابیل کی شکل کے بُت بنا کر اس کی پوجا شروع کردی تھی۔ روایت میں ہے کہ دنیا میں موجود تمام انسان یعنی بنی آدمؑ، حضرت شیثؑ ہی کی اولاد ہیں، کیوں کہ ہابیل تو محض 20برس کی عُمر میں اپنے بھائی، قابیل کے ہاتھوں شہید کردئیے گئے تھے اور اُنہوں نے کوئی وارث بھی نہیں چھوڑا تھا، جب کہ دوسرے بیٹے، قابیل کی اولاد شیطان کی پیروکار، اللہ کی نافرمان اور کفر پر گام زَن تھی، جسے طوفانِ نوحؑ میں غرق کردیا گیا تھا۔مسلمانوں کی طرح یہودی اور عیسائی بھی حضرت شیث علیہ السّلام کو حضرت آدمؑ و حوّاؑ کا تیسرا بیٹا، نبی اور اُن کا جانشین تسلیم کرتے ہیں، جب کہ وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ موجودہ تمام انسان حضرت شیث علیہ السّلام کی اولاد ہیں۔

حضرت شیث علیہ السّلام کی لوگوں کو نصیحت

حضرت شیث علیہ السّلام لوگوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ’’ سچّا مومن وہ ہے، جو اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہو، نیک اور بَد کو جانتا ہو، بادشاہِ وقت کا حکم بجا لاتا ہو، والدین کے حقوق ادا کرتا اور اُن کی خدمت کرتا ہو، صلۂ رحمی کرتا ہو، غصّے پر قابو رکھتا ہو، محتاجوں اور مسکینوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آتا ہو، گناہوں سے پرہیز کرتا ہو، مصیبت کے وقت صبر کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شُکر ادا کرتا ہو۔‘‘ (معارج النبوّۃ)

حضرت شیث علیہ السّلام کو والد کی نصیحت

حضرت آدم علیہ السّلام کے انتقال کا وقت قریب آیا، تو اُنہوں نے بیٹے، حضرت شیث علیہ السّلام کو اپنے قریب بلایا اور نصیحت فرمائی کہ’’ اے میرے سعادت مند برخوردار! تم میرے جانشین بنو گے، چناں چہ تم تقویٰ اختیار کرو اور جب بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، تو اُس کے ساتھ، اُس کے محبوب، حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ کا نام ضرور لیا کرو، کیوں کہ مَیں نے اُن کا نام عرش پر اُس وقت لکھا دیکھا، جب کہ مَیں رُوح اور مٹّی کی درمیانی حالت میں تھا۔ پھر مَیں نے تمام آسمانوں کا چکر لگایا، تو بارگاہِ ربّ العزّت میں آپ ﷺ کی شانِ محبوبیت کا یہ عالم دیکھا کہ نامِ پاک، محمّد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کو اتنا پیارا ہے کہ آسمانوں میں کوئی ایسی جگہ نہیں ، جہاں یہ نامِ مبارک نہ لکھا ہو۔ میرے ربّ نے مجھے جنّت میں رکھا، تو مَیں نے جنّت میں کوئی محل، کوئی بالا خانہ، کوئی دریچہ ایسا نہ دیکھا کہ جس پر اسمِ محمّدﷺ تحریر نہ ہو۔ لہٰذا، تم بھی کثرت کے ساتھ اُن کا ذکر کیا کرو، کیوں کہ فرشتے بھی ہر وقت اور ہر آن اُن کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔‘‘

وفات

قصص الانبیاء میں علامّہ ابنِ کثیر تحریر فرماتے ہیں کہ’’ جب حضرت شیث علیہ السّلام کی وفات کا وقت قریب آیا، تو اُنہوں نے بھی اپنے فرزند، انوش کو معاملات سپرد کردئیے۔ انوش کے بعد اُس کا ولی عہد، قینن بنا، اس کے بعد قینن کا فرزند، مہلائیل اُن کا جانشین بنا اور ایرانی عجمی لوگ اُن ہی کے بارے میں خیال رکھتے تھے کہ یہ سات ولایتوں کے بادشاہ بنے اور یہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے جنگلات کا صفایا کرکے شہروں اور قلعوں کی بنیاد ڈالی اور ُانہوں نے ہی شہرِ بابل اور شہرِ سوس آباد کیے۔ ابلیس اور اس کے لشکریوں، جنّوں وغیرہ کو بھی مار مار کر انسانی آبادی سے بھگا کر ویرانوں اور گھاٹیوں میں دھکیل دیا۔ اُن کا ایک بڑا تاج بھی تھا اور وہ لوگوں کو وعظ بھی فرماتے تھے۔ اُن کی بادشاہی چالیس سال رہی۔ جب وفات کا وقت قریب آیا، تو اُنہوں نے اپنے فرزند ’’اخنوخ‘‘ کو اپنا جانشین مقرّر کیا اور اُنھیں مختلف کاموں کی انجام دہی کے حوالے سے وصیت کی۔ مشہور اقوال کے مطابق یہی اخنوخ، حضرت ادریس علیہ السلام تھے، جنہیں حضرت شیث علیہ السّلام کے بعد اللہ نے نبوّت سے سرفراز فرمایا۔حضرت شیث علیہ السّلام کی وفات 912برس کی عُمر میں ہوئی اور اُن سے منسوب مزارات تین مختلف مقامات (1) غزّہ (2) عراق کے شہر موصل اور (3) ایودھیا( بھارت) میں ہیں۔ ان تینوں میں سے کس میں حضرت شیث علیہ السّلام مدفون ہیں؟ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے (قصص القرآن، معارج النبوّۃ، رُوح البیان)۔ موصل میں قائم مزار کو حالیہ عراق جنگ کے دَوران شدید نقصان پہنچا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت شیث علیہ السّلام کا مکّہ مکرمہ میں انتقال ہوا اور وہ وہیں سپردِ خاک کیے گئے، جب کہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ حضرت شیث علیہ السّلام کا مزار، لبنان کے ایک گائوں،’’ شیث نبی‘‘ میں ہے، جہاں اُن کے نام سے ایک مسجد بھی قائم ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی اور بعد میں آنے والے عرب جغرافیہ دانوں کی روایت کے مطابق حضرت شیث علیہ السّلام کا مزار فلسطین کے شہر، رملہ کے شمال مشرق میں واقع ایک گائوں،’’ بشیث‘‘ میں تھا۔’’ بشیث‘‘ دو الفاظ بیت اور شیث کا مجموعہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ ’’خانۂ شیث علیہ السّلام‘‘۔ 1948ء میں اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کے وقت یہ گائوں غیر آباد ہوگیا تھا، لیکن آج بھی یہاں تین کونوں والا مینار، حضرت شیث علیہ السّلام کے مزار پر قائم ہے۔ (واللہ اعلم)

تازہ ترین