جیو ٹی وی کے پروگرام ’’جیو پاکستان‘‘ میں مہمان ڈاکٹر احمر کا یہ انکشاف انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان میں اوسطاً دس ہزار بچوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے، جن میں کینسر کی مختلف اقسام شامل ہیں۔ کینسر یا سرطان ایک ایسا مرض ہے جس کا نام سنتے ہی انسان پر یاس و نومیدی کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ کینسر اگرچہ اب ایک قابلِ علاج مرض ہے مگر اس کے جسم پر بے شمار مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور مرض شدت اختیار کر جائے تو اس کا علاج ممکن نہیں رہتا۔ یہ جان لیوا مرض اب بچوں میں بھی تیزی سے پھیلنے لگا ہے۔ ماہرین کے مطابق بچے عموماً لیوکیمیا (خون اور ہڈیوں کے گودے) دماغ اور حرام مغز کے ٹیومر وغیرہ کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں، کینسر کی تشخیص ایک مشکل امر ہے لہٰذا اگر بچے کے جسم میں کوئی گلٹی، سوجن یا کہیں کوئی غیر معمولی ابھار دکھائی دے، جسم میں مستقل درد رہتا ہو، بخار نہ اترتا ہو یا وزن میں اچانک کمی آنے لگے تو بلاتاخیر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ ابتدا ہی میں مرض کا پتا چل سکے اور علاج شروع ہو۔ چیریٹی چلڈرن اور برسٹل یونیورسٹی برطانیہ کی ایک مشترکہ ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی، کرم کش ادویہ کے بے محابہ استعمال اور فاسٹ فوڈز کے باعث گزشتہ 16برس میں نوعمر بچوں میں کینسر کی شرح میں 40فیصد اضافہ ہوا اور ہر سال 13سو بچے اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے یہاں فضائی، آبی آلودگی، جراثیم کش ادویہ کا اسپرے اور کھانے پینے خاص طور پر فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کا بے تحاشا استعمال یہ باور کرانے کو کافی ہے کہ بچے کیوں متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان جہاں کینسر کے علاج کی سہولیات بھی وافر و ارزاں نہیں، سب کو اپنی صحت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ حالات میں حکومت کو سرکاری اسپتالوں میں تشخیصی مراکز قائم کر کے عوام کے لئے چیک اپ لازم قرار دینا چاہئے۔ ان تمام عوامل کے خاتمے کے لیے جن کے باعث بچے اس مہلک مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں، قومی جذبے کے تحت کام کرنا ہو گا ۔