• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر صدیقی

احمدصاحب کا بیٹانوفل چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور بیٹی کا ابھی اسکول میں داخلہ نہیں ہواتھا۔احمد صاحب کا گھرانے کے اپنے پاس پڑوس سے اچھے تعلقات تھے، کسی سے کوئی شکایت نہیں تھی، مگر سامنے والے مکان میں جونئے کرائے دار فہیم صاحب آئے تھے،ان کے گھر سے دن میں کئی بار چھوٹی موٹی چیز یں منگوائی جاتی تھیں۔صبح ہوتے ہی دروازے پر دستک ہوتی تو احمد صاحب سمجھ جاتے کہ سامنے والوں کا بیٹا کوئی چیز مانگنے آیا ہوگا، جبکہ ان کی بیگم نیک دل خاتون تھیں وہ کوئی چیز دینے سے انکار نہیں کرتی تھیں۔

کبھی ہری مرچ ،کبھی گرم مسالا ، فرائی پین توکبھی ٹماٹر یا پیاز وغیرہ ان سب چیز وں کے علاوہ ایک چیز وہ تواتر کے ساتھ مانگ کر لے جاتے تھے اور وہ تھی چارجنگ لائٹ رات کو بجلی کے جاتے ہی دروازے پر دستک ہوتی تونوفل کی امی آنے والے بچے کو پیار کرتیں اور لائٹ اسے دے دیتیں۔

ایک دن احمد صاحب چڑ گئے،’’ کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ روز ہی چار جنگ لائٹ مانگ کر لے جاتے ہیں، حد ہوتی ہے کسی بات کی ایک لائٹ نہیں خرید سکتے زیادہ مہنگی تو نہیں ہے۔‘‘نوفل کی امی نے خاموشی سے انہیں دیکھا، مگر کچھ بولیں نہیں۔ اگلے روز جب سامنے والوں کا لڑکا نہیں آیا تو انھیں خیال ہوا اورانھوں نے نوفل کو یہ کہلا کر بھیجا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف کہہ دیا کریں۔ وہ سمجھیں کہ ان کے شوہرکی بات شاید ان کے بیٹے نے سن کر اپنےگھر پر ذکر کر دیا ہو گا ۔ شاید وہ لوگ محتاط ہو گئے، مگر نوفل نے جب آ کر بتایا کہ وہ لوگ گھر پرنہیں ہیں توانہوں نے سکھ کا سانس لیا۔

دوسرے دن رات کو بجلی جاتے ہی لڑکا آن کھڑا ہوا اور اسے لائٹ دیتے ہوئےنوفل بہت خوش ہوا کیوں کہ وہ ایک حساس بچہ تھا ،اسے اپنے ابو کی ناراضگی کا احساس بھی تھا ،اس نے سوچا کہ وہ پیسے جمع کر کے ایک لائٹ خرید کر سامنے والوں کو دے دے گا، تا کہ ان کےہمسایوںکو پریشانی نہ ہو اور نہ ابوکو غصہ آئے۔

ایک دن احمد صاحب کا موڈ بہت خوش گوار تھا ان کی بیگم نے ان سے سفارش کی کہ وہ فہیم صاحب کو کہیں مناسب ملازمت پر لگا دیں ، ان کے گھر کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیںہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، ان خراب حالات کی بنا پر انہیں اکثر چھوٹی موٹی چیزوں کے لیے پریشان ہونا پڑتا ہے۔ کوئی خوشی سے تھوڑی کسی سے کوئی چیز مانگتا ہے۔ مجبوری کیا کچھ نہیں کرواتی۔

اچھا میں کچھ کرتا ہوں،ان سے مل کر معلوم کرتا ہوں کہ وہ کیا کام کر لیتے ہیں احمد صاحب نے کہا، اسی وقت نوفل خوشی خوشی کمرے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں ڈھیر سارے نوٹ تھے،اس کے امی ابو حیران رہ گئے اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے وہ کچھ پوچھتے،وہ خودہی بول پڑا ’’ابو میں نے پانچ سوروپے جمع کیے ہیں۔‘‘’’ اچھا شاباش کمال کر دیا ہمارے بیٹے نے، مگر کیوں؟ا حمد صاحب نے پوچھا۔’’ ابو میں نے سوچا تھا کہ فہیم انکل کے گھر پر چار جنگ لائٹ نہیں ہے، ان کو اکثر ہم سے ادھار مانگنی پڑتی ہے،یہ کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑے نوٹ ابو کے سامنے ڈھیر کر دیے ۔آپ ان پیسوں سے ایک چارجنگ لائٹ لا کر سامنے والوں کو دے دیں۔ میری ٹیچر کہتی ہیں کہ ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔‘‘

نوفل کی امی نے اُسے پیار کیا،اآج انھیں اپنی تربیت پر فخر ہورہا تھا۔

دوسرے دن فہیم صاحب کا بیٹا چار جنگ لائٹ مانگنے آیا تونوفل کی کی امی نے اسے نئی لائٹ دی اور کہا کہ امی سے کہنا یہ آپ کے لیے تحفہ ہےرکھ لیں۔

تھوڑی ہی دیر میں بچے کی والدہ خود چلی آ ئیں وہ بہت شرمندہ تھیں ،مگر انھوں نے سمجھایا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ،مگر انہوںنے نئی لائٹ لینے سے انکار کر دیا اور جب انھوں نے بہت اصرار کیا تو کہا کہ پھر مجھے پرانی لائٹ دے دیں۔

احمد صاحب دفتر سے گھر آئے تو نوفل کی امی نے سارا قصہ سنایا تو وہ بولے،’’ چلوں جو ہوا، ٹھیک ہے میں جلد ان کے شوہر کو کہیں کا م پرلگوا دوں گا، اپنے بیٹے کا جذبہ دیکھ کرمیرا نیکی کا جذبہ بھی بلند ہو گیا ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے وہ سبق جو میں نے پڑھنے کے بعد بھی بھلا دیا ، وہ میرے بیٹے نے مجھے یاد کرادیا ہے،یہ آپ کی تربیت اور محبت کا اثر ہے،ہمارے بچے اسی لیے تو اچھے انسان نہیں بن پاتے کہ ہمارے قول وفعل میں تضاد ہوتا ہے۔ہم اپنے بچوں کو نیکی کی تلقین تو کرتے ہیں ،مگر خود نیکی نہیں کرتے جب کہ ہمارے آس پاس کے لوگ دکھی اورغم زدہ ہیں ،اگر ہم چاہیں تو لوگوں کے غم بانٹ کر نہ صرف نیکی کما سکتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کے لیے مثال بن سکتے ہیں۔

تازہ ترین