روز بروز ہم اپنی تاریخ اور نصب العین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آئیے! اپنی تاریخ کو یاد کرتے ہیں۔ یہ 1906ء کا سال تھا جب نواب سلیم اللہ کی رہائش گاہ ’’نواب باڑی‘‘ ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس روز سے مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ 1906ء سے 1940ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ تیزی سے مسلمانانِ ہند کی واضح اور بڑی سیاسی جماعت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ جماعت سندھ، بنگال، پنجاب اور بلوچستان سے ہوتی ہوئی آسام، کیرالا، بہار، مدراس، راجھستان، اتر پردیش اور سی پی میں پھیلتی ان علاقوں تک جا پہنچی جو ہندو اکثریتی علاقے تھے۔
23مارچ 1940کے تاریخی جلسے میں شریک ورکنگ کمیٹی کے ممبران قائداعظم محمد علی جناح، محترم لیاقت علی خان، سر اسکندر حیات، جناب شاہ نواز، جناب عامر اے خان، راجہ صاحب محمود آباد، خواجہ ناظم الدین، محترمہ امجدی بیگم، نواب زادہ اسمٰعیل خان، جناب کریم بھائی ابراہیم، محترم علی محمد خان دھلوی، عاشق علی وارثی، سید عبدالرحمٰن صدیقی، ملک برکت علی اور سعد اللہ عمر زئی شامل تھے۔ ورکنگ کمیٹی کے ان ممبران نے قراردادِ لاہور (پاکستان) تیار کی اور اے کے فضل حق نے قرارداد پیش کی، جس کی تائید چوہدری خلیق الزماں، محترم ظفر علی خان، سردار اورنگ زیب، جناب عبداللہ ہارون اور جناب قاضی محمد عیسیٰ نے کی۔
مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ جس میں قرارداد پیش کی گئی، 22تا 24مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا۔ اس زمانے میں نہ تیز رفتار سواریاں دستیاب تھیں اور نہ ہی ابلاغ کی رفتار تیز تھی لیکن مسلمان یکجہتی اور ملی جذبے کے تحت ہندوستان کے کونے کونے سے لاہور میں جمع ہوئے۔ زندہ دلانِ لاہور نے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے اپنے مسلم بھائیوں کے لیے کھول دیئے جبکہ نہ وہ ایک زبان بولنے والے تھے نہ ایک سے لباس پہنے والے لیکن مذہب و ملت کی خاطر سب ایک تھے۔ یہ تمام لوگ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے لاہور پہنچے تھے، کسی کو کسی نے اسپانسر نہ کیا تھا بلکہ پارٹی کی سپورٹ کے لیے ہر آنے والے نے 50پیسے کا ٹکٹ بھی لیا۔ آنے والے یہ بھی جانتے تھے کہ وہ ہندؤ اکثریتی علاقوں سے ہیں جو کھی بھی پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ یہ سیاسی جدوجہد کے لیے اٹھنے والے قدم تھے، یہ شعور کا سفر تھا۔
ان تین دنوں میں لاہور کے محبت کرنے والوں نے دل کھول کر مہمان نوازی کی اور ساتھ ہی مسلمانانِ ہند نے صدیوں کا سفر طے کرلیا۔ 1940سے 1947تک یہ تعلق مضبوط ہوتا گیا اس دوران مسلمانوں نے ناقابلِ فراموش جانی و مالی نقصان اٹھایا، پورے متحدہ ہندوستان میں آباد مسلمانوں نے جان اور عزت کا نذرانہ پیش کیا، یو پی، سی پی، بہار، بنگال، اڑیسہ اور خاص طور پر پنجاب کے لوگوں نے اپنا سب کچھ اس ملک پہ نثار کر دیا۔ لاکھوں قربانیوں کے بعد پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے ایک نظریہ کی بنیاد پر جنم لیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے مسلم لیگ کے اجلاسوں کا یہ سلسلہ ٹوٹ گیا، اگر آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا تو یہ ممکن تھا کہ ملک میں کبھی غیر جمہوری قوتیں برسر اقتدار نہ آتیں۔ وقت کی دھول اور غیر سیاسی قوتوں نے قراردادِ پاکستان کی تشریح کو ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ پہلے اس روز سرکاری ٹی وی پر لاہور میں ہونے والے قرارداد کے اجلاس پر خصوصی پروگرام نشر کیے جاتے تھے لیکن اب 23مارچ محض ایک رسمی دن کے طور پہ منایا جاتا ہے۔ ہمیں آج پھر اسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور کارکنان کو قراردادِ پاکستان کی یاد کو تازہ کرنے کی شدت سے ضرورت ہے جہاں ہم سب 23مارچ 1940کی طرح ایک ہو جائیں۔
آج ہم نظر نہ آنے والی زنجیر کو توڑ کر دوبارہ لاہور میں جمع ہوں اور اس شخص، جس نے تین بار حکومت کی اور مسلم لیگ کو دوبارہ زندگی دی، کے حق میں آواز اٹھائیں۔ موجودہ حکومت انتقام کی سیاست میں مصروف ہے جبکہ اپوزیشن آئین اور جمہوریت کی بالادستی کی بات کرتی ہے۔ موجودہ حکومت سے عوام ناامید ہو گئے ہیں، ایسے میں متحد ہو جانا وقت کی ضرورت ہے۔
کیا ہمارے مشاہیر، رہبر اور اکابرین ایسا ملک چاہتے تھے؟ کیا وہ ساری قربانیاں صرف اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے لیے دی گئی تھیں؟ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ اس ملک کی سالمیت اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب یکجان و یک جہت ہو جائیں۔ نئے سرے سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں۔ آئیں! مل کر قدم بڑھائیں۔ ملک کو تاریکی میں ڈوبنے سے بچائیں اور مستقبل میں نئی سیاسی جدوجہد کی مثال قائم کریں تاکہ آنے والی نسلوں کو ہم عظیم قوم نظر آئیں۔