• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شمالی کوریا کا بُحران، انجام کے قریب
مون جے اِن اور کِم جونگ اُن خوش گوار موڈ میں

گزشتہ چند ماہ کے دوران رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2019ء مفاہمت اور امن کا سال ہوگا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما، کِم جونگ اُن کے درمیان رواں ماہ کے آخر میں ویت نام میں ایک اور ملاقات ہو گی اور یہ اعلان خودامریکی صدر نے 6فروری کے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کیا۔ دونوں سربراہانِ مملکت کے درمیان ملاقات 27اور 28فروری کو ہو گی۔ یاد رہے کہ جنوری کے آخر میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان دوحا میں منعقدہ مذاکرات کے نتیجے میں فریقین کے درمیان امن معاہدے کی راہ ہم وار ہوئی اور توقّع کی جا رہی ہے کہ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی سمیت افغان امن عمل کے دیگر مراحل بھی تیزی سے طے ہونے لگیں گے۔ اگریہ دونوں تنازعات بہ حُسن و خوبی طے ہو جاتے ہیں، تو یہ پیش رفت ایشیا کے عوام کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہ ہو گی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا جنگ و جدل اور جارحیت کی فضا سے نکل کر ترقّی و خوش حالی کی راہ پر گام زن ہو جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کِم جونگ اُن کے درمیان ملاقات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران شمالی کوریا کے جوہری عزائم ایک خوف ناک صورت اختیار کر گئے تھے، جب کہ2017ء میں تو دُنیا پر ایٹمی جنگ کے خطرات بھی منڈلانے لگے تھے۔ تاہم، جذبات پر عقل غالب آئی اور گزشتہ برس اس تنازعے کو سُلجھانے کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ بعد ازاں، ان کاوشوں کا نتیجہ 12جون2018ء کو ٹرمپ اور کِم کے درمیان سنگا پور کے ایک خُوب صُورت جزیرے پر ملاقات کی صورت نکلا۔

.
شمالی کوریا کا بُحران، انجام کے قریب
شمالی کورین رہنما، چینی صدر، شی جِن پِنگ کے ساتھ

امریکی صدر اور شمالی کورین رہنما کے درمیان اگلی ملاقات رواں ماہ کے آخر میں ویت نام میں ہو گی، جو غیر مُلکی افواج کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے اور جدوجہدِ آزادی کے حوالے سے اس کا کردار ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ ویت نام نے پہلے جاپان، پھر فرا نس اور آخر میں امریکا کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی اور اس کی داستان بھی جزیرہ نما کوریا سے کچھ ملتی جُلتی ہے۔ ویت نام نے1954ء میں لڑی گئی ڈِین بِین فُوکی عالمی شُہرت یافتہ لڑائی میں فرانس کو شکست دی، لیکن یہ خود دو حصّوں، شمالی ویت نام اور جنوبی ویت نام میں تقسیم ہو گیا۔ جنوبی ویت نام کو امریکا نے سہارا دیا، جب کہ شمالی ویت نام کمیونزم کے زیرِ اثر ہونے کے ناتے سوویت یونین اور چین کے قریب تھا۔ بعد ازاں، جنوبی مشرقی ایشیا کے اس پس ماندہ مُلک کے دونوں حصّوں کے عوام نے اپنی اَن تھک جدوجہد سے امریکا کو اپنی سر زمین سے بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس موقعے پر دُنیا بَھر کی طرح امریکی عوام نے بھی ویت نام کے عوام کے جذبۂ آزادی کو سراہتے ہوئے اپنی حکومت کو فوج واپس بلانے پر مجبور کیا۔

شمالی کوریا کا بُحران، انجام کے قریب
ڈونلڈ ٹرمپ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کرتے ہوئے

امریکا اور ویت نام کی دشمنی 1960ء سے1975ء تک زبان زدِ عام رہی اور اب بھی ویت نام سے امریکی فوج کے انخلاء کو امریکا کی ناکامی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1976ء میں ویت نام کے شمالی و جنوبی حصّے ایک ہو گئے اور آج 9.5کروڑ نفوس پر مشتمل ویت نام آبادی کے اعتبار سے دُنیا کا 15واں بڑا مُلک ہے اور امریکا اور شمالی کوریا کے مابین مذاکرات کی میزبانی بھی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے ساری دُنیا کی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں۔امریکا اور شمالی کوریا سمیت پوری دُنیا ہی ویت نام کی غیر جانب داری کو تسلیم کرتی ہے، جب کہ مذاکرات کی میزبانی بہ ذاتِ خود ویت نام کے 43سالہ حیرت انگیز تبدیلی کے سفر کی نشان دہی کرتی ہے۔ پھر یہ بات بھی شاید کم افراد کے علم میں ہو کہ آج ویت نام جنوب مشرقی ایشیا کی ایک اُبھرتی ہوئی معیشت بن چُکا ہے۔ اس کے تمام اقتصادی اشاریے مثبت ہیں اور یہ سب ویت نام کے سیاسی رہنماؤں، اہلِ دانش، ماہرین اور عوام کی اَن تھک محنت سے ممکن ہوا۔ نیز، اس سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ویت نام کے عوام جنگ اور امن دونوں ہی زمانوں میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال جانتے ہیں۔ رواں صدی کے آغاز میں ویت نام کے رہنمائوں نے بڑی تیزی سے اقتصادی اصلاحات کیں اور اس کے ساتھ ہی بھرپور انداز میں عوام کو تحریک بھی دی۔ یہی وجہ ہے کہ ویت نام گزشتہ 15برس سے نہ صرف تیز ترین معاشی ترقّی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے، بلکہ شرحِ نمو کے اعتبار سے اس کا شمار دُنیا کی 11بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ انقلاب اور عسکری جدوجہد کے ذریعے اقتدار میں آنے والے رہنما اپنے وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہو جاتے ہیں، لیکن ویت نام کے رہنمائوں نے اس سوچ کو غلط ثابت کر دکھایا اور آج ویت نام میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ امریکی فوج کا قبضہ ختم ہونے کے بعد ویت نام نے فوری طور پر عداوتوں سے جان چھڑوائی اور اپنے مفادات کے لیے سب کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ مُلک جنوب مشرقی ایشیا میں امریکا کے سب سے قابلِ اعتماد اتحادیوں میں شامل ہے۔ ویت نام کا دارالحکومت، ہنوئی ہے، جب کہ اس کا سب سے بڑا شہر، ہوچی منہ سٹی ہے، جو مشہور لیڈر، ہوچی منہ سے منسوب ہے۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ دہائیوں تک خوں ریزی کا شکار رہنے والے ویت نام کو ایک دَور میں ثالثی کی ضرورت تھی، جب کہ آج یہ خود ایک ایسے تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے کہ جس کا ایک فریق سُپر پاور، امریکا ہے۔

شمالی کوریا کا بُحران، انجام کے قریب
گزشتہ برس جون میں ٹرمپ اور کِم جونگ کے درمیان ہونے والی ملاقات کا ایک منظر

یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی تنازعے میں جون 2018ء سے اب تک کتنی پیش رفت ہوئی ۔ اس سلسلے میں تین جہتی سفارت کاری کار فرما ہے۔ پہلی جہت کا تعلق امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان براہِ راست بات چیت سے ہے۔ سفارت کاری کا دوسرا پہلو جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے مابین مذاکرات پر مشتمل ہے، جب کہ تیسری جہت چین اور امریکا کے درمیان گفت و شنید پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تنازع تیزی سے حل کی جانب بڑھ رہا ہے، حالاں کہ پیانگ یانگ کو اقوامِ متّحدہ اور امریکا کی جانب سے عاید کردہ اقتصادی پابندیوں پر شدید تحفظات ہیں۔ گرچہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اپنی سیمابی فطرت اور تُند و تیز بیانات کی وجہ سے دُنیا بَھر میں مشہور ہیں، لیکن انہوں نے افغانستان، شام اور شمالی کوریا جیسے عالمی مسائل کے حل کی خاطر بڑی سنجیدگی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ ابتدا میں ماہرین کا خیال تھا کہ ٹرمپ اپنے غیر روایتی اندازِ حُکم رانی کے سبب کسی بھی وقت دُنیا کو جنگ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں، لیکن وہی ٹرمپ آج امن کی راہ ہم وار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹرمپ، شمالی کوریا سے مذاکرات کے تمام مراحل کی بہ ذاتِ خود نگرانی کر رہے ہیں اور کِم سے ایک ہی ملاقات میں دونوں کے درمیان کافی ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے، جو ایک حیرت انگیز بات ہے۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ہم آہنگی کا فائدہ یہ ہوا کہ اگر نچلی سفارتی سطح پر کوئی رکاوٹ پیدا ہوئی، تو سربراہان کی سطح پر اسے فوراً دُور کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ اپنے طاقت وَر اداروں کی وجہ سے امریکا کی خارجہ پالیسی خاصی پیچیدہ ہے۔ چُوں کہ اس میں ذرایع ابلاغ سے لے کر ایوانِ نمایندگان، سینیٹ، بیورو کریسی، انٹیلی جینس ایجنسیز اور تِھنک ٹینکس تک اپنا حصّہ ڈالتے ہیں، اسی لیے یہ بڑی سُست رفتاری سے آگے بڑھتی ہے۔ گرچہ اس ضمن میں حتمی فیصلہ امریکی صدر کرتے ہیں، لیکن ہر فریق کی رضا مندی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، ٹرمپ نے اپنے اس اختیار کا بھرپور استعمال کیا، جس کی وجہ سے کورین تنازع حل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس موقعے پر امریکا کے خفیہ اداروں نے بارہا یہ خدشہ ظاہر کیا کہ شمالی کوریا اپنا جوہری پرگرام کبھی ختم نہیں کرے گا، لیکن ٹرمپ سفارت کاری کو موقع دینے کے اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

اس سلسلے میں جنوبی کوریا کے صدر، مُون جے اِن نے بھی بنیادی کردار ادا کیا، کیوں کہ بادی النّظرمیں اس تنازعے سے کوریا کے دونوں حصّوں کے عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جو 1954ء سے ایک دوسرے سے جُدا ہیں۔ خوش قسمتی سے جنوبی کورین صدر نہ صرف اس مسئلے کے حل بلکہ دونوں حصّوں کے دوبارہ ملاپ کے بھی پُر زور حامی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی انتخابی مُہم کے دوران تواتر سے یہ دعویٰ کرتے رہے بلکہ غیر موافق حالات میں بھی بڑی مستقل مزاجی سے سفارت کاری کے ذریعے آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے ایک جانب ٹرمپ جیسے متلوّن مزاج امریکی صدر کو قابو میں رکھا، تو دوسری جانب کِم جیسے جنگ جُو آمر کو مذاکرات پر آمادہ کرنے جیسا کارنامہ بھی انجام دے ڈالا۔ وہ اپنے شمالی کورین ہم منصب سے ملاقاتیں کر کے اپنے اس ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہے کہ پہلے جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جائے اور اگلے مرحلے میں جنوبی اور شمالی کوریا ایک مُلک بن جائیں۔ مُون کے علاوہ کِم کی ہم شیرہ بھی، جنہیں اپنے بھائی کا مکمل اعتماد حاصل تھا، دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ دونوں حصّوں کے رہنمائوں کے درمیان ملاقاتوں کے نتیجے میں عوام کی سرحد پار آمد و رفت آسان ہو گئی ہے۔ نیز، ہاٹ لائن کی ہمہ وقت موجودگی کی وجہ سے بھی دونوں جانب روابط مستحکم ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، 2018ء کے سرمائی اولمپکس میں دونوں ممالک کے کھلاڑیوں کے دستے ایک ہی بینر تلے شریک ہوئے۔

رواں ماہ کے آخر میں ٹرمپ اور کِم کے مابین ملاقات کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان پائی جانے والی خلیج کافی حد تک کم ہو گئی ہے اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس سنگا پور میں ہونے والی ملاقات میں شمالی کورین رہنما نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے ان کا مُلک اپنا کردار ادا کرے گا اور وہ اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر دیں گے۔ اس کے بعد شمالی کوریا نے جوہری ہتھیار تیار کرنے والی ایک اہم سائٹ کو ختم کر دیا۔ شمالی کوریا کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں چین نے بھی اہم کردار ادا کیا، جو اس وقت شمالی کوریا کا واحد اتحادی ہے۔ امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے سے لے کر اب تک کِم دو مرتبہ بیجنگ کا دورہ کر چُکے ہیں۔ چین نے امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان مفاہمت کو خوش آیند قرار دیا اور یہ سلسلہ آگے بڑھانے کے لیے اپنے اتحادی پر دبائو برقرار رکھا۔ چین کے شمالی کوریا پر اثر و رسوخ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ٹرمپ کا ماننا ہے کہ چینی صدر، شی جِن پِنگ یہ تنازع حل کروا سکتے ہیں اور وہ یہی کر رہے ہیں۔ گرچہ چین اپنے اتحادی کی گرتی ہوئی معیشت پر فکر مند تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے سلامتی کائونسل کی شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جنوبی و شمالی کوریا متّحد ہو جاتے ہیں، تو چین وہاں اپنی حامی حکومت کے قیام کا خواہاں ہو گا کہ جو اس کے مفادات کا تحفظ کرے۔اس معاملے میں چین کی دِل چسپی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ جزیرہ نما کوریا کے ساتھ اس کی سرحد ملتی ہے، جب کہ امریکا 6,000میل کی دُوری پر واقع ہونے کے باوجود بھی جنوب مشرقی ایشیا کی، جسے انڈو چائنا بھی کہا جاتا ہے، ایک اہم طاقت ہے۔ امریکا کے اس خطّے میں واقع جاپان سے لے کر تھائی لینڈ تک سے دفاعی معاہدے ہیں اور وہ ہرگز یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ یہاں چین حاوی ہو جائے۔اس خطّے کی طاقت میں توازن قائم کرنے کے لیے گزشتہ برس امریکا، چین اور جاپان کے سربراہانِ مملکت کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ جاپان کے وزیرِ اعظم، شینزو ایبے کو امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان قُربت پر تحفظات ہیں اور وہ امریکی صدر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں ان کا اظہار بھی کر چُکے ہیں۔ گرچہ جاپانی وزیرِ اعظم امن عمل میں رُکاوٹ نہیں بنے، لیکن اُن کی یہ خواہش ضرور ہو گی کہ کوریا کے دونوں حصّوں کے متّحد ہونے تک اس عمل کے اثرات خطّے کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات پر مرتّب نہ ہوں اور غالباً اسی لیے انہوں نے بیجنگ اور اُن کے چینی ہم منصب نے ٹوکیو کا دورہ کیا۔ خطّے کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں چین اور جاپان دونوں ہی اپنے اپنے کردار کا ازسرِنو جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ انڈو چائنا کی تمام بڑی طاقتوں کا مفاد خطّے میں قیامِ امن میں مضمر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی برتری قائم رکھنے کے لیے اقتصادی طاقت کو ترجیح دیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ نیز،وہ اپنے دَورِ صدارت میں امریکا کی معاشی بحالی کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں۔ اب امریکا اپنی تمام تر توجّہ جنوب مشرقی ایشیا پر مرکوز کر رہا ہے۔ امریکا کی طرح چین بھی اپنے اقتصادی منصوبوں ہی کو مقدّم رکھتا ہے اور وہ بھی کسی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ اُس کے گردوپیش میں تناؤ برقرار رہے۔ پھر شمالی کوریا کی کم زور معیشت اسے اقتصادی بحالی کی جانب راغب ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ لہٰذا، ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امن ہی سب کی ترجیح ہے اور شمالی کوریا کا تنازع جلد ختم ہو جائے گا۔

تازہ ترین