• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی سلامتی کے بارے میں مجھ جیسے لوگوں کابرسوں سے یہ خیال رہا ہے کہ اسے خطرہ اندر سے زیادہ ہے اور باہر سے کم ۔ یعنی جو داخلی صورت حال ہے اور ہمارا معاشرہ جس طرح بکھرتا جارہا ہے وہ ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ لیکن مجھ جیسے لوگوں کی تعداد اس ملک میں کتنی ہے ؟ ہوسکتا ہے کہ کسی خاص وقت اتنی نہ ہو جتنی ان لوگوں کی جویہ سمجھتے ہیں کہ پانی سے کار چل سکتی ہے ۔ جب یہ پانی سے کار چلانے کا غلغلہ برپا ہوا تھا تو رائے عامہ کاجائزہ لینے والے ادارے گیلپ پاکستان نے ہمیں بتایا تھا کہ69فی صد لوگ یہ مانتے ہیں کہ پانی سے کار چل سکتی ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ حقائق کے تھپیڑے ہمیں بار بار نیند سے جگا دیتے ہیں ۔ تواب ، اس سال نو کا تحفہ ہمیں یہ ملا ہے کہ پاکستان آرمی نے اپنی آپر یشنل ترجیحات میں تبدیلی کی ہے اور ملک کو لاحق اندرونی خطرات اور داخلی دشمن کو ملک کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ۔ جمعرات کو شائع ہونے والی خبروں نے ہمیں بتایا کہ برّی فوج نے اپنے نئے ڈاکٹرائن یعنی نظریاتی ہدایت نامے میں یہ لکھا ہے کہ ملک کی مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کارروائیاں اور چند تنظیموں کی جانب سے اداروں اور شہریوں پر بم حملے ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں ۔ یہ ڈاکٹرائن فوج اپنی جنگی تیاریوں کودرست سمت میں رکھنے کے لیے شائع کرتی ہے۔ اسے ”گرین بک “ یعنی سبزکتاب کہا جاتا ہے اور اب اس میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کتاب کے باقی حصے یا روایتی خطرات کے حوالے اپنی جگہ موجود ہیں ۔ یہ بات بالکل قابل قبول ہے کیونکہ نیا باب یہ کہہ رہا ہے کہ داخلی دشمن ملکی سلامتی کے لئے زیادہ بڑا خطرہ ہے ۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ دوسو سے زائد صفحات پر مشتمل اس سبز کتاب کو متعلقہ فوجی کمانڈروں میں تقسیم کرنے کاکام شروع ہوچکا ہے ۔ گویا فوج کو داخلی دشمن سے لڑنے کے لئے تیار کرنے کا عمل شروع ہوا ہے ۔ ان الفاظ کے لکھتے وقت مجھے یہ نہیں معلوم کہ جمعہ کو بلائی گئی اعلیٰ فوجی کانفرنس کے بارے میں کیا پریس نوٹ جاری کیاجائے گا تاہم اب جو تبدیلی ہوئی ہے اسے ہم ” پیرا ڈائم شفٹ “ یا راستہ بدلنے کاعمل بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس نوعیت کی تبدیلی کے بارے میں مفکرین نے جوکچھ کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم جن باتوں کوسچا مانتے ہیں ان کے خلاف دی جانے والی دلیلوں کوہم شروع میں خاطر میں نہیں لاتے ۔ ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں ۔ پھر نئے حقائق جب ناقابل تردید ہوجاتے ہیں تو ایک خاص وقت آتا ہے جب رائے بدل جاتی ہے ۔ زمین چپٹی تھی تو اسے گول ہونے میں بہت دیر لگی ۔ جب سورج اس کے گرد گھومتا تھا تو گھومتا ہی رہا ۔ سورج کواپنی مرکزیت منوانے میں بہت زمانہ لگا ۔ اسی طرح انسانی حقوق اور جمہوریت کے نئے خیالات طویل جدوجہد کے بعد قبول کئے گئے اور زمانہ کروٹیں بدلتا رہا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ” سبز کتاب ، کانیا باب “ حکومت اور فوج کی حکمت عملی میں کسی قسم کی تبدیلیوں کی بنیاد بن سکتا ہے ۔ ویسے تو یہ تسلیم کرنا ہی ایک بڑی بات ہے کہ ” بعض تنظیمیں اور عناصر پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی غرص سے قبائلی اور شہری علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں ۔ آرمی ڈاکٹرائن میں نیم روایتی خطرات کے بارے میں جو اضافہ کیا گیا ہے ، آئی ۔ ایس ۔ پی ۔ آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اس کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہا ہے فوج ہر طرح کے خطرات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیم روایتی خطرات حقیقی ہیں اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا حصہ ہیں ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ روایتی خطرے کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔
بڑے اداروں کی سوچ آسانی سے نہیں بدلتی ۔ جتنا بڑا جہاز ہوگا ، مڑنے کے لئے اسے اتنی ہی دیر لگے گی ۔ تبدیلی کا عمل اکثر تکلیف دہ اور صبر طلب ہوتا ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس تبدیلی کے اشارے ، گاہے گاہے ہمیں ملتے رہے ہیں ۔ سب سے واضح اور بھرپور اشارہ ہمیں گزشتہ سال ، یوم آزادی کے موقع پر ملا تھا جب بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان ملڑی اکیڈمی کی آزادی پریڈ سے خطاب کیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں ۔ ملک میں پھیلی مایوسی سیاسی انتشار اور مذہبی منافرت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے داخلی محاذ کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ انہوں کہا تھا کہ ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورت حال پر غور وفکر کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ صرف فوج کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے ۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔ قوم اسی صورت میں اس جنگ میں شامل ہوسکتی ہے کہ جب حکمرانی کا معیار بہتر ہو اور جب اعلیٰ تعلیم کے ادارے اور میڈیا ، کسی منافقت کے بغیر ، تہذیبی اور فکری ماحول کو بہتر بنانے کی شعوری کوشش کریں ۔
اس گفتگو میں کچھ نازک مقام بھی آتے ہیں ۔ پاکستان کو غلامی کے بجائے ایک قومی سلامتی کی ریاست بناکر ، اور دفاع پر اپنے وسائل کاایک بڑا حصہ خرچ (ضائع؟ ) کرکے ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ؟ جن خطرات نے اب ہماری آرمی کو بیدار کیا ہے ان کے بیج کب بوئے گئے اور ان کی آبیاری کب کس نے کی ؟ مجھے یاد ہے جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہم افغان جہاد کاڈھول بجا رہے تھے توہم میں سے کئی اس بات سے پریشان تھے کہ اس کا اثر ہمارے معاشرے پر کیا پڑے گا ۔ مغربی سفارت کاروں سے اکثر بحث رہی تھی کہ اس جہاد کی قیمت ہم کیا دیں گے ۔ کبھی ہم کسی اور کی جنگ کو اپنا لیتے ہیں اور کبھی اپنی جنگ کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں ۔ موجودہ حالات میں بھی ، اپنی جنگ اور امریکہ کی جنگ کے بارے میں جو الجھن لوگوں کے ذہنوں میں ہے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے یہ بات تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سماجی انصاف قائم کرنے کی جنگ تو ہماری ہے ۔ فرقہ واریت اور مفلسی اور جہالت کے خلاف لڑی جانے والی جنگ تو ہماری ہے اور عمران خان کوکوئی بتا دے کہ یہ وہ جنگ ہے جو کوئی لڑ بھی نہیں رہا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر امریکہ کسی وجہ سے یہ چاہے کہ پاکستان کی لڑکیاں تعلیم حاصل کریں تو ہم امریکہ کا منہ چڑانے کے لئے یہ کہیں کہ نہیں ، ہمیں یہ نہیں چاہیے ۔ ایک طرف ملالہ یوسف زئی ہے ۔ دوسری طرف طالبان ہیں آپ کس کے ساتھ ہیں ؟
پاکستانی فوج کے بارے میں کئی اور سوال بھی سر اٹھاتے ہیں ۔ یہ شاید فوج کے اپنے مفاد میں ہے کہ ان سوالوں پر ایمانداری سے غور کیا جائے ۔ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے اور قوموں کی قوت اور ان کی بقاء کا دارومدار فوج کے بجائے معشیت اور معاشرتی صلاحیت پر ہے ۔ اگر انڈیا کے پاس ایٹم بم ہے تو ہمیں بھی ایٹم بم چاہیئے ۔ چلئے ، اس منطق کوکسی فساد کے خوف کی وجہ سے تسلیم کر لیتے ہیں ۔ لیکن اگر یہ دوبد نصیب ملک ایٹمی خودکشی سے بچے رہتے ہیں تو پھر مقابلہ توان باتوں پر ہوگا کہ تعلیم میں کون آگے ہے ۔ ریسرچ میں کس کا پلہ بھاری ہے ۔ کس کی فی کس آمدنی کتنی ہے ۔ دنیا میں کس کے مال کی زیادہ مانگ ہے ۔ یہ تو ایک بہت بڑا میدان ہے اور یہ تو خدا کا شکر ہے کہ کرکٹ اور ہاکی میں ہم خود کو منوا سکتے ہیں ۔ لیکن مثلاً ہم فلمیں کیوں ان سے اچھی نہیں بناسکتے ؟ کتابیں کیوں ہمارے یہاں زیادہ نہیں پڑھی جاتیں ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک بڑا چیلنج ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم جاگیردارنہ اور قبائلی سوچ کے شکنجے میں گرفتار ہیں ۔ ہماری جمہوریت بھی داغدار ہے اور فوجی مداخلت بھی ہماری نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی ۔ پھر بھی اگر ہمارا معاشرہ ملالہ یوسف زئی پیدا کرسکتا ہے تو ہم پہاڑوں کوسر کرسکتے ہیں مگر یہ بات کون کسے سمجھائے ۔آرمی کی سبز کتاب ، میں نئے باب کے اضافے کواگر میں نئے سال کا تحفہ کہوں تو اس سے اس لیے زیادہ خوشی نہیں ہوتی کہ نئے سال کے کچھ ایسے تحفے بھی ہیں جو خنجر کی طرح دل میں گھپے ہوئے ہیں ۔ پہلی جنوری ہی کو ، صوابی میں ایک فلاحی ادارے کی گاڑی پر ، نامعلوم افراد ، نے فائرنگ کی اور7افراد جاں بحق ہوئے ۔ ان میں6خواتین شامل تھیں ۔ یہ المیہ کتنا بڑا ہے ، اس کا بیان میرے بس کی بات نہیں ۔ اس سے پہلے پولیو کے قطرے پلانے والی رضا کار خواتین کاکراچی اور پشاور میں قتل بھی روح فرسا تھا ۔ میں صحافی ہوں اور میرے لئے زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ6فلاحی کام کرنے والی خواتین کے قتل کومیڈیا نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔ کراچی میں ، ایم کیوایم کے جلسے میں ڈاکٹر طاہر القادری اور الطاف حسین نے جو تقریریں کیں اور اس کے بعد جو بم کا دھماکہ ہوا ، وہ یقینا اہم خبریں ہیں ۔ سیاست میں جو ہلچل پیدا ہوتی ہے ، اس پر تبصرہ بھی ضروری ہے لیکن خدا کا واسطہ ہے 6خواتین کااس طرح قتل اور یہ خبر جیسے بھیڑ میں کھو گئی ۔ اب کیا اس کی شکایت میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے جاکر کروں ؟
تازہ ترین