کراچی(تجزیہ:۔سیدمنہاج الرب)کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کی اچانک کراچی آمد اور متحدہ قومی موومنٹ سے علیحدگی اور اسکے قائد کے بارے میں انکشافات نے ملکی خاص کر کراچی کی سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑدی ہے کہ آیا مصطفیٰ کمال آئے ہیں یا لائے گئے ہیں ۔ مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم اور اسکے قائد کے بارے میں جو انکشافات کئے وہ نئے نہیں تھے۔ اس سے قبل بھی یہ الزامات ایم کیو ایم پرلگتے رہے ہیں۔تاہم مصطفیٰ کمال ، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر کا ایم کیو ایم سے علیحدگی اور ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان یقیناً حیران کن ہے۔ مصطفیٰ کمال اپنی تین سالہ خودساختہ جلاوطنی ترک کرکے ایک ایسے وقت میں کراچی آئے جب کراچی میں نئے میئر کاانتخاب ہونا ہے اور آتے ہی انہوں نے ایک نئی پارٹی بناکرملک خاص کر کراچی کی خدمات کا اعلان کیا۔ انکی اس اچانک آمد اور انکے اعلانات پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اس میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مصطفیٰ کمال خودکراچی آئے ہیں یا پھر لائے گئے ہیں۔ انکے پیچھے کون لوگ ہیں جن کی آشیرباد پر انہوں نے اپنی پارٹی سے علیحدگی اور اسکے غلط کاریوں کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم پر کرپشن اور بدعنوانیوں کا بھی الزام لگایا اور اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایاکہ انکے دور میں 300 ارب روپے کے منصوبوں پر کوئی کرپشن نہیں کی گئی۔ اگر مصطفیٰ کمال کی یہ بات درست مان لی جائے تواس سے انکے ایم کیوایم پر لگائے جانے والے الزامات کی کی نفی ہوتی ہے یعنی یہ سخت پارٹی ڈسپلن کا ہی نتیجہ تھا کہ کوئی کرپشن نہیں ہوئی۔ اسی طرح ڈاکٹرصغیر نے کہاکہ ان کے دور میں ایک ہزار ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر دی گئی تو اس کا کریڈٹ بھی یقیناً ایم کیو ایم کو ہی جاتا ہے۔ ان دونوں بیانات سے ایم کیو ایم پر کرپشن اور بدعنوان کے الزامات کی خود ہی انہوں نے نفی کردی۔ سیاسی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مصطفیٰ کمال تین سال کراچی اور ایم کیو ایم سے دور رہے مگر ایم کیو ایم کی نمائندگی کرتے رہے اور استعفیٰ نہیں دیا۔ کیونکہ ان کو امید تھی کہ شاید بلدیاتی انتخاب میں پارٹی واپس بلاکر ایک بار پھر نظامت کے عہدے پرفائز کریگی اور وہ بھی گورنرسندھ کی طرح طویل مدت تک کراچی پر راج کرینگے انکے پیچھے طاقتیںبھی یہی چاہتی تھیں کیونکہ اس سے ان کو بھی فائدہ ہوتا لیکن جب یہ امید دم توڑ گئی اور کراچی کی نظامت کیلئے وسیم اختر کا نام سامنے آیااور شاید اس کیلئے وہ تیار نہیں تھے اور اس کیلئے وہ صرف اور صرف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کوذمہ دار سمجھتے تھے اور جو سفر انکی نظامت سے شروع ہوا وہ ایم کیو ایم کی حجامت پر ختم ہورہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک ایسی پارٹی جس کا اب تک نام بھی نہیں رکھا گیا ہے کا مستقبل کیا ہوگااور کیا مصطفیٰ کمال اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔