• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے ساتھ میری دوستی 76سال پرانی ہے۔ بہت عرصے تک ہم دونوں اکٹھے جاگتے رہے ہیں میں جب اپنے اہلخانہ کے ساتھ گھر کی چھت پر سویا کرتا تھا ان دنوں کی رفاقت بہت یاد آتی ہے۔ نیلے آسمان پر روشن ستاروں کی بارات اتری ہوئی تھی اور ٹھنڈی ہوا مجھے مدہوش کر رہی تھی لیکن میں رات کے ساتھ جاگتا رہتا کہ مجھے اس سے بہت سی باتیں کرنا ہوتی تھیں۔ وہ مجھے اپنی کالی چادر کی اوٹ میں لے لیتی اور پھر ہم باتوں میں محو ہو جاتے۔ رات کے ساتھ میرا یہ رومانس بہت عرصے تک جاری رہا !

ایک دن میں نے رات سے پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے؟ وہ اس سوال پر بہت ہنسی ۔اس نے کہا جب سے تمہارے جدامجد اس دنیا میں آئے ہیں۔میں اس وقت سے موجود ہوں۔ میں نے پریشان ہو کر کہا اس کا مطلب ہے تمہاری عمرکروڑوں سال ہے۔ اس پر وہ ایک مرتبہ پھر ہنسی اور بولی ان حوروں کی عمر بھی تو میرے جتنی ہے جن کی خواہش میں تم مرے جاتے ہو ؟تم نے غالب کا یہ شعر نہیں سنا؎

ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں

میں نے کہا سنا ہے لیکن جب وہ ہمیں ملیں گی نوجوان ہوں گی۔ وہ بولی کیا میں تمہیں جوان نہیں لگتی! میں نے جواب دیا بالکل لگتی ہو لیکن اس کی کیا وجہ ہے ؟کہنے لگی میں بار بار پیدا ہوتی ہوں اور ہر بار پہلے سے زیادہ جوان لگتی ہوں مگر میں بار بار مرتی بھی ہوں۔ ملوکیت شہنشاہیت اور آمریت رات کے اندھیروں کو جنم دیتی ہیں پھر تاریخ کے جھروکوں سے کوئی جری مرد نمودار ہوتا ہے جو ان اندھیروں کو زمین میں دفن کر دیتا ہے اور ان کی جگہ روشنیاں لینے لگتی ہیں مگر تمہیں علم نہیں کہ رات کتنی سخت جان ہے !یہ کہتے ہوئے اس کی شکل بھیانک ہو گئی اور مجھے پہلی بار اس سے خوف آیا لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ نارمل ہو گئی۔ وہ کہہ رہی تھی ’’تم رات کو نہیں جانتے یہ کبھی کبھی دن کے بھیس میں بھی آتی ہے اور سادہ لوح لوگ اسے اجالوں کی نوید سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں اورپھر ایک طویل عرصے کیلئے رات ان پر مسلط ہو جاتی ہے۔

دراصل میرا بچپن جس قصبے میں گزرا تھا وہاں بجلی نہیں پہنچی تھی چنانچہ سارا قصبہ اندھیروں میں ڈوبا رہتا، میں آہستہ آہستہ ان اندھیروں کا عادی ہوتا چلا گیا اور پھر ایک وقت آیا کہ اندھیرے نے میرے اندر جگہ بنانا شروع کر دی۔ دن کو اندھیرا کم ہوتا تھا لیکن رات اترتی تو ہر طرف اندھیروں کا راج ہوتا بس رات سے میرا رومانس یہیں سے شروع ہوا۔ اندھیروں سے میری محبت دیکھتے ہوئے رات روشنی کی کوئی کرن مجھ تک نہیں پہنچنے دیتی تھی۔ایک دفعہ ہمارے قصبے میں ایک شخص آیا بالکل مخفی سا،اس کو ہماری زبان بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کی پیشانی بہت منور تھی۔ وہ جدھر سے گزرتا درودیوار روشن ہوتے چلے جاتے۔لوگوں نے اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیا حتیٰ کہ ایک دن آیا کہ ایک جم غفیر اس کی قیادت میں رات سے جنگ کرنے اپنے گھروں سے نکل آیا۔ روشن پیشانی والا یہ شخص آگے آگے تھا اور لوگ اس کی روشنی کے پیچھے چلتے چلے آ رہے تھے۔رات نے جب غصے سے بھرے ہوئے اس گروہ کو دیکھا تو وہ خوفزدہ ہو گئی۔ اس رات اس نے مجھے اپنے بازوئوں میں لے لیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کیا تم چاہو گے کہ تمہارے قصبے کے تاریک درودیوار روشن ہو جائیں۔ میں کہ اندھیروں کا پلا ہوا تھا اس خیال سے لرز کر رہ گیا۔میں نے کہا ہرگز نہیں !میرا جواب سن کر اس کا چہرہ خوشی سے روشن ہو گیا ۔اس نے کہا ’’تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ دیکھو میں کیا کرتی ہوں۔اس نے تالی بجائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ننگی تلواریں ہاتھ میں تھامے کتنے ہی لوگ ادھر ادھر سے نکل آئے۔ ان میں میرے قصبے کا زمیندار، ایک مذہبی پیشوا، ایک دانشور اور ایک گورا تھا۔ اس سے پہلے مجھے کبھی احساس نہیں ہوا تھا کہ یہ لوگ بھی رات کے طرفدار ہیں چنانچہ میں خود کو اکیلا محسوس کیا کرتا تھا مگر انہیں اچانک اپنے درمیان پاکر میرے اعتماد میں اضافہ ہو گیا۔ یہ لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے روشن پیشانی والے شخص کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ یہ شخص ان کا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا مگر آہستہ آہستہ وہ کمزور ہوتا چلا گیا اور بالآخر ایک دن وفات پا گیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ لوگ اس روشن پیشانی والے شخص کی وفات کے بعد بھی رات سے اپنی جنگیں جاری رکھیں گے لیکن وہ سب دیکھتے ہی دیکھتے تتربتر ہو گئے۔ اس رات میں نے اور رات نے فتح کا جشن منایا۔

میں اس دوران اپنے خاندان کےساتھ اس قصبے سے ہجرت کرکے ایک بڑے شہر میں آ گیا تھا۔ یہ شہر روشنیوں کا شہر تھا مجھے اس شہر سے وحشت ہوتی تھی۔ میں سارا دن کونوں کھدروں میں چھپنے کی کوشش کرتا جہاں چند لمحوں کے لئے مجھے اندھیرے میسر آتے او ریوں کچھ دیر کیلئے میں اپنے اندر زندگی کی رمق محسوس کرتا لیکن میری یہ زندگی عارضی ہوتی کہ یہاں روشنیاں میرا پیچھا کرتی رہتی تھیں تاہم یہ پرانی بات ہے اب کئی برسوں سے روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوب چکا ہے اور اس شہر پر رات مسلط ہو چکی ہے۔ رات جو میرا پہلا عشق ہے اب میں ایک بار پھر اس کے ساتھ جاگتا ہوں وہ مجھے اپنی کالی چادر کی اوٹ میں لے لیتی ہے اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہتی ہے میں نہ کہتی تھی کہ اندھیروں اور اجالوں کی جنگ جاری رہتی ہے۔ میں اگرچہ بار بار پیدا ہوتی ہوں اور ہر بار پہلے سے زیادہ جوان لگتی ہوں مگر میں مرتی بھی ہوں لیکن میری موت بہت عارضی ہوتی ہے۔ میرے مسیحا مجھے ہر بار زندہ کر دیتے ہیں۔ جانتے ہو یہ مسیحا کون ہیں ؟میں پوچھتا ہوں کون ہیں۔رات کہتی ہے یہ تم ہو ‘‘ اور اس کے بعد اس نے انگلی سے چاروں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میرے مسیحا یہ ہیں۔وہ ہیں ‘‘ میری آنکھوں کے سامنے ان مسیحائوں کی شکلیں گھومنے لگیں اور مجھے لگا مجھے نئی زندگی مل رہی ہے۔

میں نے ان لمحوں میں سرخوشی کے عالم میں اسے اپنے گلے سے لگایا اور کہا میں نے تمہارے لئے ایک شعر کہا ہے یہ سن کر رات خوشی سے جھوم اٹھی اور بولی ’’سنائو‘‘ میں نے اسے اپنایہ شعر سنایا ؎

لگتا ہے بہت دیر رکے گی میرے گھر میں

اس رات کی آنکھوں میں شناسانی بہت ہے

یہ شعر سن کر ایک لہر ابھری اور اس نے کہا اللہ کرے ایسا ہی ہو مگر دیکھو کچھ دریچوں سے روشنیاں چھن کرآ رہی ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں بکھری ہوئی یہ روشنیاں ایک دن روشنی کے دھارے کی شکل اختیار نہ کر لیں۔ اپنے ساتھیوں سے کہنا وہ یہ سب دریچے بند کرا دیں۔ جو رات کے گھپ اندھیروں میں امید کی روشنی بن کر اردگرد کے ماحول کی سیاہی کم کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

میں نے ہامی بھر لی اور اب ایک مدت سے میں رات کے متوالوں سے رابطے کرنے میں لگا ہوں!

تازہ ترین