• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ایک محاورہ ہے اور میں گزشتہ برسہا برس سے مختلف ادوار میں اس محاورے کو فقرے میں استعمال ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ متذکرہ محاورے کو فقرے میں استعمال کرنے والے امتحانی نقطہ نظر سے ایسا نہیں کرتے کیونکہ یہ طبقہ کبھی کسی امتحان سے گزرتا ہی نہیں بس ہر دور میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھونا جانتا ہے۔ جب امتحان کا وقت آتا ہے تو اس طبقے کے لوگ اپنی جگہ کسی اور کو کمرہ امتحان میں بھیج دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اگلی کلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔ چنانچہ جمپ لگا کر نئی کلاس میں شامل ہونے والے اس طبقے کے افراد پھر سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے محاورے کو فقرے میں استعمال کر کے دکھاتے ہیں اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیتے ہیں۔

لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں ایک اور گروہ سامنے آیا ہے جس نے اس معاملے میں پہلے طبقے کے افراد کو بھی مات دے ڈالی ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے آغاز بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے نہیں کیا بلکہ درمیان کے تمام مراحل بیچ ہی میں چھوڑ کر انہوں نے ایک دم سے بہتی گنگا میں اشنان شروع کر دیا۔ ان کے اس اقدام سے عوام کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی چنانچہ وہ جو ہاتھ دھونے پر اکتفا کر رہے تھے انہوں نے ایک ہی جست میں اشنان کی کوششیں شروع کر دیں۔ گنگا ایک تھی اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد اس کے کناروں سے بھی بڑھ گئی۔ نتیجتاً دھکم پیل شروع ہو گئی اور پھر جس کا زور چلا اس نے ہاتھ دھو لئے اور جس کا زیادہ زور چلا اس نے کپڑے اتارے اور اشنان کر لیا۔

اس ضمن میں تازہ ترین صورت حال یہ تھی کہ لوگ اشنان کی توقع میں پہلے ہی کپڑے اتار دیتے تھے چنانچہ اس عرصے میں بڑے بڑے معززین کو دیکھا گیا کہ وہ ننگ دھڑنگ قطار میں کھڑے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں بلکہ بعض ایک کو تو باقاعدہ دھکم پیل کرتے پایا گیا۔ ان میں سے کئی ایک ساحل سے ریت اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھونکتے تھے، کیچڑ اچھالتے تھے تاکہ اشنان میں سبقت لے سکیں۔ چنانچہ جنہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوتی تھی وہ ننگ دھڑنگ اپنی جگہ پر کھڑے لوگوں کی چبھتی نظروں کا نشانہ بنتے اور اس وقت کا انتظار کرتے رہے جب بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے یا اشنان کرنے کے بعد وہ اپنی برہنگی چھپا سکیں اور پھر عزت مآب کہلائیں۔

یہ سب لوگ فائدے میں رہے ہیں کیونکہ انہوں نے جلد یا بدیر اپنے برہنہ جسم کو خلعتوں میں چھپا لیا اور شرفاء میں شمار ہونے لگے لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جس کے ساتھ بہت ٹریجڈی ہوئی ہے اور ان کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو بہاتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اگرچہ اشنان کے لئے بہت عرصہ سے ہاتھ پائوں مار رہے تھے اور اس کے لئے انہوں نے لاکھوں لوگوں کے سامنے کپڑے بھی اتار پھینکے تھے مگر جب ان کی باری آئی تو انہوں نے فرطِ مسرت سے بہتی گنگا میں غوطہ لگایا اور اشنان سے فراغت کے بعد جب کپڑے پہننے اور یوں معززین کی صف میں شامل ہونے کے لئے ساحل کی طرف بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ کوئی ستم ظریف ان کے کپڑے اٹھا کر لے گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کے کپڑے وہاں سے غائب ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں عوام ساحل پر کھڑے ہیں اور انہیں دیکھ کر اپنی دو انگلیوں سے سیٹیاں بجا رہے ہیں اور قہقہے لگا رہے ہیں۔ ادھر گنگا کا پانی بھی اتر گیا ہے اور یوں یہ معززین دونوں ہاتھوں سے اپنی برہنگی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سو اب صورتحال یہ ہے کہ عوام انہیں دیکھ کر سیٹیاں بجا رہے ہیں اور وہ دونوں ہاتھوں سے برہنگی چھپانے میں مشغول ہیں۔ نہ ان سے پانی کے اندر کھڑا ہوا جاتا ہے اور نہ وہ باہر آ سکتے ہیں۔

اور اب آخر میں چند باتیں خالد احمد کے ’’عرضِ ہند‘‘ کے حوالے سے۔ خالد احمد میرے قریب ترین دوستوں ہی میں نہیں تھا، اس کا شمار ہمارے عہد کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد ہم سے رخصت ہو گیا مگر اس کی شاعری اور محبت نے ہمارے دلوں میں اسے زندہ رکھا ہوا ہے۔ خالد کے برادرِ نسبتی عمران منظور نے زندگی میں اور خالد احمد کی وفات کے بعد بھی اس کے سگے بھائیوں سے زیادہ اس سے محبت کی۔ اب حال ہی میں انہوں نے خالد احمد کی کلیات ’’عرضِ ہند‘‘ کے عنوان سے شائع کی ہیں۔ اس کلیات میں خالد کے شعری مجموعے تشبیب، ہتھیلیوں پر چراغ، پہلی صدا پرندے کی، ایک مٹھی ہوا، دراز پلکوں کے سائے سائے، نم گرفتہ اور پہلی پو پروائی شامل ہیں۔ مجھے اس امر کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ میں نے خالد احمد کو ہمیشہ اپنے ہمعصروں میں سب سے بڑا شاعر سمجھا اور اس کا اعلان بھی کیا لیکن کلیات کے مطالعے نے میری رائے تبدیل کر دی ہے۔ اب میری نظروں میں خالد احمد صرف اپنے ہم عصروں ہی میں نہیں اردو شاعری کے موجودہ منظر نامے میں بھی ایک بڑا شاعر ہے اور اس کے سامنے بہت سے ’’بڑے‘‘ شاعر دہی بڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ظفر اقبال کو پاک و ہندکا سب سے منفرد، سب سے زیادہ تخیلاتی اور سب سے زیادہ تخلیقی شاعر ہونے کے ناتے اردو شاعری کی اعلیٰ ترین مثال سمجھتا ہوں۔ ان سے بڑا کوئی نہیں، تاہم خالد احمد ان کے بعد کی نسلوں میں زندہ رہنے والے شاعروں میں سے ہے۔ خالد کی شعری بنت کے قائل عباس تابش کے علاوہ سعود عثمانی، سعداللہ شاہ، غافر شہزاد، قمر رضا شہزاد، حسن عباس رضا، باقی احمد پوری، اختر شمار اور فاروق طراز کے ہمراہ آج کے مقبول اور معقول شاعر بھی ہیں۔ میرے نزدیک جو لوگ شعر کہنا سیکھنا چاہتے ہیں وہ ظفر اقبال اور دیگر اساتذہ کے مطالعہ سے پہلے خالد احمد کے شعر پر بھی نظر ڈالیں تاکہ شاعری کے رموز سے آگاہ ہو سکیں۔

تازہ ترین