• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

فن کا سپاہی بن کر بھارت میں ثقافتی جنگ لڑتا رہا ہوں، شکیل صدیقی

وہ بھی کیا حسین دور تھا، جب بھارتی فلموں کا مقابلہ عمر شریف اور معین اختر اور شکیل صدیقی کے اسٹیج ڈرامے کرتے تھے۔ وڈیو سینٹرز میں ایک جانب امیتابھ بچن، سنجے دت، عامر خان اور انیل کپور کی فلموں کے پوسٹر لگے ہوتے تھے، تو دوسری جانب کراچی کے اسٹیج ڈراموں کی وڈیوز کے پوسٹرز شائقین کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ ’’بکرا قسطوں پہ‘‘ ایک ایسا اسٹیج ڈراما تھا، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں خصوصاً بھارت میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے۔ اس ڈرامے میں کام کرنے والے فن کاروں کو بھی دنیا بھر میں منفرد شناخت اورپہچان ملی۔’’ بکرا قسطوں پہ‘‘ کےپارٹ ٹو میں شامل کردار ’’تِیلی‘‘ نے شکیل صدیقی کی زندگی بدل دی تھی۔ کئی برس گزر گئے، لیکن مداح آج بھی شکیل صدیقی کو تیلی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ پاکستان میں نام روشن کرنے کے بعد انہوں نے بھارت کا رُخ کیا اور فن کے سپاہی کی حیثیت سے بھارت میں کئی ثقافتی جنگیں کام یابی سے لڑیں۔ شکیل صدیقی نے تھیٹر کے علاوہ ٹیلی ویژن اور فلموں میں مسکراہٹوں کے پھول بکھیرے۔ تھیٹر پر انہیں عمرشریف، معین اختر ، لیاقت سولجر اور شہزاد رضا کی رہنمائی حاصل رہی، تو ٹیلی ویژن پر حیدر امام رضوی اور اطہر شاہ خان جیدی نے متعارف کروایا۔ شوبزنس میں 40برس مکمل ہونے پر ہم نے شکیل صدیقی سے ان کے فن کے بارے میں ہلکی پھلکی بات چیت کی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔

س: شوبزنس کے 40 برس کیسے گزرے؟

ج: شوبزنس کی دنیا میں پہچان اور کام یابی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ اس کام کو آسان سمجھتے ہیں۔ میں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیےان گنت قربانیاں دی ہیں۔ میری والدہ نے میری بھرپور رونمائی کی۔ ان کے بعد میری بیگم نے ہر دُکھ درد میں میرا ساتھ دیا۔ ان دونوں شخصیات کی وجہ سے میں نے یہ طویل سفر طے کیا۔ امریکا کےدورے کے دوران والد کے انتقال کی خبر اس وقت ملی، جب میں اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کررہا تھا۔ اطلاع ملنے کے بعد بھی خود پر قابو رکھ کر لوگوں کو ڈیڑھ گھنٹے تک ہنساتا رہا،جیسے ہی ڈراما ختم ہوا تو مداحوں کی بڑی تعداد مجھ سے ملنے بیک اسٹیج آگئی۔ سب نے مجھے سے تعزیت کی۔ اسی طرح جب میں بھارت میں بہت زیادہ مصروف تھا، تو میرا بیٹازندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا تھا۔ میں ممبئی سے صرف دو روز کے لیے کراچی آیا اور ایئر پورٹ سے سیدھا اسپتال پہنچا اور پھر دو روز تک اسپتال میں ہی رہا اور پھروہیں سے ممبئی کے لیےایئر پورٹ چلاگیا۔ ایک مرتبہ شوٹنگ کے دوران میری ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ دو ماہ تک گھر پر رہا۔ میری بیگم نے میری خدمت کی۔ یہ سب واقعات یاد کرتا ہوں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

س: بھارت میں آپ کے کام کو بہت سراہا گیا،اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج: میں 30برس قبل پہلی مرتبہ بھارت گیا تھا۔ یہ غالباً 1989ء کی بات ہے۔ اس وقت وہاں سی ڈی پر بننے والے ڈرامے ’’بیوی قسطوں پر‘‘ میں کام کیا۔ 1992ء میں امر تسر میں بننے والی فلم ’’منڈا بڑا اچھا ہے‘‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد 2007ء میں تیسری بار بھارت گیا، تو بہت کام کیا۔ مجھے میرے دوست راجو شری واستو نے سونی کے پروگرام ’’کامیڈی کا بادشاہ کون؟‘‘ کے لیے ممبئی بلایا تھا۔ اسی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام انڈیا پاکستان مہا یودھ کون ، میں نے بھارتی فن کاروں سے مقابلے میں کام یابی حاصل کی اور پاکستانی ثقافتی جنگ جیتی۔ بعدازاں ’’کامیڈی سرکس‘‘ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ ’’استادوں کا استاد ‘‘ شروع ہوا تو مجھے کام یابی ملی۔ کامیڈی سرکس میں ’’سیانا شکیل‘‘ شروع ہوا۔ ٹیلی ویژن پر میری پرفارمنس دیکھتے ہوئے بالی وڈ مودی’’ صدیاں‘‘ کی پیش کش ہوئی، جس میں رشی کپور، شتروگھن سہنا کا بیٹا بھی کام کررہا تھا۔ بھارت کے صف اول کے فن کاروں کے سامنے پرفارم کرتے ہوئے کبھی ان سے مرعوب نہیں ہوا۔ ہمیشہ انہیں اپنی کارکردگی سے متاثر کرنے کی کوشش کی۔

س: آپ نے دبنگ خان اور کنگ خان کے ساتھ بھی کام کیا، وہ تجربہ کیسا رہا؟

ج: سپر اسٹار سلمان خان کے شو ’’دس کا دم‘‘ میں بھرپور اعتماد کے ساتھ کُھل کر پرفارمنس دی۔ اسی طرح کنگ خان،شاہ رخ خان کے ساتھ بیرون ملک مختلف شوز میں کام کیا۔ امریکا کے نیو جر سی میں ایک شو میں شاہ رخ خان کے ساتھ اسٹیج پر شان دار انٹری دی۔ شاہ رخ نے شو کے بعد مجھے گلے لگایا اور کہا کہ تم تو کما ل کے فن کار ہو۔ میں نے کئی موقع پر بالی وڈ کے سپر اسٹارز کا مذاق اڑایا، لیکن انہوں نے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ ان دنوں دونوں ملکوں کے حالات بہت کشیدہ ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جلد بہتر ہوجائیں گے۔

س: ’’تیلی ‘‘ کے کردار کی بے پناہ مقبولیت کی کیا وجہ تھی؟

ج: میں سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ یہ کردار میری شناخت بن جائے گا۔ ڈراما’’بکرا قسطوں پہ‘‘ پاکستان کا مغل اعظم بن گیا تھا۔ اسے پڑوسی ملک کےایک ایک شخص نے دیکھا تھا۔ ہمیں سب سے زیادہ پیار پاکستان سے ملا اور پھر دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کیا۔

س: اسٹیج ڈراموں کے علاوہ بھی آپ نے بہت کام کیا، اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج: میں نے فنون کی مختلف اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ ٹی وی پر ڈراما سیریل ’’ذرا سنبھل کے، برگر فیملی اور فنی فیملی میں میری مزاحیہ اداکاری کو ناظرین نے پسند کیا ۔ پاکستانی فلموں میں مجھے نامور ہدایت کارہ شمیم آرا نے متعارف کروایا ۔ میں نے درجنوں فلموں میں کام کیا۔ ان کام یاب فلموں میں ہم تو چلے سسرال، کبھی ہاں کبھی ناں ، مِس استنبول اور سپرہٹ فلم منڈا بگڑا جائے ، شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی فلم ’’صدیاں‘‘ میں ریکھا اور ہیما مالنی کے ساتھ عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔

س: آپ سالگرہ کب مناتے ہیں، کیا بچپن ہی سے فن کار بننا چاہتے تھے؟

ج: 20فروری کو اپنا جنم دن مناتا ہوں۔ والدین مجھے انجینئر بنانا چاہتے تھے، اس سلسلے میں شیرشاہ پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ بھی لیا اور پھر پہلےہی سال تعلیم کو ادھورا چھوڑ کرشوبزنس کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ میرا ایک چھوٹا بھائی پرویز صدیقی بھی مزاحیہ اداکاری کے حوالے سے اپنی پہچان رکھاہے۔

س: ابتدائی دنوں میں کس نے رہنمائی کی؟

ج: ہدایت وارث، معین اختر ، عمر شریف اور فرقان حیدر سے بہت کچھ سیکھا۔

تازہ ترین
تازہ ترین