جگدیش چند آنند المعروف جے سی آنند 1922ء میں پنجاب کے قصبے بھیرہ میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے فلمی زندگی کا آغاز 1937ء میں رائے صاحب جندن مل اور اندر کمار کے ادارے اندرالوری پکچرز میں ملازمت سے کیاتھا اور پھر دن رات اپنی ذہانت اور محنت سے خود فلم تقسیم کار بن گئے۔ 1938ء میں اپنے ادارے ایور ریڈی کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت پہلی فلم ’’سائیکل والی‘‘ریلیز کی۔ ان کے کام کا ایک سنہری اصول یہ تھا کہ وہ فلم کی کام یابی یا ناکامی کی بنیاد پرمتعلقہ لوگوں کومعاوضے کی ادائیگی نہیں کرتے تھے، بلکہ زبان اور معاہدے کے تحت لوگوں کو معاوضہ ادا کرتے تھے۔ انہوں نے بہ طور فلم ساز ’’سسی‘‘، ’’مس 56‘‘، ’’ہیر‘‘، ’’تاج محل‘‘، ’’حمیدہ‘‘ اور دیگر فلمیں پروڈیوس کیں۔ ان کا ادارہ آج بھی پُوری آب و تاب کےساتھ فلمی صنعت کی ترقی میں نمایاں کردارا دا کررہاہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی پروڈکشن میں بھی اس کی دل چسپی اور خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
یہ 1938ء کا ذکر ہے، جب ایم اے جناح روڈ پر واقع مولائی مینشن میں ایک تقسیم کار ادارے ایور ریڈی پکچرز کا دفتر قائم ہوا۔ جے سی آنند اور ان کے والد لالہ بود راج آنند نے شب و روز کی محنت سے یہاں فلم ڈسٹری بیوشن کے کام کی شروعات کیں۔ جگدیش صاحب نے اس دفتر سے پہلے اس زمانے میں اسی بلڈنگ کے قریب ایک ایرانی ہوٹل میں بیٹھ کر اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں اس کام کا آغاز کیا۔ وہ اپنی محنت، ایمان داری کی بنیاد پر بہت جلد اس کام میں مقبول ہوئے۔ زبان کے پکے اور سچے اصول پر ساری زندگی کاربند رہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب کراچی میں صرف تین یا چار بڑے تقسیم کار ادارے کام کررہے تھے۔ 1940ء میں ان کی شادی کے بعد مولائی مینشن سے ان کے ادارے کادفتر کچھ عرصے کے لیے نشاط سنیما میں منتقل ہوگیا تھا، پھر دوبارہ دفتر مولائی مینشن کے قریب آگیا۔ آسمان پر بے شمار ستاروں کی موجودگی میں چاند کی موجودگی سب پر عیاں اور واضح ہوتی ہے، اسی طرح پاکستان میں فلم ڈسٹری بیوشن کے سلسلے میں کئی ادارے آئے، مگر ان سب میں جے سی انند کے ادارے کانام اپنی نمایاں خصوصیات کا حامل رہا اورآج بھی یہ ادارہ پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنی خدمات پیش کررہاہے۔ یہ کہنا کسی طرح بھی بے جا نہ ہوگاکہ پاکستان کی فلمی صنعت اور ٹریڈ کی ترقی و ترویج میں جن لوگوں اور اداروں نے اپنے کام میں نمایاں خدمات انجام دیں، ان میں آنجہانی جے سی آنند کا نام سرفہرست ہے۔ آنجہانی جے سی آنند کے بعد لوگوں کی یہ قیاس آرائیاں عام تھیں کہ اب ان کا ادارہ نہیں چل پائے گا۔ اس وقت ان کے دونوں بیٹے لندن میں تھے۔ ان کے بڑے صاحب زادے ستیش چند آنند لندن سے باپ کی ارتھی میں شامل ہوئے اور انہوں نے اپنے والد کے ادارے کی باگ ڈور سنبھالنے کااعلان کرکے سب قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کردیا۔ پھر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ انہوں نے اپنے والد کے سچے اور سنہری اصولوں پر اس کام کے وقار کو اسی شان وشوکت کےساتھ جاری رکھ کراس ادارے کی ساکھ کو کبھی متاثر نہیں ہونے دیا۔
آنجہانی جے سی آنند نے کسی دولت مند گھرانے میں جنم نہیں لیا، بلکہ وہ اپنی محنت اور لگن سے بڑے آدمی بنے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں ہر وقت چھوٹے آدمی اور غریبوں کی مشکلات کا احساس رہتا، وہ بغیر کسی شہرت اور لالچ کے لوگوں کی مدد کرنے کے عادی تھے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے فلم تقسیم کار تھے، جس قدر فلمیں انہوں نے ریلیزکیں، اتنی بڑی تعداد میں کوئی دوسرا تقسیم کار ادارہ نہ کرپایا۔ کراچی، لاہور اور ڈھاکا میں ان کے دفاتر موجود تھے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ان کو لاکھوں کانقصان ہوا، مگر ان کے چہرے پر کبھی پریشانی کے آثار نظرنہیں آئے۔ ان کی باتیں بھی بے حد دل چسپ اور حاصل مطالعہ ہوا کرتی تھیں، ایک بار کسی نے شباب کیرانوی کے بارے میں کہا کہ انہیں بہت سے لوگ لوٹ رہے ہیں، جس کی انہیں خبرنہیں۔ جگدیش صاحب بولے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بابا گرو کی بوری سے سیکڑوں چیونٹیاں اور چوہے چمٹے رہتے ہیں، مگر بوری کا کچھ نہیں بگڑتا، وہ جب بھی فروخت ہوتی ہے، بوری ہی فروخت ہوتی ہے۔ اس مفاد پرست دنیا میں وہ ایک پھل دار درخت کی مانند تھے۔ جو پھل کے ساتھ لوگوں کو سایہ بھی فراہم کرتے تھے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کے وہ بہت بڑے محسن تھے انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان ادارے کے تحت ریلیز ہونے والی چند یادگار اور کام یاب فلموں میں سسی، مس 56، نور اسلام، سہیلی، شام ڈھلے، اولاد، ہیر، ڈاچی، عشق لیلیٰ، سنگدل، زمانہ کیا کہے گا، مہتاب، ماں کے آنسو، تیس مار خان، عادل، آگ، آئینہ، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، دلا بھٹی، انسان اور آدمی، آس، بنارسی ٹھگ، بوبی، دامن اور چنگاری، دہلیز، اک گناہ اور سہی، احساس، ناگ منی، نوکر، غریبوں کا بادشاہ، ہانگ کانگ کے شعلے، جان پہچان، کبھی الوداع نہ کہنا، خوشبو، میرا نام ہے محبت، مکھڑا، نوکر تے مالک، سالا صاحب، پردے میں رہنے دو، رنگیلا اور منور ظریف، سلاخیں، امرائو جان ادا، ثریا بھوپالی، چیف صاحب، سنگم، دیوانے تیرے پیار کے، ضد، بیٹا، جیوا، جو ڈر گیا وہ مر گیا، شبانہ، شمع، قسم اس وقت کی، عجب خان، عذرا، حاتم طائی، انسانیت، کلرک، محبوب وغیرہ شامل ہیں۔