انصار عباسی
اسلام آباد :… مولانا فضل الرحمان آٗندہ ماہ پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب ملین مارچ اور اس کے بعد دھرنا دینے پر غور کر رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں کامیاب عوامی اجتماعات کے بعد جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اسلام آباد میں حتمی شو کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ کا مقد پی ٹی آئی حکومت کو ہدف بنانا اور ممکنہ طور پر حکومت کی برطرفی اور نئے انتخابات کرانا ہوگا۔ ملین مارچ اور دھرنے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے دیے جائیں گے جبکہ دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ تاہم، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں ایسے کسی لانگ مارچ منصوبے کا علم نہیں۔ سراج الحق نے کہا کہ جے یو آئی اپنا سیاسی ایجنڈا لیکر چل رہی ہے جبکہ جماعت اسلامی کا اپنا ایجنڈا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر نے دی نیوز کو بتایا کہ مولانا نے اپنی رائے سے پیپلز پارٹی کو آگاہ کیا ہے۔ ذریعے نے کہا کہ مولانا چاہتے ہیں کہ مارچ کے مہینے میں ملین مارچ کریں لیکن انہیں حتمی تاریخ کا فیصلہ کرنا باقی ہے۔ ذریعے نے کہا کہ مولانا نے پیپلز پارٹی کو بتایا ہے کہ ملین مارچ کے بعد دھرنا دیا جائے گا جو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مظاہرین کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔ 2018ء میں الیکشن ہارنے اور اسے دھاندلی زدہ الیکشن قرار دینے کے بعد سے مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اگرچہ دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے بھی الیکشن کے نتائج مسترد کردیے تھے لیکن انہوں نے مولانا کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کے تحت حلف نہ اٹھایا جائے۔ مولانا فوری طورپر نئے الیکشن چاہتے تھے لیکن دیگر اپوزیشن سیاسی جماعتیں چاہتی تھیں کہ الیکشن میں دھاندلیوں کی تحقیقات کرائی جائیں اور حکومت کو حکمرانی کا موقع دیا جائے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے پی ٹی آئی حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ حکومت کو چلنے کا موقع دیں گی اور عمران خان کو ہٹانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گی۔ تاہم، مولانا نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنے پارٹی ارکان کو حلف اٹھانے کی اجازت دی لیکن انہوں نے عمران خان یا ان کی حکومت کی جانب رحم دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب دی نیوز کے سینئر رپورٹر احمد نورانی نے جے یو آئی ف کے ترجمان مولانا امجد سے رابطہ کرکے ان سے ملین مارچ اور دھرنے کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ وہ ایک گھنٹے میں بذریعہ فون رابطہ کریں گے۔ لیکن مولانا امجد نے رابطہ کیا اور نہ ہی دوبارہ فون اٹھایا۔