کہتے ہیں یہ سال میں خواتین کے لئے سب سے بہترین وقت ہوتا ہے۔ ہر جانب بڑے بڑے ایونٹس منعقد کیے جاتے ہیں، مائیکروفون سے بڑے بڑے اعلانات اور تقاریر ہوتی ہیں۔ خواتین اس موقع پر اپنے کھویا ہوا جذبہ جگانے اور نئے دیے جلانے کے عزم کا اظہار کرتی ہیں۔لیکن یہ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے اور جب پالیسی ساز بہترین تقاریر کرنے کے بعد کامیابی سمیت کر لوٹتے ہیں تو ایک اور ہی دنیا ان کی منتظر ہوتی ہے ۔ ایک ایسی دنیا جہاں تقاریر زیادہ معنی نہیں رکھتیں اور سیاسی لابنگ اور مبہم سیاسی اتحاد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کی خواتین درحقیقت میں کیا حق رکھتی ہیں۔
پاکستان میں جب بھی خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو عموماً حقیقت اور جذبات میں ایک سخت مقابلہ دیکھنے کو ملتا ہے اور سیاسی رسہ کشی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کی جانے والی اصلاحات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور انہیں عام سا نقصان تصور کیا جاتاہے۔
وائلنس اگینسٹ وومن سینٹر (وی اے ڈبلیو سی) اور وومن آن ویلز کی مثال لے لیں۔عموماً دائیں بازو کے بیانیے کے قریب رہنے والی مسلم لیگ ن کی سابقہ پنجاب حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے کا ایجنڈا اپنا یا۔جلد ہی خواتین کے تحفظ کےقانون پنجاب وومن پروٹیکشن ایکٹ 2016نے بھی ناقدین کو حیران کر دیا۔ کسی کو امید نہیں تھی کہ مسلم لیگ ن اس معاملے میں سبقت لے گی اور اس حوالے سے ایسی قانون سازی کے لئے قدم بڑھا دےگی ۔ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے ایک بہترین طریقہ کار بھی وضع کیا گیا۔ وی اے ڈبلیو سی نے جنوبی ایشیا میں پہلی مرتبہ تشدد کا شکار ہونے والوں کی بنیادی ضروریات کو مدنظر رکھا۔ اس سینٹر میں پولیس، تفتیش،محفوظ چھت ، طبی و قانونی سہولیات اور بحالی سب کچھ ایک ہی چھت کے نیچے فراہم کی گئیں ۔ اس سینٹر میں تمام ملازمین بھی خواتین ہی رکھی گئیں۔
ایسی خواتین جن کے پاس جبر اور تشدد کے خلاف کبھی بھی اپنی آواز اٹھانے کا آپشن موجود نہیں تھا ، میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ایک بہت ہی کم عرصے میں وی اے ڈبلیو سی نے صرف ایک ضلع میں تشدد کا شکار ہونے والی 2900 خواتین کی مدد کی۔یہ تو محض سمندر کا ایک قطرہ تھا اور پنجاب کے دیگر 36 اضلاع میں بھی اسی طرح کے سینٹرز کھولنے کی کوششیں تیز کر دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، پنجاب میں خواتین کے لئے موبیلٹی ( نقل وحرکت )کو آسان بنانے کے لئے وومن آن ویلز جیسا منفرد پروگرام بھی شروع کیا گیا۔ 4ہزار سے زیادہ خواتین کو موٹرسائیکل چلانے کی تربیت فراہم کی گئی اور 700 کو کم قیمت میں موٹرسائیکل فراہم کیے گئے۔ حکومت تیزی سے دقیانوسی تصورات کو توڑ رہی تھی اور پاکستان میں پہلی مرتبہ پنجاب میں خواتین کی معاشی شراکت کے لئے موبیلٹی کو اہم خیال کیا گیا ۔
نظام میں اصلاحات کو مزید تیز کرنے کے لئے خواتین کے تحفظ کی ایک اتھارٹی بھی قائم کی گئی جس کا کام وی اے ڈبلیو سی اور وومن آن ویلز کے انتظام کو دیکھنا تھااور ان کے پھیلاؤ کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن،گزشتہ جولائی کے انتخابات کے بعد خواتین کو بااختیار بنانے کےایک بہت ہی اچھے تصور کو پس پشت ڈال دیا گیاہے۔ یہ سینٹر اور اس کے ملازمین گزشتہ 9 ماہ سے بغیر فنڈز کے کام کر رہے ہیں جس سے ان کی روزمرہ زندگی اور اس سینٹر سے فراہم کی جانے والی سروسز متاثر ہو رہی ہیں۔ وومن آن ویلز کی سبسڈی اسکیم فنڈز کی موجودگی کے باوجود روک دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس تاخیر میں بیوروکریسی کے مسائل حائل ہیں جو کہ حقیقت کے برعکس ہے۔ سیاسی عزم کے بغیر خواتین کو مزید بااختیار نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔
وی اے ڈبلیو سی اور وومن آن ویلز جیسے منصوبوں کو حکومت کے اندر اور باہر دونوں سے بھرپور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر سیاست دان چاہیں تو کوئی بھی بیوروکریٹک عمل ان اصلاحات کو نہیں روک سکتا۔
وی اے ڈبلیو سی اور وومن آن ویلز ایسے منصوبے ہیں جو ہمیں بتاتےہیں کہ اگر آپ میں کچھ کرنے کی جستجو ہو تو خواتین کو بااختیار بنانا صرف تقاریر تک محدود نہیں رہتا بلکہ آپ اس حوالے سے عملی طور پر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ لیکن خواتین کے حوالے سے کیے جانے والے سیاسی وعدے اکثر سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔
حکومت کے اندر بھی خواتین کے حقوق کے بارے میں کام کرنے والی آوازیں ان منصوبوں کی حامی ہیں لیکن انہیں مرد قانون سازوں کو اس میں شامل کرنے کی لازمی کوشش کرنی چاہیے۔اس مرتبہ کا خواتین کا عالمی دن ہم سب کے ضمیر کی شکست تصور ہو گا اگر ہم اپنی زندگی ، عظمت اور وقار کے لئے جدوجہد کرنے والی بے شمار خواتین کو نظرانداز کر دیں۔وی اے ڈبلیو سی ظالمانہ سوچ سے بھاگنے کی کوشش کرنے والی خواتین کو وہ تحفظ فراہم کرتا ہے جو ان کا حق ہے۔ اسی طرح وومن آن ویلز انہیں بغیر ڈر کے آگے بڑھنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے۔