• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیرہ سال کی بچی اغوا ہوئی سات دن تک غائب رہی ، پھر جب لوٹی تو اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے اس معصوم بچی کے قتل کو “غیرت کے نام پر قتل” قرار دیکر خود ہی اپنی طرف سے ایف آئی آر کاٹ لی۔ قاتل پانچ دن تک گرفتار نہیں کیا کیونکہ قاتل سندھ میں حکمران پارٹی کے سابق وزیر اور مشیر کا رشتے میں کزن بنتا ہے۔ یہ سندھ ہے جسے گیدڑ کب کا کھا چکے ہیں۔ بالکل اس مقولے کے برعکس کہ ابھی سندھ گیدڑوں نے نہیں کھایا۔

یہ مقتولہ معصومہ تیرہ سالہ بچی رمشا وسان، چھٹی جماعت کی طالبہ خیرپور میرس ضلع میں کوٹڈجی تحصیل کے علاقے کنب کے نزدیکی گائوں پیر بڈھو وسان کی رہنے والی تھی۔ انتہائی مسکین ماں باپ کی بیٹی۔ اس بچی کا قصور یہ تھا کہ وہ چند جماعتیں پڑھ لکھ کر سوال کرنے لگی تھی وڈیروں کی وڈیرہ شاہی پر، بچیوں کیلئے جرگوں پر، بچیوں کے اپنے مستقبل پر اپنی مرضی اور مالکی پر۔

یہ بات وڈیروں تک پہنچی۔ سندھ میں وڈیرے ظالمان کی صدیوں پرانی شکل ہیں۔ رمشا وسان کو علاقے کا بدنام ترین پیشہ ور قاتل اور ڈاکو ذوالفقار وسان اپنے ٹولے کے ہمراہ ہتھیاروں اور دہشت کے زور پر اغوا کر کے لے گیا۔ علاقے کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ رمشا کو ذلو عرف ذوالفقار ڈاکو نے اغوا کیا۔ یہ بھی بچے بچے کو معلوم ہے کہ ذوالفقار وسان سندھ میں پی پی پی کے سابق وزیر اور ان کے بھائی اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر کا قریبی عزیز ہے بلکہ انکا وفادار ہے۔ بڑے شہروں اور وہاں کے میڈیا میں خوابوں کی تعبیروں کے شوشوں کے حوالے سے مشہور یہ وڈیرے سندھ کے دیہی عوام اور اپنے علاقے کے مسکین لوگوں کیلئے ایک بھیانک خواب اور اسکی بھیانک تعبیر کی مانند ہوتے ہیں۔ وسانوں کے کسی گوٹھ اور رمشا کے گائوں پیر بڈھو وسان کو ہی لے لیجئے جو میڈیا اور پولیس کیلئے ان کیسوں میں اب بھی “نو گو ایریا“ بنے ہوئے ہیں۔ رمشا کےقتل پر سندھ میں میڈیا اور سول سوسائٹی چاہے سیاسی حزب مخالف گروپوں کے لوگ چاہے سرگرم نوجوان ہوں کہ ویمن ایکشن فورم جیسی عورتوں کے حقوق پر تنظیمیں انکے تمام احتجاج کے باوجود پہلے پولیس اور انتظامیہ حرکت میں نہیں آئی اگر آئی بھی تو ایف آئی آر پولیس نے اپنی مرضی سے کاٹی جس میں پولیس اغوا ہو کر سات دن تک غائب رکھے جانیوالی تیرہ سالہ طالبہ رمشا وسان کے قتل کو دبانے اور قاتل کو بچانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ رمشا کے قتل کو ایف آئی آر میں ’’کارو کاری ‘‘کا معاملہ یا ’’کاری کی گئی‘‘ لکھا گیایعنی کہ قتل کی وجوہ کو جب فوری جذبے کے تحت کیا جانیوالا جرم بنوایا گیا جو کہ ملزم نے طیش میں آکر کیا۔

سندھ میں جب سے برصغیر میں پولیس بنی ہے ایسے قتلوں کو فوری جذبے کے تحت مجرمانہ فعل بتایا جاتا رہا ہے کہ جس سے قاتل بری ہو جاتے رہے ہیں یا پھر کم سزا پاتے ہیں۔ذوالفقار عرف ذلو وسان خیرپور میرس میں نام نہاد غیرت کے نام پر وسان قبیلے کی عورتوں اور دیگر قبیلے کے مردوں کو قتل کرنے پر مامور ایک غیر ریاستی جلاد ہے۔ یہ سب جانتے ہیں۔

خیرپور اور شمالی سندھ کے علاقے میں اکثر لوگ جانتے ہیں ذوالفقار عرف ذلو ایک بدنام زمانہ پیشہ ور قاتل اور ڈاکو ہے جس پر قتلوں سمیت سنگین جرائم میں بیس مقدمات داخل ہیں۔ ان میں تین مقدمات غیرت کے نام پر تین مختلف عورتوں اور دو مردوں کے قتل کے ہیں۔ وسان قبیلے کی تین عورتوں کو وہ پہلے بھی نام نہاد ”کارو کاری“ کے نام پر قتل کر چکا ہے۔ خیرپور میرس سے ہی تعلق رکھنے والے سندھ کے نوجوان صحافی اور اینکر پرسن نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا ہے کہ اگر وہ پیشہ ور قاتل ہے تو پھر کس با اثر شخصیت کی ایما پر قتل کرتا ہے؟

میں پوچھتا ہوں ذکیہ وسان قتل کیس میں ذکیہ سمیت جسکانی قبیلے کے فرد کا قتل کس کی طرف سے جرگے میں فیصلے پر کیا گیا؟ یہ جرگوں میں عورتوں کو کاروکاری کےنام پر قتل کرنےکے فیصلے کون کرتا ہے؟ لوگوں کے پلاٹوں اور زمینوں پر قبضے کون کرواتا ہے اور ضلع سمیت پورے شمالی سندھ میں سود پر قرضے کا نجی کاروبار کون کرتا ہے۔ وسان سود خوروں کی وصولی کا نیٹ ورک بزور دھونس ذلو نہیں چلاتا تو کون چلاتا ہے؟ ذلو وسان سود خوروں کی طرف سے کلیکشن ایجنسی ہے۔ یہ اعتراف تو خیرپور میرس کے ایس ایس پی کی تازہ پریس ریلیز میں بھی کیا گیا ہے کہ ملزم ذوالفقار وسان علاقے میں دہشت بنا ہوا تھا۔

نیز یہ بھی کہ خیرپور میرس اور علاقے کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ذوالفقار وسان ایک اہم سیاسی شخصیت کے جلسوں جلوسوں میں اسکے باڈی گارٖڈ کے بھی فرائص انجام دیتا رہا تھا۔ جب وہ صوبائی وزیر داخلہ بنا تو ذوالفقار وسان کے سر پر پانچ لاکھ کا انعام ہٹانے کیلئے سرکاری طور پر محکمے اور متعلقہ اداروں کو مبینہ طور پر خط خود اپنے دستخط سے جاری کیا۔خیرپور میرس قبائلی و خونی تکراروں اور کاروکاری کے نام پر قتل کا سندھ میں دارالحکومت بنا ہوا ہے۔ ایسے میں رمشا وسان کا قتل بقول شخصے سندھ میں بدبودار گلے سڑے لیکن اب بھی آدم خور وڈیرہ شاہی اور اقتدار کی سیاست اور اس پر کھڑی تین پایوں کی کرسی والی حکومت اور جہان خانی انصاف کے بنے نانی وہیڑے (گٹھ جوڑ یامنبع) کا پتہ دیتا ہے۔ رمشا کا خون بولتا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت اور اس کا سیاسی چیف آصف علی زرداری ایک بچی کے نام نہاد غیرت کی آڑ میں قتل پر بااثر وسانوں کی ناراضی نہیں مول سکتا۔ بلاول بھٹو شیخ رشید سے مناظرے میں مصروف رہا لیکن رمشا کے بہیمانہ قتل پر ایک ٹوئٹ تک نہیں۔

یہ بھی سوشل میڈیا پر سول سوسائٹی اور سندھ کے اہل درد حلقوں اور عورتوں کے انسانی حقوق کیلئے تگ ودو کرنے والی تنظیم ویمن ایکشن فورم اور جسقم کے نوجوانوں و دیگر تنظیموں کا مسلسل احتجاج تھا کہ وسان زور آور وڈیروں کی معرفت یقین دہانیوں پر ذوالفقار ذلو وسان کو پیش کروایا گیا اور پولیس نے اس کی گرفتاری ظاہر کی لیکن جہاں خانی نظام سیاست میں انصاف سے قاتل بڑا ہے اور ضرور بولے گا۔

تازہ ترین