• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں بھارت کی جانب سے پاکستان پر فضائی حملے کی کوشش کرنے پر پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی میں دو بھارتی مِگ طیارے مار گرائے جانے کے بعد نریندر مودی کا اپنی فضائیہ کی ناقص کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بیان سامنے آیا کہ ’’پاک بھارت کشیدگی میں ہم نے رافیل طیاروں کی کمی محسوس کی، اگر آج ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے تو نتائج کچھ اور ہوتے‘‘۔ شکست خوردہ مودی کے اس اعترافی بیان کے بعد بھارتی حکومت کی فرانس سے رافیل طیارے حاصل کرنے کی کوششوں میں ایک بار پھر تیزی آگئی ہے۔ یاد رہے کہ 2012میں کانگریس حکومت نے فرانس کی ڈی سالٹ کمپنی سے 126رافیل جنگی طیارے خریدنے کا اعلان کیا تھا اور فی طیارہ قیمت 715کروڑ روپے طے پائی تھی۔ ابتدائی معاہدے کے تحت رافیل طیارے فرانس کی ڈی سالٹ کمپنی نے بھارتی کمپنی، ہندوستان ایروناٹکس کے ساتھ مشترکہ طور پر بھارت میں تیار کرنا تھے مگر یہ معاہدہ بعض وجوہات کی بنا پر پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا، تاہم 2014میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد نریندر مودی جب فرانس گئے تو انہوں نے انتہائی عجلت میں فرانس سے 36رافیل طیارے خریدنے کا اعلان کردیا اور معاہدے کے مطابق فی طیارہ قیمت 1600کروڑ روپے طے پائی۔ بھارتی قانون کے تحت کسی بھی غیر ملکی کمپنی کو طے پانے والے معاہدے کی 30فیصد سرمایہ کاری بھارت میں لازماً کرنا ہوتی ہے مگر طیارہ ساز فرانسیسی کمپنی ڈی سالٹ نے بھارت کی سرکاری کمپنی، ہندوستان ایروناٹیکس کے بجائے انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس کا انتخاب کیا۔ جس کے بعد کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے نریندر مودی پر الزام عائد کیا کہ رافیل طیاروں کی خریداری میں کرپشن کی گئی ہے اور طیاروں کی اصل قیمت سے زائد ادائیگی کر کے ریلائنس کمپنی کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ ان الزامات کے بعد سابق فرانسیسی صدر اولاند کا یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ ’’بھارتی حکومت نے 11کھرب روپے مالیت کے 36رافیل طیاروں کی خریداری کیلئے انیل امبانی کی دیوالیہ کمپنی کو پارٹنر بنانے کی تجویز دی تھی‘‘۔ سابق فرانسیسی صدر کے اس انکشاف نے بھارتی سیاست میں ہلچل مچا دی اور رافیل طیاروں کی خریداری کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔

بھارتی فضائیہ میں بڑی تعداد میں روسی ساختہ مگ 21طیارے شامل ہیں جو بھارت نے 1964میں روس سے حاصل کئے تھے۔ پرانی ٹیکنالوجی کے حامل یہ طیارے کافی بوسیدہ ہوچکے ہیں جس کے باعث آئے دن اِن طیاروں کے کریش ہونے کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مگ 21طیارے کو ’’فلائنگ تابوت‘‘ کےنام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی فضائیہ کے مقابلے میں پاک فضائیہ کے پاس جنگی طیاروں کی تعداد انتہائی کم ہے تاہم جدید ٹیکنالوجی کے حامل ایف سولہ طیاروں کے باعث پاک فضائیہ کو بھارتی فضائیہ پر برتری حاصل ہے۔ پاک فضائیہ میں اس وقت 68ایف سولہ طیارے شامل ہیں جو پاکستان نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران امریکہ سے حاصل کئے تھے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ تقریباً 47ارب ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ صرف 10ارب ڈالر ہے مگر اِس قلیل بجٹ کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج اور دفاعی ہارڈویئرز بھارت کے مقابلے میں بہتر ہیں۔

ماضی میں بھارت میں دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے حوالے سے کئی اسکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں۔ 1986میں راجیو گاندھی دور حکومت میں سوئیڈن سے بفروز گن کے 1.4ارب ڈالر کے معاہدے میں کرپشن اسکینڈل سامنے آیا تھا جبکہ حالیہ مثال رافیل طیاروں کا اسکینڈل ہے۔ اس کے بر عکس پاکستان میں سخت احتسابی نظام کے باعث پاک فوج زیرو کرپشن کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی بجٹ کم ہونے کے باوجود پاکستان کے پاس بھارت سے بہتر دفاعی ہارڈویئرز موجود ہیں۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھارتی فوج کے مقابلے میں پاک فوج کی برتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری مسلح افواج گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں نبردآزما ہے جس سے فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ہمیں اپنی افواج بالخصوص پاک فضائیہ پر فخر ہے جس نے اپنے محدود وسائل کے باوجود خود سے کئی گنا بڑے دشمن ملک کی فضائیہ کے دانت کھٹے کر کے ہمارے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں۔ پاکستان سے شکست کھانے کے بعد نریندر مودی نے ایک بار پھر فرانس سے رافیل طیاروں کے حصول کی کوششیں تیز کردی ہیں لیکن شاید مودی کو یہ معلوم نہیں کہ جنگیں طیاروں سے نہیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں۔ بھارت میں اپریل مئی میں عام انتخابات متوقع ہیں جس میں کامیابی کیلئے مودی کی حکمت عملی اب مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل (ر) رام داس کا یہ انکشاف قابل غور ہے کہ ’’بالاکوٹ کارروائی ووٹرز کا دل لبھانے کیلئے رچائی گئی تھی‘‘۔ رام داس نے اپنے خط میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ ’’سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے فوج کو استعمال کرنے کا عمل روکا جائے۔‘‘

بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ کے انکشاف کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پلوامہ واقعہ الیکشن جیتنے کیلئے نریندر مودی کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس میں ناکامی کے بعد مودی عوام میں غیر مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھتے ہوئے نریندر مودی اپنے ہر انتخابی جلسے میں پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور اُن سے اب یہ خطرہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کرنے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات سمیت کسی بھی مِس ایڈونچر کی حماقت کر سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پلوامہ واقعہ اور رافیل اسکینڈل آئندہ بھارتی الیکشن میں مودی کی وجہ شکست ثابت ہوں گے۔

تازہ ترین