جمو ں و کشمیر میں پلوامہ کے واقعے پر غم وغصّے کی شدید کیفیت میں مبتلا بھارتی حکام اور رہنمائوں کو اگرچہ یہ سمجھانا فی الحال ممکن نہیں کہ معاملات کا دیرپا اور حقیقی حل آج بھی صرف مذاکرات کی صورت میں ہی ممکن ہے، پاکستان کی جانب سے تحقیقات میں تعاون کا پیغام بہرحال سر حد پار بھیج دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ریاستی اداروں کی پُر تشدد کارروائیوں کے حوالے سے پہچانی جانے والی اِس وادی میں، پیرا ملٹری اہل کاروں سے بھری 78 بسوں پر مشتمل ایک طویل اور سست رفتار قافلے کو سری نگر سے صرف بیس کلومیٹر زکے فاصلے پر ایک معروف ہائی وے سے گزارنے کا خیال، کسی بھی اِہل عقل کے لئے نا قابل قبول ہے۔
گزشتہ چھ یا سات دہائیاں گواہ ہیں کہ دنیا بھر کے Conflict Areas میں تعینات پولیس، پیرا ملٹری اور سیکورٹی فورسز کے معمول کے گشت اور متاثرہ علاقوں میں اِن کی عام آمد و رفت، ایک خاص پروٹوکول یا مینوئل کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔ اِس عمل میں حسّاس اداروں سے حاصل کردہ تازہ ترین اطلاعات کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ فورسز کی گاڑیوں کا کوئی بہت طویل قافلہ، کسی ناگزیر صورتحال کے سوا، اَیسے مقامات سے گزرتے ہوئے اِتنا طویل اور سست رفتار نہیں ہو سکتا کہ اتنی آسانی سے نشانہ بنالیا جائے۔ سری لنکا، فلپائن، لبنان اور ویت نام سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں حریت پسندی یا بغاوت کے حالات میں، ریاستی قوتوں کے خلاف سرگرم مسلح عناصر کی کارروائیوں کی طویل فہرستوں میں کہیں بھی، پلوامہ کے تازہ واقعے سے ملتی جلتی کوئی دوسری مثال شاید دستیاب نہ ہو یعنی اَیسی مثال کہ جب متاثرہ علاقے کی صورتحال کو جانتے ہوئے بھی اِتنی بڑی تعداد میں اِہلکاروں سے بھری لاتعداد بسوں کو آسانی سے نشانہ بننے کے لئے کسی شاہراہ پر یوں ہی چھوڑ دیا گیا ہو۔ بڑی تعداد میں سیکورٹی اہلکاروں کو اِس انداز میں منتقل کرنے کا فیصلہ، دَر اصل اُس غیر منطقی ذہنیت کا پیش خیمہ ہے جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھ کر، کسی طور ماننے کو تیار نہیں کہ وادی میں حریت پسندانہ سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، پر تشدد ریاستی کارروائیوں پر ردعمل کے طور پر حریت پسند روز بروز بڑھتے اور طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور یہ کہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ اب خود کشمیریوں کو ہی کرنا ہے۔ اِن حقائق سے بھارتی حکام اور رہنمائوں کا مستقل اِنحراف، بلاشبہ پلوامہ کے واقعہ کا بنیادی اور منطقی سبب ہے۔ ستم یہ کہ ہندوستان میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کی پوری سیاست اور انتخابات میں کامیابی کا تمام تر انحصار اِس سوچ پر ہے کہ پاک و ہند کا ہر مسلمان، ہندوؤں اور ہندوستان کا دشمن ہے، اور یہ بھی کہ موجودہ ہندوستان صرف’’ہندو توا‘‘ کی بنیاد اور فلسفے پر ہی چل سکتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو 1992 میں بابری مسجد پر حملے کا سبب بنی، یہی وہ سوچ ہے جس کے تحت گجرات میں مودی راج کے دوران مسلمانوں کا قتل عام ہواا ور بد قسمتی سے یہی وہ ذہنیت ہے جس نے نریندر مودی کو بھارت کا ــ’’منتخب‘‘ وزیر اعظم بنا ڈالا۔ یہ کھلی انتہا پسندی اور یہ اذیت رَساں منافرت، خطہِ برصغیر میں غیر جمہوری سیاسی روّیوں کو تیزی سے فروغ دے رہی ہے۔ لہٰذا بی جے پی ہر صورت میں پلوامہ کا یہ واقعہ اِس سال عام انتخابات جیتنے کے لئے بھرپور قوت کے ساتھ اِستعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔ اِس لئے یہ امید رکھنا بے سود ہے کہ فی الحال پاکستان کی جانب سے کسی تعاون یا ہمدردی پر مبنی کو ئی بھی پیشکش بھارتی حکمرانوں کی سمجھ میں آسکتی ہے یا اِن کے لئے قابل قبول ہوسکتی ہے۔ پاکستانی تجزیہ کاروں کا ایک حلقہ اِس بات پر یقین رکھتا ہے کہ بی جے پی اِس سال اِنتخابات میں کامیابی کی خاطر کوئی بھی ایسا طریقہ کار اختیار کرسکتی ہے جو ہندوستانی ووٹرز کی اکثریت کے دِلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کردے۔ لہٰذا اِس فلسفے کے تحت پلوامہکے واقعے کے پیچھے ’’ہندو توا‘‘ کا پرچار کرنے والے عناصر کا ملوث ہونا بعید از قیاس نہیں۔ اِس کا فائدہ ہر صورت میں بی جے پی اور نریندر مودی ہی کو ہونا ہے۔ دوسری جانب، بھارتی میڈیا بھی پاکستان کے خلاف ایک محاذ کھول بیٹھا ہے۔ واقعے کی اطلاع دینے سے اب تک، بھارتی نیوز میڈیا پرپاکستان کو مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں۔گزشتہ جمعہ سارا دن بھارتی چینلز پر، بلا تحقیق اور بنا ثبوت، واقعے کی ذمہ داری کھلم کھلا پاکستان پر تھوپی جاتی رہی۔ افسوس کہ بھارتی حکمرانوں کی طرح بھارتی میڈیا بھی کوئی بات سننے یا سمجھنے کو تیار نہیں۔ دو پاکستانی وزرا کی جانب سے تحقیقات کی پیشکش اور ثبوت فراہم کرنے کی بات مستقل نظر انداز کی جاتی رہی۔ اَلبتہ سرحد کے اُس پار سے سنائی دینے والی پہلی اُمید افزا بات بھارتی پنجاب کے وزیر اور سابق ٹیسٹ کرکٹر نوجوت سنگھ سِدّھو کی جانب سے کی گئی ہے۔ اُنہو ں نے پاکستان کو موردِ اِلزام ٹھہرانے کے بجائے ایک بار پھر نہ صرف مذاکرات پر زور دیا بلکہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت کے خیال کی حوصلہ شکنی بھی کی۔ لیکن اِس بیان کے نتیجے میں حسب توقع سِدّھو کو ایک بار پھر بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ بھارتی میڈیا اور حکمرانوں کے لئے اَب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے کشمیر میں ہونے والے واقعات، محض ’’نقضِ امن‘‘ کا مسئلہ نہیں بلکہ مستقل پروان چڑھنے والی ایک ایسی طاقتور تحریک کاعندیہ ہیں جسے اَب بندوق کے بجائے حق خود ارادیت کے فلسفے کے تحت ہی حل کیا جاسکتا ہے۔اَب بھی وقت ہے!