اسلام آباد ( رپورٹ، رانا مسعود حسین، جنگ نیوز) پرویز مشرف کیخلاف آئین توڑنے پر سنگین غداری کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت مقدمہ میں ملزم کی غیر حاضری اور ملک سے فرارہونے کیخلاف توفیق آصف کی درخواست کی سماعت کے دورا ن چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے آبزرویشن دی ہے کہ ہم خصوصی عدالت کے اختیارات کو سلب نہیں کرنا چاہتے ہیں،سنگین غداری کی خصوصی عدالت آئندہ سماعت تک ملزم کا بیان قلمبندکرنے سے متعلق اپنے طور پر فیصلہ کرلے، ا گر وہ آئندہ سماعت تک فیصلہ نہیں کرتی تو یکم اپریل کو ہونے والی آئندہ سماعت پرہم اس مسئلے کا حل نکالیں گے، فاضل عدالت نے ملزم کو بیان قلمبند کروانے کیلئے تین آپشن دیئے ہیں، اول ملز م آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوجائے، دوئم ویڈیو لنک کے ذریعے بیان قلمبند کروائے، سوئم انکی جگہ پر انکے وکیل عدالت کے سوالوں کے جواب دیں،دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آئین توڑنے پر لاش کو پھانسی کی سزا دی گئی، برطانیہ میں اولیور کرامویل کی مثال موجود ہے۔ جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت پر اندازہ ہوگیاتھامشرف جلد ہی اسپتال میں داخل ہو جائینگے، ملزم عدالت کو یرغمال یا ہائی جیک نہیں کرسکتا، کوئی قانون سے بالاتر نہیں،3؍ نومبر کی ایمرجنسی کا ٹرائل ہر صورت ہوگا، جبکہ درخواست گزار نے کہا کہ ملزم نے عدالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا، عدالت کیساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ بعدازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس، آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس یحییٰ افریدی پر مشتمل بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار توفیق آصف،ملزم کے وکیل سلمان صفدر اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی پیش ہوئے ،چیف جسٹس نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یقین کریں کہ گزشتہ سماعت پر ہی مجھے اندازہ ہوگیاتھا کہ ملزم جلد ہی اسپتال میں داخل ہو جائیں گے ،جس پر درخواست گزار نے کہاکہ ملزم نے عدالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور عدالت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹرائل کوٹ مشرف کو مفرور قرار دے چکی ہے ،جس پر درخواست گزار نے کہاکہ ملزم کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کچھ دیر کیلئے بھول جائیں کہ ملزم کون ہے، اگر ملزم معقول وجہ یا نامعقول وجہ کے باعث پیش نہ ہو تو کیا عدالت بے بس اور بے یارو مددگار ہے، ملزم کو یہ آپشن نہیں دے سکتے کہ اپنی مرضی سے عدالت میں پیش ہو۔انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ایک ملزم عدالت میں پیش نہیں ہو رہا ہے ، اب کیا ہو سکتا ہے؟اگر ایک ملزم جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو کیا عدالت بالکل بے بس ہے؟ اگر قانون اس صورتحال پر خاموش ہے تو آئین سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے۔ ملزم کے وکیل نے کہا کہ پرویز مشرف حکومت کی اجازت سے بیرون ملک گئے تھے،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں لیکن عدالت کی ترجیح صر ف اور صرف قانون ہے ، جس طرح اس ملزم کے ساتھ ڈیل کیا گیا ہے یہ ہماری تاریخ کا الگ ہی باب ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدالت کی جانب آتے آتے ملزم کی گاڑیوں کا راستہ ہی مڑ جاتا تھا اور پھراسپتال سے میڈیکل سرٹیفکیٹ آ جاتے تھے ، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ ملزم ٹی وی پر بیان تو دے سکتاہے لیکن اسکائپ پر عدالت کو بیان نہیں دے رہا ہے ؟ جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ملزم نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھی بڑے زبردست بیانات جاری کئے ہیں۔ عدالت کے استفسار پر ملزم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ملزم بہت زیادہ علیل ہیں ، میں نے خود ان سے اسکائپ پر بات کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن بات نہیں ہوسکی ہے ،وہ فوکس نہیں کر پا رہے تھے اور باتوں کو بھول رہے تھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے برطانیہ کی تاریخ کے ایک ڈکٹیٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں اولیور کرامویل نامی ایک فوجی ڈکٹیٹر نے بزور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور پارلیمنٹ کے کیخلاف انتہائی تضحیک آمیز زبان استعمال کی تھی ، کچھ عرصہ کے بعدجب وہ اقتدار میں نہ رہا اور پارلیمنٹ بحال ہوگئی تو پارلیمنٹ نے اس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کا حکم دیا،جب مقدمہ شروع ہوا تو پتہ چلا کہ وہ مر چکا ہے، سوال اٹھا کہ کیا مرے ہوئے شخص کیخلاف ٹرائل ہوسکتا ہے؟ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ ملزم کا ڈھانچہ عدالت میں پیش کیا جائے،سوال پیدا ہوا کہ ایک ڈھانچے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ جرم قبول کرتا ہے یا نہیں؟جس پر ڈھانچہ لاکر اس سے سوال کیے گئے اور طے یہ پایا کہ چونکہ ڈھانچہ سوالوں کا جواب نہیں دے پایا ہے ،اسلئے اسکی خاموشی کو صحت جرم سے انکار سمجھا جائیگا اور ٹرائل کے اختتام پراس ڈکٹیٹر کے ڈھانچے کو پھانسی پر لٹکا یا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ میں زیر سماعت مقدمہ سے متعلق کچھ نہیں کہہ رہا ہوں ،فاضل عدالت نے مقدمہ کی سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے ملزم کے وکیل کو جواب دینے کیلئے مہلت دی، وقفے کے بعد جب وہ دوبارہ پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کوئی اچھی خبر لائے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ اولیور کرامویل کی مثال پر میرے کچھ تحفظات ہیں،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں، قانون بے شک اندھا ہوتا ہے لیکن جج اندھے نہیں ہوتے ہیں۔ دوران سماعت عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے ملزم کو واپس لانے کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے پراسس کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ملزم کے وکیل اپنے موکل سے اس حوالے سے ہدایات لے لیں ،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کے قیام سے اجتناب کرنا چاہئے ،کمیشن کے قیام سے پہلے پہلے ملزم اسپتال پہنچ جائے گا،ڈاکٹروں نے کمیشن کو ملزم سے ملنے بھی نہیں دینا ہے، بہتر ہے کہ ملزم اپنا بیان خود قلمبند کروائے ، اگر وہ خود بول سکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ان کے وکیل بہت اچھا بولیں گے۔ انہوں نے ازراء تفنن کہا کہ پرویز مشرف مکے شکے دکھاتے رہتے ہیں،اسلئے انکی بجائے، انکے وکیل ہی جواب دے دیں ، یہ نہ ہو کہ وہ عدالت کو بھی مکے دکھا دیں ،جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا ،چیف جسٹس نے کہا 28 مارچ کو مقدمہ سنگین غداری کی خصوصی عدالت میں سماعت کیلئے مقرر ہے، فریقین متفق ہیں کہ ٹرائل کورٹ ہی کو فیصلہ کرنے دیا جائے،بعد ازاں فاضل عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت یکم اپریل تک ملتوی کر دی۔