بلوچستان میں جہاں غربت کے حوالے سے دیگر عوامل کار فرما ہیں، وہیں یہاں پر ہمیشہ ذاتی مفادات اور وژن سے عاری بانجھ سیاسی قیادت سرفہرست رہی جس نے ہمیشہ صوبے کے مفادات پر ذاتی و اپنے حلقۂ انتخاب کے مفادات کو اہمیت دی۔ اس مفادات پرستی کے عمل نے جہاں بہت ساری مایوسیوں کو جنم دیا، وہیں عام آدمی سیاسی قیادت سے بھی بدظن ہو گیا کیونکہ انکے مستقبل سنوارنے کا حل سیاستدان تلاش نہ کر سکے۔ اسکا فائدہ بلوچستان کی شاطر سیاسی قیادت نے اٹھایا اور اسلام آباد و بلوچستان کے درمیان جو رابطوں کا فقدان موجود تھا، اسے مزید ہوا دی، اور سیاست سے بدظن شخص کو اسلام آباد اور پنجاب کیخلاف رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے بطورِ ڈھال استعمال کرنے میں کامیاب بھی رہا۔ عام آدمی کا بدظن ہونا بھی بجا تھا کیونکہ اس کے مسئلے کو اہمیت جو نہیں دی گئی۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت نے 2006ء میں اکنامک سروے رپورٹ جاری کی جس کی روشنی میں بلوچستان کی اس وقت کی کل آبادی (65لاکھ) کے بالغ 17میں سے صرف ایک شخص باقاعدہ ماہوار تنخواہ لیتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں صوبہ پنجاب میں ہر 5میں سے 1شخص باقاعدہ تنخواہ پاتا تھا۔ یہ رپورٹ ایک آئینہ ثابت ہوئی جس میں ناقص حکومتی کارکردگی نظر آئی۔ شاید اس وجہ سے 2006ء کے بعد وہ معاشی سروے رپورٹ دوبارہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے شائع نہیں کی۔ یہاں سوائے سرکاری سطح پر ملازمت پیدا کرنے کے کچھ ایسے اقدامات نہیں کئے گئے، جن سے عام آدمی کیلئے باقاعدہ ذریعۂ روزگار پیدا ہوتا۔ سی پیک کے تحت بلوچستان کے ضلع پشین کی تحصیل بوستان اور ضلع خضدار میں انڈسٹریل زون بنانے کا اعلان کیا گیا مگر تا دمِ تحریر کوئی عملی کام نہیں کیا گیا۔ یہاں عام بلوچ اپنی قیادت سے کچھ سوالات کرتا ہے کہ ہماری حکومت ہمارے لئے کیا کر رہی ہے؟ کیا ہم بلوچستان کے تمام اضلاع میں ایک فیکٹری بھی نہیں لگا سکتے؟ کیا ہمارا کام صرف تعمیراتی عمل یعنی اینٹ پر اینٹ لگانا ہے؟ گویا ہماری سیاسی قیادت کی نظر میں صوبے میں کوئی اور مسئلہ ہی نہیں ہے؟ یہاں پر سب کچھ چاہے وہ کاشت کے حوالے سے ہو یا پھر کسی اور حوالے سے، ہم کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسا کرنے سے کس نے روکا ہے؟ اب ایک چھوٹی سی مثال لیتے ہیں کہ ضلع لسبیلہ دور دراز تحصیل کنراج میں زنک اور لیڈ کا چینی کمپنی نے ٹھیکہ لیا ہے۔ ان کو بلوچستان میں اپنے کھانے کے انتظام کی پڑی تو ایک ایکڑ زمین لی اور سبزیاں اگانے کیلئے چین سے ایک شخص کو بلوایا جو اس ایک ایکڑ زمین پر کھیتی باڑی کرکے اس کمپنی کے چار سو ملازمین کیلئے کامیابی سے تازہ سبزیاں اگا رہا ہے۔ اب تو بات بڑی واضح ہو گئی ہے کہ زمین نہیں‘ حکومت اور ہماری سوچ بنجر ہے۔ ہم ملک میں خوردنی تیل کی مکمل ترسیل بلوچستان سے بھی مکمن بنا سکتے ہیں، جس سے جہاں تیل کی پیداور میں ملک خود کفیل ہو گا وہیں عام بلوچ بھی خوشحال ہوگا۔ پاکستان میں اس وقت خوردنی تیل کی درآمد تقریباً 330ارب روپے ہے۔ درآمد مکمل طور پر ختم کرنے اور خود انحصاری کیلئے ہمیں پانچ لاکھ ایکڑ زمین چاہئے، ہمارے پاس بلوچستان میں ٹوٹل تقریباً ایک کروڑ ایکڑ زمین قابلِ کاشت ہے جبکہ 15لاکھ ایکڑ علاقہ ایسا ہے جہاں ہم زیتون اگا سکتے ہیں۔ اگر ہم بلوچستان میں زیتون کے باغات لگاتے ہیں اور زمینداروں کی حکومتی سطح پر سر پرستی کی جاتی ہے تو ہم ملکی مانگ کے مطابق پام آئل کے بجائے اعلیٰ کوالٹی کے زیتون سے خوردنی تیل بنا سکتے ہیں۔ زیتون کی پیداوار انتہائی کم پانی سے ہو جاتی ہے اور یہ پانی کی کمی کے شکار علاقوں کیلئے موجودہ حالات میں کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔ ہم بلوچستان کی بے آب و گیاہ زمین کو سرسبز اور قابلِ کاشت کیوں نہیں بنا سکتے؟ بلوچستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سطح پر 19تھنک ٹینک کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک بھی بلوچستان سے نہیں۔ کیا ہم کمیشن کی پالیسی سے نکل کر وہ منصوبے اپنے صوبے میں متعارف کرائینگے جس سے عام بلوچ مالی طور پر مستحکم ہو اور اس کو ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ وہ یا اسکے بچے سرکاری نوکری کا انتظار کرتے رہیں؟ ان کاموں کیلئے ہمیں ایک مسیحا کی تلاش ہے اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہماری آنیوالی نسلیں ہم سے ایسے ہی لاجواب کر دینے والے سوالات کرتی رہیں گی اور ہم سارا ملبہ وفاق اور پنجاب پر ڈالتے رہیں گے۔